• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کسی کے کام میں مداخلت نہیں کی، قانون کی حکمران کیلئے سختی کی‘

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کسی کے کام مداخلت نہیں،سختی تذلیل کےلئے نہیں قانون کی حکمرانی کےلئے کی۔

لاہور ہائیکورٹ میں الوداعی تقریب سے خطاب میں جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹو ازم کی بنیاد انسانیت کی بہتری کے لیے رکھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری لاہور ہائیکورٹ کے ساتھ وابستگی 56 سال سے ہے، میرے والد صاحب نے یہاں پریکٹس کی، اب عوام کو وہ انصاف نہیں مل رہا جو پہلے ملا کرتا تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نعمتوں میں پاکستان کو پہلے نمبر پر شمار کرتا ہوں، میں نے کھلی کچہری کا سلسلہ شروع کیا توبہت مظلوم لوگ دیکھے، وہ لوگ بھی دیکھے جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ دوائی خرید سکیں، میں نے نیک نیتی سے جوڈیشل ایکٹو ازم کی بنیاد رکھی، اگرمیں اسپتال گیا ہوں تو یہ کہنے گیا کہ یہاں علاج کے وسائل میسر نہیں، میں نے اسپتال میں کسی کا آپریشن نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھ سے کئی غلطیاں ہوئیں، دانستہ نادانستہ، لیکن ان میں بدنیتی نہیں تھی، میں قانون کی حکمرانی کیلئے کوشش کرتا رہا ہوں، ججزسے گزارش کروں گا کہ اس کام کو ملازمت سمجھ کر نہ کریں، میں زندگی میں بہت کم رویا ہوں، آج آپ کے اس پیار نے میری آنکھیں نم کردیں، میں کیتھڈرل اسکول میں پڑھتا تھا، میرے والد صاحب یہاں پریکٹس کرتے تھے، میں ان کوریڈورز میں کھیلتا رہتا تھا۔

جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ وکلاء جوڈیشل سیٹ اپ کا لازم و ملزوم حصہ ہیں، وکلاء کو محنت کرنی ہے کیونکہ اعجازحسین بٹالوی بننا ہے، وکلاء کو حق کیلئے کیس کی پیروی کرنی ہے، آج اس عدالت کو 22 اے نے یرغمال بنالیا ہے، ہائیکورٹ کا یہ مقام نہیں کہ پرچہ رجسٹرڈ ہورہا ہے یا نہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف 2 ریفرنسز زیر التوا ہیں، ہم اہلیت پر فیصلے کریں گے، ججز کو بلیک میل نہیں ہونے دیں گے، ہم اپنا احتساب خود کررہے ہیں اور آپ سے بھی یہی امید رکھتا ہوں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کے عہدے کی مدت 17 جنوری کو ختم ہو رہی ہے جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ 18 جنوری سے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے۔

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

تازہ ترین