• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر صابر حسین راجپوت

اگر آپ کا بچہ یہ کہے ’’مجھے بھنا ہواگوشت کھانا ہے ‘‘تو آپ کیا کریں گے ؟یقیناََاپنی جیب دیکھیں گے۔اگر استطاعت رکھتے ہیں،تو کوشش کریںگے کہ پہلی فرصت میں بچے کی خواہش پوری کردیں ۔ظاہر ہے اگر آپ اپنے بچوں کی خواہشات کاخیال نہیں رکھیں گے، تو پھر کون رکھے گا ؟بہت کم ایسا ہوتا ہے ،کہ ہم اپنے معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے کی کوشش نہ کریں۔کسی سے بھی پوچھ لیجیے ،ہر شخص یہ جواب دے گا ’’میں اپنے بچوں اور گھروالوںکے لیے ہی تو کمارہا،ان کی خواہشات اور ضروریات پوری کرنے کے لیے سخت مشقت کررہا ہوں،میں ان کا خیال نہیں رکھوں گا تو اور کون رکھے گا؟‘‘

یہ بات درست ہے۔ایسا ہونا بھی چاہیے اپنے گھر کی ذمے داریاں آپ نہیں نبھائیں گے ،تو پھر کون نبھائے گا؟لیکن کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ گھر کی ضروریات سے لے کر بچوں کی خواہشات پوری کرنے تک ،کے لیے آپ جو محنت کررہے ہیں،کیا اس کی بنیادپر یہ کہہ سکتے ہیں کہ واقعتاًآپ اپنی تمام تر ذمےداریاں نبھارہے ہیںاور اس کے سوا آپ کا کوئی فرض نہیں۔ کئی لوگ تمام تر کوششوں اور محنت کے باوجود کلی طور پر اپنے بچوں کاحق ادا نہیں کرپاتے ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل کے بچے اور نوجوان جذباتی ،نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہورے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ محض آپ ہی اپنے بچوں کےمسائل کے ذمےدار ہیں،لیکن مسائل کے آگے ہتھیار ڈال دینے سے وہ ختم نہیںہوتے بلکہ انہیں سوجھ بوجھ سے نمٹانا پڑتا ہے۔بچوں کی شخصیت مضبوط ہونی چاہیے، انہیں حالات کاڈٹ کر مقابلہ کرنا آنا چاہیے۔ یاد رکھیے ،ذہن کا توازن اور شخصیت کی مضبوطی ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی ۔اوائل عمر سے مضبوط بنیاد یں میسر ہوں ، تربیت مستحکم اور مثبت خطوط پر ہو تب ہی بچے کی شخصیت ایسی بنتی ہے،جو مستقبل میں اسے مسائل سے نمٹنے اور اپنے پیروں پر کھڑاہونے کا اہل بناتی ہے۔

اگرہر روزبچے کی خواہش کے مطابق اسے کھانا پیش کیا جائے گا،تو یہ عمل اس کی شخصیت کو مضبوط نہیں کرے گا۔کیوں کہ اگر آپ بچے کی ہر خواہش آنکھ بند کرکے پوری کرتے ہیں،تو اُس کی شخصیت میں ایسے سنگین جذباتی مسئلے یا ذہنی عارضےکے بیچ ڈال رہے ہیں،جو دس بیس سال بعد ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلے گا۔

