• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گل زمین خان سے میری ملاقات انیس سو چھیانوے میں ، میری مرحومہ اہلیہ صائمہ عمار کے ساتھ ہوئی۔ صائمہ چونکہ خود بھی بینائی سے محروم تھیں اس لئے ہم نے مل کے نابینا افراد کے لئے ایک چھوٹا سا پروجیکٹ شروع کیا تھا جس میں نابینا افراد کے لئے صوتی کتب ریکارڈ کی جاتی تھیں۔ اس وقت حالات ایسے تھے کہ ریکارڈنگ کا کوئی اچھا سسٹم بھی موجود نہیں تھا ، لکڑی کی ایک پیٹی پر ایک جہازی سائز ٹیپ ریکارڈر رکھ کر سارا دن نابینا افراد کے لیے آڈیو کتب ریکارڈ ہوتی تھیں۔ گل زمین خان انہی کتابوں کی تلاش میں کے پی کے شہر دیر کے گائوں کٹیاڑی سے تشریف لائے تھے۔ اس وقت گل زمین کی عمر قریباََ اٹھارہ برس تھی۔ ایف ایس سی کے سیکنڈ ایئر میں انہیں علم ہوا کہ انکی بصارت رفتہ رفتہ جا رہی ہے۔ وہ آنکھوں کی بیماری اندھراتا یا آر پی کا شکار تھے۔ اس بیماری کا علاج دنیائے سائنس کے پاس نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ گل زمین کے والدین پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ والد محنت مزدوری کرتے تھے ۔مگر انکو اپنے چاروں بچوں کو تعلیم دینے کا بے حد شوق تھا۔ گل زمین نے انکے شوق کو بچپن سے دل کے قریب رکھا اور پانچویں کلاس میں وظیفہ حاصل کیا۔ یہی روایت مڈل میں بھی قائم کی اور میڑک میں بھی اول آئے۔ ایف ایس سی کا سیکنڈ ائیر شروع ہوا تو بصارت چلی گئی۔ اس وقت تک انہیں صوتی کتب کا علم نہیں تھا۔ گل زمین نے تین سال اپنی چھوٹی بہن کے ایف اے میں پہنچنے کا انتظار کیا تاکہ وہ اس قابل ہو جائے انہیں کتابیں پڑھ کر سنا سکے ۔ تین سال بعد دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ تعلیم میں بے انتہا قابل ہونے کے باوجود گل زمین ایف اے اور بی اے میں کوئی پوزیشن لینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امتحان لینے والے نابینا شخص کا امتحان لینے کے طریقہ کار سے واقف نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے ایف اے میں گل زمین کو وہ رائٹر ملا جو خود ساتویں جماعت میں تھا اور بی اے میں ایک نویں جماعت کے طالبعلم نے انکے لئےپرچہ امتحان لکھا۔ بہن کی شادی کے بعد بی اے کی صوتی کتب حاصل کرنےکے لئے گل زمین اسلام آباد آئے اور ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ گل زمین خا ن کو انگریزی اد ب سے بہت شغف تھا اور وہ اسی مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے دیر سے آکر اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور انگریزی زبان و ادب کے ماسٹرز میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ نمل یونیورسٹی نے گل زمین کو بہت اچھی ملازمت کی پیشکش کی مگر گل زمین کا دل اپنے ہی لوگوں میں لگتا تھا اس لئے انہوں نے مالاکنڈ یونیورسٹی میں تدریس کا فیصلہ کیا۔ دوہزار نو میں گل زمین کو ہائر ایجوکیشن کی طرف سے پاکستان کے بیسٹ ٹیچر کا ایوارڈ دیا گیا۔ ایچ ای سی کی طرف سے یہ ایوارڈ آج تک صرف ایک معذور فرد کو ملا ہے اور یہ تمغہ گل زمین کے سینے پر سجا ہے۔ آج کل گل زمین انگریزی ادب میں اپنی پی ایچ ڈی کے اختتامی مراحل میں ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اسی سال وہ گل زمین سے ڈاکٹر گل زمین کہلائیں گے۔

میں نے ذاتی طور پرپورے پاکستان کے قریباََ تمام ہی اسپیشل اسکولوں کا دورہ کیا ہوا قہے اور دنیا بھر میں بھی کئی ممالک میں مجھے اسپیشل اسکول دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ میرے تجربے کے مطابق پاکستان میں پنجاب اور سندھ نے اس سلسلے میں پھر کوئی کام کیا مگر کے پی اور بلوچستان کی صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ اس بات کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ پنجاب اور سندھ میں نابینا افراد کی صورت حال تسلی بخش ہے۔ ان دو صوبوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں بریل پریس لگے ہوئے ہیں اور نابینا افراد کو بریل کی کتابیں میسر ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پسماندہ علاقے دیر سے ایک نابینا بچہ تعلیم کے سفر پر نکلتا ہے اور پی ایچ ڈی کے مدارج پر پہنچتا ہے۔ پاکستان کا بہترین استاد منتخب ہوتا ہے ۔ تدریس میں وہ کمال حاصل کرتا ہے کہ دور دور سے طلبہ اسکا لیکچر سننے کے لئے آتے ہیں تو یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ گل زمین کو صرف ہیرو کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ وہ ایک کرامت ہے۔ جس پر سارے پاکستان کو فخر ہے۔ سارے کے پی کو فخر ہے۔ سارے مالا کنڈ کو فخر ہے۔ اگر آپ اب بھی گل زمین خان کی انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کوکوئی عام سی بات سمجھ رہے ہیں تو یوں کیجئے کہ ایک منٹ کے لئےاپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں اور بند آنکھوں سے کتاب پڑھنے کی کوشش کیجئے۔ کچھ نظر آیا ؟

تازہ ترین