وفاق میں حکمران اتحاد کی طرف سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ”سرائیکی صوبہ“ کے نام سے ایک نئے وفاقی یونٹ کے قیام کی تحریک کی حوصلہ افزائی نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کو ایک ایسی ”متفقہ قرارداد“ منظور کرنے پر مجبور کردیا، جس میں ایک نہیں بلکہ دو صوبوں کی حمایت کردی گئی۔ اس کے بعد نئے صوبے یا صوبوں کا معاملہ ایک بار پھر وفاق کے پاس پہنچ گیا۔ دراصل پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرارداد منظور کرکے سرائیکی صوبہ کے ”دودھ“ میں مینگنیاں ڈالنے کی کوشش کی گئی تاکہ پیپلز پارٹی اور اتحادی سرائیکی علاقے میں کم سے کم فائدہ حاصل کرسکیں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پنجابی آباد کاروں پر مشتمل اپنے ووٹ بینک کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے یہ اقدام کیا کیونکہ بہاولپور ڈویژن میں پنجابی آبادکاروں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے اور وہ پارلیمانی اداروں میں بھی نمائندگی رکھتے ہیں۔ ان کاوشوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) پنجاب کو تقسیم کرکے دو یا ایک صوبے کے قیام کے حوالے سے کوئی ٹھوس یا قابل عمل حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ صدر آصف علی زرداری جو شروع سے ہی سرائیکی صوبے کے پرجوش حامی رہے ہیں اور نئے صوبے کے نام کے حوالے سے کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہیں، پنجاب اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں ایک پارلیمانی کمیشن کے قیام کی طرف عملی پیش رفت کرچکے ہیں۔ ایوان صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں قائم ہونے والا یہ کمیشن مسلم لیگ (ن) کے عدم تعاون کے باعث اپنے کام کو آگے نہیں بڑھا سکا تھا لیکن اب اس کے ایک اجلاس میں سفارشات مرتب کرنے کیلئے قواعد و ضوابط منظور کئے گئے ہیں جبکہ رواں ہفتے میں اس کا ایک اور اجلاس بھی متوقع ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں نئے صوبے یا صوبوں کی تشکیل کیلئے اخباری اشتہارات کے ذریعے عوام سے رائے طلب کی جائے گی حالانکہ یہ کوئی معقول تجویز نہیں ہے کیونکہ ہمارے کتنے لوگ اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان میں کتنے لوگ اپنی رائے کیلئے کچھ لکھ کر بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر اس کی بجائے موجودہ پارلیمانی اداروں میں موجود ان عوامی نمائندوں سے ملاقاتیں ہی کمیشن کیلئے کافی تھیں جو ان علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو مجوزہ صوبے کی حدود میں شامل ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر اس حوالے سے ایک قابل عمل ریسرچ پیپر پہلے ہی دے چکے ہیں۔ سرائیکی قوم پرستوں اور خطے کے دانشوروں اور سول سوسائٹی سے مشاورت کرکے بھی سفارشات تیار کی جاسکتی ہیں۔ اب جبکہ موجودہ جمہوری حکومتیں اپنی مدت کی تکمیل کررہی ہیں اور جمہوری ادارے نیا مینڈیٹ لینے کیلئے ایک بار پھر عوام کی طرف رجوع کرنے والے ہیں، مجوزہ صوبے کیلئے زیادہ تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمانی کمیشن کی فعالیت سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے سرکردہ رہنماؤں کے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کیلئے موجودہ اسمبلیوں سے ہی نئے صوبوں کے قیام کیلئے ترمیم منظور کرانے کی کوشش کرے گی اگرچہ اسے یہ سب کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں لیکن اس سے قبل بھی آئینی ترامیم کیلئے کچھ دو اورکچھ لو کے اصول کے تحت اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی گئی۔ پیپلز پارٹی بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ سندھ کے بعد پنجاب کے سرائیکی بولنے والے علاقوں میں اس کے پاس معقول ووٹ بینک موجود ہے اور سرائیکی صوبہ کی تشکیل کیلئے عملی اقدامات کرکے ہی وہ یہ سیاسی اثاثہ بچا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر آصف زرداری اپنے سیاسی کارڈ اور چالیں ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور انتہائی احتیاط سے استعمال کرنے کی روایت رکھتے ہیں۔ اس وقت عام انتخابات کیلئے اکثر سیاسی پارٹیاں اپنی حکمت عملی تیار کرکے میدان میں اتر چکی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف جو تازہ ترین تخمینوں اور جائزوں کے مطابق نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے، سرائیکی خطہ میں اپنی انتخابی مہم شروع کرچکی ہے۔ عمران خان ملتان، لودھراں اور لیہ میں بڑے اجتماعات میں الزام لگا رہے ہیں کہ پنجاب کے حکمران جنوبی پنجاب (سرائیکی خطہ) کیلئے مختص ترقیاتی فنڈز لاہور میں خرچ کررہے ہیں۔ یہی الزام سرائیکی علاقے کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے کئی عشروں سے لگاتے رہے ہیں۔ اس انتخابی مہم میں میاں نواز شریف وہاڑی میں جلسہ منعقد کرکے شریک ہوئے ہیں اور اپنے اگلے دور حکومت میں یہاں میڈیکل کالج، یونیورسٹی کا قیام اور کئی دیگر منصوبے پیش کئے ہیں۔ ایسے عالم میں مجوزہ سرائیکی صوبہ کیلئے کوئی نئی ترمیم آنے کی صورت میں نواز لیگ کی طرف سے اس کی مخالفت یا مزاحمت اس خطے میں اس کی سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگی۔ ایسی ہی غلطی انہوں نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کے وقت کی تھی۔ جس سے ہزارہ ڈویژن میں ان کی سیاسی ساکھ کو سخت دھچکا پہنچا تھا اور وہاں پر ہزارہ صوبہ کی تحریک شروع ہوئی تھی جو اگلے عام انتخابات میں بھی ہزارہ ڈویژن میں نواز لیگ کی کامیابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہوگی۔ اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ایک متحدہ اور مکمل سرائیکی صوبے کے آئینی پیکج کی طرف آنا پڑے گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی مجوزہ سرائیکی صوبے میں شمولیت کے حوالے سے ابھی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آسکی۔ ڈی آئی خان اور ٹانک کو اس پیکج کو شامل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد کی طرح ایک قرارداد صوبہ خیبر پختونخواہ اسمبلی سے بھی منظور کرائی جائے تاکہ نئے صوبوں کے قیام کا پارلیمانی کمیشن ایک مکمل سرائیکی صوبہ کیلئے اپنی سفارشات مرتب کرنے کے قابل ہوسکے۔ اگر یہ کمیشن بہاولپور ڈویژن کو سرائیکی صوبہ سے الگ کرکے نیا صوبہ بنانے کی سفارش کرتا ہے تو اس سے بھی نہ صرف یہ کہ صوبے کا مسئلہ متنازعہ ہوجائے گا بلکہ حکمران اتحاد حتیٰ کہ پنجاب کے حکمرانوں کو بھی اس سے زبردست سیاسی نقصان ہوگا جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ صدر زرداری سرائیکی صوبہ کے حوالے سے ایک واضح اور غیر مبہم موقف رکھتے ہیں، ان کی جماعت کے ایک رکن قومی اسمبلی، سابق وزیر اور پرانے رہنما افضل سندھو کی پارٹی سے علیحدگی بھی، اسی باعث ہوئی کہ وہ اس واضح اور دو ٹوک موقف کو ہضم نہیں کر پائے تھے۔ اب دیکھتے ہیں کسی گوناگوں مسائل اور انتخابی مہم کے شور شرابے میں اپنے اٹل ارادے کو صدر زرداری کیسے عملی شکل دیتے ہیں۔ بقول اقبال…
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