• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ100روز میں پنجاب پولیس کےکئی اعلیٰ افسران برطرف

لاہور(صابرشاہ) ساہیوال کے بدقسمت سانحے کےبعدکائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کےایڈیشنل انسپکٹر جنرل، ڈپٹی انسپکٹرجنرل، ایک ایس ایس پی اور ایک اور متعلقہ ڈی آئی جی کو برطرف کرکےپنجاب حکومت نے غالباًعوامی غم وغصےکوٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن گزشتہ 100دن کے دوران ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ عثمان بزدار کی حکومت نےکسی وجہ سے ایک سات ہی پولیس اہلکاروں کوبرطرف کردیاہو۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 30اکتوبر2018کو پنجاب حکومت نے 17جون 2014کو ماڈل ٹائون سانحے میں ملوث پانچ اعلیٰ افسران کو برطرف کردیاتھا۔ جن افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایاگیااور اوایس ڈی تعینات کیاگیا تھا ان میں سینئر سپرانٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پیز) اور سپرانٹنڈنٹ پولیس(ایس پیز) دونوں شامل تھے۔ جن لوگوں کو ہٹایاگیا تھا ان میں معروف واہلا، طارق عزیز، عبدالرحیم شیرازی، آفتاب پھولروان اور عمران کامران بخاری شامل تھے۔ اس سے کچھ وقت قبل گزشتہ سال 17اکتوبرکو پنجاب پولیس کے سربراہ امجدجاویدسلیمی نےڈپٹی سُپرانٹنڈنٹ اور کئی انسپکٹرز سمیت 116پولیس افسران کو اُسی واقعے کی بناپرہٹادیاتھا جس میں 14شہری مارےگئےتھے اور 100سے زائد افراد گولیاں لگنےاور لاٹھیاں لگنےسےزخمی ہوئے تھے۔ ستمبر2018میں وزیراعظم عمران خان نےماڈل ٹائون سانحے میں ملوث پولیس اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن افسران کو ہٹانے کے احکامات جاری کیےتھے۔ پنجاب حکومت نے لاہورہائیکورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے 5دسمبر2017کو ماڈل ٹائون سانحے کی رپورٹ جاری کی تھی۔ انکوائری رپورٹ میں کہاگیاتھا کہ پولیس افسران نے اُن حقائق کو چھپانے کی کوشش کی تھی کہ کس نےمظاہرین پر گولیاں چلانے کاحکم دیاتھا۔ 9اکتوبر2018کو پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس محمد طاہر کو وفاقی حکومت نے اُن کے عہدے سے اس لیےہٹادیاتھاکہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کےاہم پارٹی عہدیداروں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز حکومتی افراد کی مرضی کے مطابق پوسٹنگ اور ٹرانسفرسے متعلق سفارش نہیں مانی تھی۔ محمدطاہر نے اس اعلیٰ عہدے پر صرف چارہفتے گزارےتھے۔
تازہ ترین