• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار…سیمسن جاوید
’’آئیے UCH کی بحالی کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔40سے 50 کروڑ کا خسارہ ہم سب کو مل کر پورا کرنا ہے‘‘۔ یہ وہ پوسٹ تھی جو5 جنوری کو لاہور سے ہمارے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر لگائی جس پر بہت سے لوگوں نے اپنی سوچ کے مطابق برملا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اتنے پیسوں میں تو نیا ہسپتال بن سکتا ہے۔ وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے اسے کھنڈر بنا دیا ہے۔ یوسی ایچ کو لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے اور ان سے مطلوبہ رقم نکلوائی جائے۔ ان بشپس، پادریوں اور ان کے حواریوں کانام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ وہ ملک سے باہر بھاگنے نہ پائیں۔ امریکہ بھاگنے والوں کو واپس پاکستان لایا جائے اور ان سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ کام سپریم کورٹ نے ایک تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کر دیا ہے تاکہ اصل حقائق تک پہنچا جا سکے۔ سلام ہے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کو ،جنہوں نے پاکستان کے اندر بنیادی مسائل مثلاً تعلیم، صحت،پانی، قبضہ مافیا اور کرپشن سمیت دیرینہ مسائل کے حل کے لئے حکومت کو صحیح سمت پر ڈالنے اور دیرینہ کام مکمل کروانے کیلئے بھرپور دباؤ ڈالے رکھا، انہوں نے اقلیتوں کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کے لئے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کئے جس میں آسیہ بی بی جیسے پیچیدہ مقدمے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے عہدے سے فراغت پانے سے پہلے UCH کی بحالی کیلئے از خود نوٹس لیتے ہوئے قابل قدر اقدامات اٹھائے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ ہم ایف سی کالج گورننگ بورڈ کے چیئرمین پاکستان نژاد برطانوی ڈاکٹر پیٹر جے ڈیوڈ اور ان کے ساتھیوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو ایف سی کالج کو یونیورسٹی بنانے اور یو سی ایچ ہسپتال کی بحالی اور اسے میڈیکل کالج بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے یو سی ایچ بحالی فنڈ میں ایک لاکھ روپے جمع کروائے ہیں اور پنجاب حکومت سے بھی فنڈز کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ نے ایک کروڑ، بشپ ڈاکٹر آزاد مارشل نے 10لاکھ، سیموئیل پیارا نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ اسی طرح بہت سے دوسرے لوگوں نے مدد کے اعلانات تو کئے ہیں دیکھئے یہ بیل کب منڈھے گی۔ خدا ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ اور دوسرے مخیر حضرات کو ہمت واستطاعت اور برکت دے تاکہ وہ مسیحی اداروں کو بچا سکیں اور کمیونٹی کو اَپ لفٹ کرنے کیلئے اپنی جدوجہد میں سرخرو ہو سکیں۔ اس مقصد کے نتائج تب ہی برآمد ہوں گے جب قبضہ مافیا اپنے منتقی انجام کو پہنچے گا اور یہ ضروری ہے کہ ہم دوسرے اداروں کی بحالی کیلئے بھی اسی طرح اپنا کردار ادا کرتے رہیں تاکہ مسیحی کمیونٹی ترقی کر سکے۔
ہمارے ہاں ہوتا یہ کہ بہت سے لوگ تماشائی بن کرجہاز ڈوبنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں تاہم جب جہاز ڈوبتا ہے تو واویلا کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن عملاً کرتے کراتے کچھ نہیں تو سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ۔ جب غیر ملکی مشنری پاکستانی مشنریوں کو بہت سے فلاحی ادارے اور مشن کی پراپرٹیاں سونپ کر اپنے ملک واپس چلے گئے تو لالچی مشنریوں نے آہستہ آہستہ جعلی اٹارنی پاور بنا کر مشن کی قیمتی پراپرٹیوں کو بیچنا شروع کر دیا۔ کوئٹہ، کراچی اور پنجاب میں اہم وتاریخی مقامات پر مشنری پراپرٹیز تھیں جنہیں بیچ دیا گیا جن میں کئی ایسے انسٹیٹوٹس بھی شامل تھے جو نمایاں خدمات سرانجام دے رہے تھے ان میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نرسنگ انسٹیٹیوٹ بھی شامل تھے جہاں انہیں باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی تھی۔ یہ انسٹیٹیوٹ یا تو بند کر دیئے گئے یا سہولیات نہ ہونے کی بنا پر ان کی تعداد محدود ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ان جونکوں نے مسلسل مشنری فلاحی اداروں کا خون چوس کر انہیں اس نہج تک پہنچایا۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو جو پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم تھے نے معاشرتی اور معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے انڈسٹریز اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا اس وقت مسیحیوں کے پاس ہسپتالوں کے علاوہ تعلیمی ادارے تھے جو ان کی تعلیم و معاشی ترقی کا واحد ذریعہ تھے۔ خاص کرتعلیمی اداروں کو قومیانے سے مسیحیوں کو کاری ضرب لگی اور ان کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا جو بہت بڑا نقصان تھا۔ کئی غریب ملکوں سے آئے ہوئے مشنری خدمت کی آڑ میں مشنری اداروں کو بڑھا اور پھیلا تو رہے ہیں مگر اپنی کمیونٹی کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کر رہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو کب تک کھلی چھٹی ملی رہے گی اور وہ اپنی من مانیاں کرتے رہیں گے اور کرپشن میں ملوث کرپٹ سیاسی لیڈروں کی طرح مسیحی لٹیروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے جو قبضہ مافیا بنے مشنری پراپرٹیوں پر تسلط جمائے ہوئے ہیں یہی جونکیں کمیونٹی کی خستہ حالی کی ذمہ دار ہیں اس کے ساتھ ساتھ کسی حد تک ہم خود بھی اپنی اس زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں جن میں یکجہتی اور جرأت کا فقدان ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے ہمیں اندرونی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ ڈپریشن میں اور فرسٹریشن میں مبتلا افراد جو کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی ان کا کمیونٹی کی بہتری میں کوئی کردار رہا وہ بھی انہیں تنقیدی حدف بنانے میں مصروف عمل ہیں اور لائق تحسین ہیں وہ جو کچھ کر جانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ مسیحی کمیونٹی کی حالت زار کی ذمہ دار نہ صرف بیرونی استحصالی قوتیں ہیں بلکہ اندرونی استحصال نے بھی اس کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے کیونکہ ہمارے پاس لیڈر شپ کا سنگین فقدان ہے، ہماری نئی نسل کو اپنی کمیو نٹی کو مشکلات سے نکالنے اور بھیڑیوں سے بچانے کے لئے میدان میں اترنا پڑے گا اور تمام مذہبی اور سیاسی لیڈروں کا محاسبہ کرتے ہوئے بوسیدہ و فرسودہ نظام سے ٹکرانا ہوگا جو کمیونٹی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
تازہ ترین