• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انکم ٹیکس میں نمایاں کمی ہونے سے حالات خراب ہوگئے، حفیظ پاشا

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا نے کہاہے کہ انکم ٹیکس میں نمایاں کمی ہونے سے حالات خراب ہوگئے ہیں،سابق چیئرمین سینیٹ سینئر رہنما پیپلز پارٹی رضا ربانی نے کہا کہ داروں کے درمیان ڈائیلاگ ہونا چاہئے،،سابق وزیر قانون خالد انور نے کہا کہ چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا پروگرام انقلابی اور بے مثال ہے، ماہر افغان امور رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ طالبان غیرملکی افواج کے انخلاء کا مسئلہ پہلے حل کرنا چاہتے ہیں جو امریکا طالبان مذاکرات میں ہی حل ہوگا۔سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا نے مزیدکہا کہ پچھلے چھ مہینے ٹیکس وصولی میں نمایاں کمی نظر آئی ہے، حکومت نے ستمبر میں جو منی بجٹ پیش کیا وہ معیشت کی بڑھوتری کی امید کے ساتھ پیش کیا گیا تھا،حکومت کے بجٹ میں ٹیکسیشن پروپوزلز بہت کمزور تھے، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے سوارب حاصل ہونے کی توقع نامناسب تھی، انکم ٹیکس میں نمایاں کمی ہونے سے حالات خراب ہوگئے ہیں، بجٹ خسارہ پہلے چھ مہینے میں ایک ہزار روپے سے زیادہ ہوگیا ہے جو پچھلے سال کے مقابلہ میں پچیس فیصد زیادہ ہے، اگر یہی رجحان رہا تو سال کے آخر تک خسارہ 2ہزار 600ارب تک پہنچ جائے گا، منی بجٹ عام طور پر مختصر مدتی مسائل کے حل کیلئے پیش کیا جاتا ہے، حکومت طویل مدتی حکمت عملی بنانا چاہتی ہے تو اس کیلئے سالانہ بجٹ کا وقت ہی مناسب ہے۔ حفیظ پاشا نے کہا کہ انکم ٹیکس پر بہت زیادہ چھوٹ دیدی گئی ہے،ٹیکس سے چھوٹ کی رقم چار لاکھ سے بارہ لاکھ کرنے سے 90ارب روپے کا نقصان ہوا، یہ وقت مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کو ریلیف دینے کا نہیں تھا، موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے تین کھرب کے قریب قرضہ لیا، پاکستان کی تاریخ میں کبھی اسٹیٹ بینک سے اتنا زیادہ قرضہ نہیں لیا گیا، اس کے نتیجے میں نوٹ چھاپنے کا سلسلہ ریکارڈ سطح پر جا پہنچا ہے جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوگا، حکومت کی کمرشل بینکوں کی جگہ صرف اسٹیٹ بینک سے پیسے اٹھانا غلط پالیسی ہے، حکومت کو قومی بچت میں اضافہ کرنا چاہئے تاکہ سرمایہ کاری میں بہتری آئے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کو لازمی طور پر کم کرنا ہوگا۔ سابق چیئرمین سینیٹ سینئر رہنما پیپلز پارٹی رضا ربانی نے کہا کہ عدلیہ کے سربراہ کی طرف سے بھی یہ بات خوش آئند ہے کہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ ہونا چاہئے،جب تک اداروں میں ڈائیلاگ نہیں ہوگا اس وقت تک مسائل حل نہیں ہوں گے، آئین میں پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ کا کردار واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں اس ثلاثی تقسیم کو احترام نہیں دیا گیااور نہ ہی سویلین بالادستی اور پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کھوسہ نے ڈائیلاگ کے عمل میں صدر کی سربراہی کی بات سے اختلاف رکھتا ہوں، چیف جسٹس نے شاید آئینی نظام ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کی ہے،میری نظر میں یہ آئینی نہیں بلکہ لیگو پولیٹیکل مسئلہ ہے، پاکستان کی تاریخ میں پریذیڈنسی کا کردار زیادہ خوشگوار نہیں رہا ہے، ہم نے وہ دور بھی دیکھا جہاں نئی ثلاثی تقسیم وجود میں آئی جس کا صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف حصہ ہوتے تھے، ماضی میں ایوان صدارت میں آرٹیکل 58ٹو بی کو استعمال کیا گیا جو پارلیمانی جمہوریت پر اثرانداز ہوا۔ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ کچھ حلقے پارلیمانی نظام ناکام ہونے اور ملک کو صدارتی نظام کی طرف لے جانے کی بات کررہے ہیں، صدارتی نظام کا مطالبہ آئین اور سیاسی جدوجہد کی نفی ہوگا، اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین میں صدر مملکت کا عہدہ علامتی رہ گیا ہے، پارلیمنٹ سب سے بہترین فورم ہے جہاں اداروں میں ڈائیلاگ ہوسکتے ہیں، ماضی میں آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان پارلیمنٹ میں تشریف لائے، پارلیمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں تمام اہم اداروں کے سربراہان تشریف لاتے تھے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں تمام اہم ملکی امور پر گفتگو ہوتی تھی، پارلیمانی نظام ہی ملک کے لئے سب سے اچھا نظام ہے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت اس وقت انکیوبیٹر میں ہے درحقیقت پارلیمان کی بالادستی، سویلین حکمرانی اور اختیارات کی تقسیم بری طرح پامال ہورہی ہے، جہاں تک فوج کاتعلق ہے عمومی طور پر اسے ایگزیکٹو کو ڈیل کرنا چاہئے، لیکن زمینی حقائق دیکھیں تو فوج کا اسٹیک ہولڈر کے طور پر کردار سامنے آتا ہے۔

تازہ ترین