’’اب پچھتائے کیا ہو وت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘کے مصداق آپ کنارے بیٹھ کر کف افسوس ملیں گے، کیوں کہ اولاد بڑھاپے کی دھوپ میں سایہ دار شجر بننے کے بہ جائے آپ کے جی کاروگ بن جائے گی۔آپ پھر لاکھ کوشش کے باوجود اس کی ساچ کے منفی زاویےنہیں بند سکیں گے۔دوسری طرف اگر یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کی کوئی خواہش پوری نہ کرکے اور ہر وقت تنقید ،ڈانٹ ،مار کے ذریعے اس کی شخصیت مضبوط بناسکتے ہیں توجان لیجیے کہ آپ اس میں ایک اور مختلف نفسیاتی پیچیدگی پیدا کردیں گے۔پہلی صورت میں ،ضد اور دوسری صورت میں ،بغاو ت، جنم لیتی ہے۔نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد قدم قدم پر انفادی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔اگر ان کی شخصیت متوازن اور مضبوط نہ ہو،تو ان کا ذہن ایسی کیمیائی تبدیلیوں سے متاثر ہونے لگتا ہے جو رفتہ رفتہ نفسیاتی امراض کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں۔

والدین اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہر دو صورتوں سے اولاد کو بچانے کے لیے ان کے علاوہ کوئی اور کچھ نہیں کرسکتا۔آپ نے ہی حفاظتی بند باندھنے ہیں اور پہلا قدم اُٹھانا ہے۔آپ کو اپنے بڑوں سے جو کچھ ملا اسے سود سمیت اپنی اولاد کو لوٹانا ہے۔

بارہ گھنٹے نوکری کرکے بارہ ہزار روپے کمانے میں کوئی ہرج نہیں،اگر بچنے والے چار گھنٹوںمیں آپ اپنے بچوں پر توجہ دیتے ہیں،تو یقین کیجئے آپ وقتی معاشی مشکلات برداشت کرکے اپنی اولاد کو ممکنہ نفسیاتی مسائل سے محفوظ رکھ سکیں گے۔

لیکن خیال رہے کہ آپ گھر والوں کو جو قیمتی وقت دے رہے ہیں،اسے ممکنہ حد تک کارآمد اور تعمیری بنانا بھی آپ ہی کا کام ہے۔آپ نے یقیناً یہ محاورہ سنا ہوگا کہ ’’کھلائے سونے کا نوالہ، دیکھے شیر کی نظر‘‘ علم نفسیات کے جدید بنیادی اصول بھی اس محاورے کے حق میں ہیں۔

بچوںں کی معصومانہ شرارتوں ، کوتاہیوں پر درگزر سے کام لیجئے، جائز اور ضروری خواہشات ضرور پوری کیجئے،تعلیمی و سماجی ضروریات ،ترتیت کا خیال رکھیے لیکن ان کے اندر ضد ،ہٹ دھرمی، جھوٹ اور تشدد کی عادات پیدا نہ ہونے دیں۔اس سے یہ مراد یہ نہیں کہ آپ انہیں ڈانٹیں،ماریں یاکوئی جسمانی یا ذہنی سزا تجویز کریں۔یوں ان کا معصوم ذہن آپ کی شخصیت اور رویے کو لا محالہ منفی انداز میں محسوس کرے گا اور وقت کے ساتھ آپ کی بات اثر کھونے لگے گی۔ بچوں کی مناسب تربیت کے لیے ترکیب اور تکنیک سے کام لینا چاہیے۔بعض انتہائی صورتوں میں ہی بچوں کی بھلائی کے لیے ہلکی پھلکی سزا دیناضروری ہے۔کوشش کیجئے ،کبھی کسی اجنبی کے سامنے بچے کو برا بھلا نہ کہیں ۔ انتہائی ضرورت ہو تو گھور کردیکھ لیں ۔پھر بھی کام نہ چلے تو ذرا سخت لہجے میں روکیں ۔اگلا درجہ یہ ہے کہ اسے تنہائی میںنرمی یا سختی سے سمجھائیں، بطور سزا کوئی ممکنہ انعام روکنے یا اس کی خواہش پورا نہ کرنے کی دھمکی دیں۔اس مرحلے پر بچہ آپ کی بات مان لے تو ٹھیک ،بصورت دیگر لازم ہے کہ آپ واقعتاًاسے انعام دینے یا خواہش پوری کرنے سے رُک جائیں ، تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ،جب تک درست رویہ اختیار نہیں کرے گا ،اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔

