• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے زندگی…غفار انقلابی
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کی طرف سےدرندگی اور جارحیت کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ کاٹپورہ کولگام میں مظاہرین اور فوجی دستوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔یہ تصادم گزشتہ روز اس وقت شروع ہوا جب بھارتی فوجی دستوں نے یاری پورہ کاٹپورہ کولگام گاؤں کو محاصرے میں لے کر تلاشی آپریشن شروع کیا-مجاہدین آزادی کے کمانڈر زینت السلام اور اس کے ساتھی شبیر احمد ساکن چلی پورہ شہید ہونے کی خبرملتے ہی کولگام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور بھارتی فوج کے دستوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے اشک آور گیس کے گولوں کے ساتھ ساتھ پیلٹ گنوں کا استعمال کیا- سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان دیر شام تک جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہنے کے نتیجے میں کولگام میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔ اس بیچ پلوامہ کولگام اور شوپیاں میں موبائل انٹرنیٹ سروس کو منقطع کیا گیا اس مسلح تصادم آرائی میں جاں بحق وادی کے مجاہد آزادی البدر کے چیف کمانڈر زینت السلام اپنے ساتھی سمیت اپنے آبائی دیہات میں سپرد خاک کئے گئے دونوں کی 12 مرتبہ نماز جنازہ ادا گئی۔ اس دوران زینت کے آبائی گاؤں میں فورسز نے گولیاں اور پیلٹ چلائے جس کے نتیجے میں 11افراد زخمی ہوئے نماز جنازہ کے دوران مجاہدین آزادی بھی نمودار ہوئےاور زینت کو سلامی دی۔جنوبی کشمیر میں ہڑتال کے بیچ انٹرنیٹ سروس دوسرے روز بھی معطل اور ٹرین سروس بھی بند رہی۔ اس طرح کے واقعات مقبوضہ کشمیر میں روز کا معمول بن گئے ہیں جہاں ہر روز فوج اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے گھر گھرتلاشیوںکی آڑ میں سخت اور کڑاکے کی سردی میں پورے کے پورے گاؤں کے مکینوں کو عورتوں، بچوں اوربوڑھو ں سمیت رات کے پچھلے پہر اپنے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات مشتبہ مکانات کو دھماکہ خیز بارود سے اڑا دیا جاتا ہے۔ سول آبادی کے بیچ اس آپریشن کو " آ ل آؤٹ آپریشن " کا نام دیا گیا ہے جو کہ جولائی 2016سے برہان وانی کی شہادت سے لے کر آج تک جاری ہے مگر مقبوضہ کشمیر کے گورنر کلی اختیارات کے مالک ستیہ پال ملک نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کشمیر میں امن و امان بحال ہو گیا ہے اور ریاست میں اسمبلی کے انتخابات کیلئے ماحول سازگار ہے حال ہی میں ہونے والے پنچائتی انتخابات میں کشمیر وادی میں ووٹوں کا تناسب انتہائی کم رہا اور کچھ پولنگ اسٹیشن پر ایک، ایک یا دو، دو ووٹ ہی پڑے- گزشتہ سال سرینگر کے ایک پارلیمانی حلقے میں جہاں سے فاروق عبداللہ ممبر منتخب ہوئے ہیں سات سے دس فیصد ووٹ پڑے جبکہ باقی لوگوں نے یٰسین ملک، عمر فاروق اور علی گیلانی کی اپیل پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور بقول ستیہ پال ملک اس الیکشن میں آٹھ لوگ مارےبھی گئے اور ان خونی الیکشن کے بعد تصدق مفتی کے حلقے کے انتخابات ملتوی کئے گئے جو کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر اب تک نہیں ہوئے- مگر کلی اختیارات کا مالک گورنر ستیہ پال ملک روز کی ہلاکتوں کے باوجود سنگین صورتحال کو سب اچھا کہہ رہاہے- کشمیری رہنما یٰسین ملک ، عمر فاروق اور علی گیلانی نے کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیر کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیلوں میں رکھا جا رہا ہے اور ان پر نام نہاد اور جھوٹے مقدمے قائم کئے گئے ہیں۔ ان رہنماؤں نے انسانی حقوق کے اداروں اور ایمینسٹی انٹرنیشنل سے بالخصوص اپیل کی ہے کہ جموں و کشمیر کی جیلوں میںقید بے گناہ کشمیری مرد و زن اور عمررسیدہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔مقبوضہ کشمیر میں جہاں آزادی پسند قیادت اپنے اس موقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ بھارتی حکومت سے حق خود ارادیت کے سوا کسی مسئلے پر بات چیت نہیں ہوگی وہاں بھارت نواز لیڈر فاروق عبداللہ اور اور محبوبہ مفتی تسلسل کے ساتھ زور دے رہے ہیں کہ کشمیر میں بے گناہ ہلاکتوں پر روک لگائی جانے کیلئے بھارتی فوج کی جانب سے شروع کیا جانے والا " آل آؤٹ آپریشن " بند کیا جائے اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے حریت قیادت اور پاکستان سے مذاکرات شروع کئے جائیں۔ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو مودی حکومت طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے مگر دوسری طرف وہ حریت قیادت سے مذاکرات سے انکاری ہوتے ہوئے کشمیر میں شہری ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے- کشمیر کی سیاست میں ایک نیا موڑ آنے کی نوید گزشہ جمعہ کو سنائی دی جب انڈین ایڈمنسٹریٹر سروس (آئی اے ایس) کے اعلیٰ بیوروکریٹ ڈاکٹر شاہ فیصل نے سرینگر میں پریس کانفرنس میں سول سروس سے اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا اور کہا کہ کشمیر میں نوجوان نسل کو سننے کی بجائے ان کو ہلاک کیا جا رہا ہے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے کشمیر میں دفعہ 370اور 35اے کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے اگر ایسا ہوا تو ہمارا بھارت سے نکاح ٹوٹ جائے گا پھرمذاکرات کیلئے کچھ نہیں بچے گا۔ ڈاکٹر شاہ فیصل نے مزید کہا کہ میرا استعفیٰ میرے چھوٹے سے غصے کا اظہار ہے اور مجھے کشمیری لوگوں کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے ایسا میں کشمیر کے نوجوانوں سے مشورہ سے کروں گا - مقبوضہ کشمیر کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شاہ فیصل کا استعفیٰ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے جو کشمیر کی سیاست میں تلاطم برپا کر سکتا ہے۔ بعض مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بھارتی سیاست دان کیجریوال اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے متاثر ہیں اور وہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے کر کشمیری لوگوں اور بھارتی مسلمانوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا چاہتے ہیں یاد رہے کہ شاہ فیصل ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹری پیشہ اختیار کرنے کی بجائے انڈین سول سروس کے امتحان میں پورے بھارت میں اول آئے تھے اور مقبوضہ کشمیر میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے ہیں کچھ عرصہ قبل کشمیر میں شورش کے دوران ان کے والد کو نامعلوم بندوق برداروں نے گولی مار کر شہید کردیا تھا۔ ان کی طرف سے سیاست میں آنا ایک سیاسی دھماکہ ہے مگردیکھنا یہ ہے کہ اگلے کچھ عرصہ کے بعد وہ علی گیلانی کے پاس جاتے ہیں یا فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس یا پھر ان نوجوانوں کے ساتھ مل کرنئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھتے ہیں جو اپنا گرم لہو بہا کر آزادی کا پرچم بلند رکھے ہوئے ہیں۔ اس مہینے کے آخر میں بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیر سے متعلق دفعہ 35A کو ختم کرنے کے کیس کی سماعت پھر سے شروع ہو گی اس شق کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کے سوا کسی بیرونی ریاست، فرد یا ادارے کو جموں و کشمیرمیں کوئی بھی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں۔ کشمیری قیادت متفقہ طور پر اس شق کو ختم کرنے کی بھارتی فرقہ پرست قوتوں کی سازش کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر چکی ہے۔ ڈاکٹر شاہ فیصل اپنے پہلے ہی بیان میں اس شق کو ختم کرنے کے عمل کو نکاح ٹوٹنے سے تشبیہ دے چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہ فیصل کے کشمیری سیاست میں آنے سے آزادی کی نئی ولولہ انگیز قیادت پیدا ہو گی جو آزادی کی تحریک کو آگے بڑھائے گی یا ایک روایتی سیاسی کردار ہو گا جو اقتدارکی راہ داریوں میں گم هہو جائے گا- کشمیر میں نہتے شہریوں کی بے پناہ ہلاکتوں کےبیچ اور بھارتی فوجیوں کی جانب سے پیلٹ اور بلٹ کی گن گرج کے بیچ نریندر مودی 15جنوری کو جموں کا دورہ کر کے لوک سبھا کے اس سال مئی میں ہونے والے الیکشن مہم شروع کر نے کا اعلان کریں گے۔ گزشتہ چار سالہ مودی دور میں مودی جب بھی کشمیر آئے کشمیریوں نے مکمل ہڑتال کے ساتھ پرامن مظاہرے کئے اور کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیا اب کی بار جموں کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مودی کی حفاظت کیلئے نئی دہلی سے سپیشل دستوں کے علاوہ 1500تازہ دم فوجی تعینات کئے گئے ہیں نہتے کشمیریوں کو مارنے اور اندھا کرنے کی پالیسی کشمیر میں برسوں سے جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دورہ کشمیر کے دوران نریندر مودی بلٹ اور پیلٹ کی سفاکانہ پالیسی کو ختم کرنے کا اعلان کر تے ہیں یا کشمیریوں کو اور مارو اور جو بچ جائیں ان کو اندھا کر دو کی پالیسی جاری رکھنے کا بھاشن دیتے ہیں۔
تازہ ترین