• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈیشنل رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ4؍ سال بعد ملازمت پر بحال

اسلام آباد (انصار عباسی) اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کی مخالفت پر چار سال تک اذیت برداشت کرنے حتیٰ کہ اپنی ملازمت کھو دینے والے اُس وقت کے ایڈیشنل رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ اعجاز احمد کو بالآخر اسی عدالت میں اسی عہدے پر بحال کر دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی اور نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے ستمبر 2016ء میں قرار دیا تھا کہ اعجاز احمد کی نشاندہی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی بھرتیاں غیر قانونی تھیں۔ لیکن، افسر کو کوئی انعام تو نہیں ملا لیکن وہ 22؍ جنوری 2019ء کو اس وقت تک اذیت میں مبتلا رہے جب بالآخر موجودہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان کی بحالی کا حکم دیا۔ اعجاز احمد کو اُس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے 9؍ جنوری 2014ء کو بھرتیوں کی مخالفت کرکے چیف جسٹس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے الزام میں معطل کر دیا تھا۔ اگست 2015ء میں 20؍ ماہ کے طویل عرصہ تک معطل رہنے (جس کی عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی) کے بعد انہیں 20؍ اگست 2015ء کو جبراً ریٹائر کر دیا گیا۔ اسی دوران، اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی جانے والی بھرتیوں کا معاملہ 2014ء میں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور عدالتِ عظمیٰ نے 26؍ ستمبر 2016ء کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں اعجاز احمد کے موقف کی تائید کی اور 2011ء سے کی جانے والی بھرتیاں ختم کرنے کا حکم دیا۔ تاہم، اعجاز احمد کو ملازمت پر بحال نہیں کیا گیا اور انہیں 28؍ ماہ کا انتظار کرنا پڑا جس کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 23؍ جنوری 2019ء کو سنائے گئے فیصلے پر انہیں اپنی سابقہ پوزیشن پر بحال کیا گیا۔ اگرچہ افسر نے اُس وقت کے چیف جسٹس کے غلط اقدامات کی نشاندہی کرنے کی وجہ کافی کچھ برداشت کیا لیکن خوش قسمتی کی بات ہے کہ نئے چیف جسٹس سے انہیں انصاف مل گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کا حکم دیدیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ مقرر ہونے کے فوراً بعد جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے پیش رو ریٹائرڈ جسٹس انور خان کاسی کے جاری کردہ اپ گریڈیشن، پوسٹنگ / ٹرانسفر اور من پسند افسران کو سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کے آرڈرز بھی معطل کر دیے۔ سپریم کورٹ نے اعجاز احمد کی نشاندہی پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی غیر قانونی بھرتیوں کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور / یا اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ میں آئین کے آرٹیکل 208؍ میں وضع کردہ مینڈیٹ کے برعکس بھرتیاں کیں۔ اگر مجاز اتھارٹی خود ہی جان بوجھ کر شاندار امیدواروں کو نظر انداز کرکے لاہور ہائی کورٹ کے رول نمبر 26؍ یا اسلام آباد ہائی کورٹ کے رول نمبر 16؍ کے تحت من پسند لوگوں کو بھرتی کرنے لگے تو عدلیہ کا تشخص ناقابل تلافی حد تک مسخ ہوگا۔ اس طرح کے اقدامات عوام کے عدلیہ پر بداعتمادی کا سبب بنیں گے۔ ہم میرٹ پر بھرتی ہونے والے لوگوں کیلئے انصاف کے دروازے بند کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہم کسی کو قواعد میں طے کردہ بھرتی کے شفاف طریقہ کار کو نظر انداز کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ مسٹر کاسی کیخلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیس میں انتظامی ٹریبونل یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کو سپریم کورٹ کی عدالتی کارروائی پر ترجیح دی گئی کیونکہ اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور خان کاسی، جنہیں سپریم کورٹ نے غیر قانونی بھرتیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، کو کونسل کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد جلد ہی کلیئر قرار دیا گیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کاسی کیخلاف درج چاروں شکایات مسترد کر دیں اور کہا کہ ان کیخلاف ناشائستہ فعل (مس کنڈکٹ) کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اعلان کیا تھا کہ تفصیلی مشاورت اور مباحثے کے بعد، ریکارڈ پر دستیاب مواد کی روشنی میں کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جج کیخلاف ناشائستہ فعل کا کوئی معاملہ نہیں بنتا۔ لہٰذا، سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کیخؒاف تمام شکایات مسترد کر دیں۔
تازہ ترین