مثال کے طور پر اگر بچہ اکثر یہ کہنے لگے’’میں کھانا نہیں کھارہا، مجھے دال پسند نہیں،برگر لاکر دیں یا بروسٹ‘‘ایسی صورت حال میں یہ نہ ہو کہ آپ اس کی محبت میں دوڑے دوڑے بازار جائیں اور اس کا من پسند کھانا خرید لائیں۔اس موقعے پر آپ کا یہ سخت رویہ ہونا چاہیے اسے سمجھائیںکہ ’’نہیں ،اس وقت تو تمہیں دال ہی کھانی پڑے گی، اس میں برگر کی نسبت زیادہ طاقت ہوتی ہے۔اگر تم دال نہیں کھانا چاہتے،تو انڈہ کھا لو، لیکن بازار سے کوئی چیز نہیں آئے گی۔اگر یہ بھی قبول نہیں تو ٹھیک ہے بھوکے ہی رہو۔‘‘یہ رویہ بچے کے دل میں آپ کی عزت کم نہیں کرے گا ، لیکن اُسے اپنی ہر خواہش کے نتیجے میں فوری اور وہ بھی من پسند نتیجے کی توقع نہیں رہے گی۔پھر کہنا ماننے پر اسے مستقبل میں انعام ملنے کی توقع رہے گی اور اس کی انا بھی مجروح نہیں ہوگی ،اس کی شخصیت کے زاویے مربوط ،سوچ منفی رخ کروٹ نہیں لے گی اور عزت نفس بھی برقرار رہے گی ۔وہ اپنے حال پر صبر و شکر اور قناعت کے ساتھ رہنا سیکھے گا ۔اس کا اپنی ذات پر اعتماد بھی بحال رہے گا۔

یاد رکھیے اولاد کی تربیت بنیادی نفسیاتی اصولوں کے مطابق کیجیے اور بچوں ں کو و قت دیجئے۔ان کا معصوم ذہن ہر بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا،اس لیے وضاحت کے ساتھ بات سمجھائیے۔ شروع سے ہی ان کےذہنوں میں صحیح اور غلط کا فرق بٹھایئے،مگر نرمی اور آہستگی کے ساتھ ۔ ان کے فطری تجسّس ،شرارتوں اور معصومانہ سوالوں کی حوصلہ افزائی کیجئے، ان پر ڈانٹ ڈپٹ مت کیجیے۔ غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کریں لیکن بعد ازاں تنہائی میں بٹھا کر انہیں سمجھائیں۔ہر وقت اور ہر بات پر ان کے رویّے، حرکت پر تنقید اور تادیب سے گریز کریں۔ وقتاً فوقتاً انہیں اچھی باتیں بتاتےرہیے کہ اچھی اور بری باتوں کی تمیز کیا ہوتی ہے،انہیں کس طرح رہنا چاہیے، بڑوں سے بات کرنے کی تمیز سکھائیے۔مارپیٹ اور بے جاتنقید سے پرہیز کیجیے۔ یاد رکھیےوقت سب سے بڑا استاد ہے،آپ کا غیر ضروری سخت رویہ یا بے جا محبت بچوں کو وہ کچھ نہیں سکھا سکتی ،جو مثالی رویہ سکھاتا ہے۔آپ ہی اپنی اولاد کو مستقبل کے ممکنہ نفسیاتی و جذباتی مسائل کے گرد اب میں الجھنے سے بچا سکتے ہیں۔ یقیناً کوئی والدین نہیں چاہتے کہ ان کا لاڈلا یا لاڈلی آگے چل کر ماہر نفسیات کے کلینک پہنچے لہٰذا آپ ہی بہتر تربیت کے ذریعے انہیںنفسیاتی مسائل سے بچا سکتے، مستقبل میں ایک بہتر انسان بننے میں مدد کر سکتے ہیں۔ 

تازہ ترین