• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمرانی سرکار کو ایک داد تو ضرور دینی چاہئے کہ اس کی ایک حکمت عملی بڑی کامیاب جارہی ہے اورآنے والے دنوں میں یہ حکمت عملی اپنے انجام کو بھی پہنچ جائے گی کہ ہم جیسے ہفتہ وار لکھنے والے جو پورا ہفتہ اپنے زخموں کو اس امید کے ساتھ تازہ رکھتے ہیں کہ اپنے لفظوں سے ان زخموںپر مرہم رکھنے کی کوئی تدبیر کریں گے مگر جب یہ زخم بھرنے کی باری آتی ہے تو ادارتی صفحے پر کالم کی گنجائش نہ ہونے کے باعث اگلے ہفتے تک ان زخموں کو پھر سے تازہ رکھنا پڑتا ہے ۔ محسوس یہی ہو رہا ہے کہ عمرانی سرکار رہی تو یہ ادارتی صفحات سکڑتے سکڑتے صرف ادارتی نوٹ تک محدود ہو جائیں گے اور پھر آپ کو صبح سویرے ہماری یہ سریلی بانسری سننا نہیں پڑے گی مگر خان صاحب یاد رکھئے گا کہ یہ بانسری ایک دن ایسی بین بجائے گی کہ پٹاری سے پھنیئرسانپ نکلے گا ،جو سب کو ڈسے گا ۔ یہ جو آپ ہمیں اپنی تھری ڈی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے پیغام دے رہے ہیں کہ ’’کیسے مایوس اور ناامید ہو جائیں اس شخص سے جس کی پوری زندگی عزم وہمت، قربانیوں اور جذبہ جنون کی عملی مثال ہے۔ اس نے جو کہا وہ کرکے دکھایا اور آگے بھی ان شاء اللہ کرکے دکھائے گا، کپتان آپ کے پاکستانی بالکل نہیں گھبرائے اور ہر قدم پر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ اس سوشل میڈیا پیغام کے ساتھ ایک تصویر بھی جاری کی گئی ہے جس میں ہمارے وزیراعظم مسکرا رہے ہیں اور ان کے دائیں بائیں پروٹوکول افسرہیں۔ جناب خان صاحب یہ سچ ہے کہ یہ قوم گھبرانے والی نہیں، یہ قوم ڈٹ جانے والی ہے اور جب یہ ڈٹ جائے تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی۔یہ نام نہاد سوشل میڈیا حقیقی میڈیا کا سر کچل کر اور غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر ہمیں آپکی عظمت و ہمت اور حوصلے کی داستانیں سنا رہاہے، اگر آپ اس پیغام کو غور سے پڑھیں تو پی ٹی آئی کا تھری ڈی سوشل میڈیا حقیقی معنوں میں آپ کے اندر کی گھبراہٹ کی عکاسی کررہا ہے۔ اس بار آپ کی ٹیم نے عوام کو نہیں آپ کو پیغام دیا ہے کہ سنبھل جائیں۔ یاد رکھئے غریب کا پیٹ آپ کے تھری ڈی پیغامات سے بھرنے والا نہیں۔ آپ منی بجٹ لائیں، غریب عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبائیں اور آپ کے اسمبلی میں بیٹھے ارکان اس منی بجٹ سے قبل اپنی تنخواہوں، مراعات و سہولیات میں اضافے کا بل پیش کرکے اپنا پیٹ بھریں پھر تماشہ دیکھئے کہ عوام کیسے آپ کو تگنی کا ناچ نچواتے ہیں۔میامی یونیورسٹی کی تازہ ریسرچ کے مطابق ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آمدن میں کمی بیشی براہ راست انسان کی زندگی اور موت سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر ماہانہ یا سالانہ آمدن میں اچانک کمی آجائے تو جان لیوا بھی ہوسکتی ہے اور یہ آثار نظر آرہے ہیں کہ پاکستان میں انسانوں کی موت ہونے والی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ چین نے چاند پر زراعت کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔ بات حضرت انسان کے چاند پر قدم رکھنے سے شروع ہوئی تھی، اب چاند پر حضرت انسان کی آباد کاری تک پہنچ چکی ہے۔ چینی خلائی ایجنسی نے چاند پر انسانی بستیاں آباد کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے اور تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند پر ایک مکان تیار کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مستقبل پر نظررکھنے والی قوم کی شان تو دیکھئے کہ انسان کو چاند پر آباد کرنے سے پہلے ہی اس کی خوراک اور رہنے سہنے کا انتظام کیا جارہا ہے ۔ یہاں ہماری صورت حال یہ ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں حضرت انسان کو قدرتی طور پر زمین پر میسر ہیں انہیں بھی چھینا جارہا ہے۔ یہ کیسی بے قدری ہے کہ آلو بھی سڑکوں پرٹکے ٹوکری ہو رہا ہے اور آلو اُگانے والے کاشت کار بھی۔ حکمرانوں نے تو غریبوں میں مٹھاس کیا تقسیم کرنا تھی اُلٹا گنے کےکاشتکاروںکو ذلیل وخوار کرکے شوگر مافیا کے حوالے کردیا اور کاشت کاروں کا خون نچوڑنے کے ساتھ ساتھ انہیں شوگر ملوں اور بینکوں کا مقروض بنا دیا۔ دنیا چاند پر بستیاں بسانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور ہمارے حکمران زمین پر آباد بستیاں تباہ و برباد کرنے پر تلے ہیں ، قبضہ مافیا کو ختم کرنے کے بجائے کچی بستیاں اُجاڑ رہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے،یہ کیسا انقلاب ہے کہ قبضہ مافیا کو مافیا بنانے والے تو محلوں میں چین کی نیند سوئیں اور غریب عوام کو سر عام دھوکہ دینے والے پکڑے بھی نہ جائیں ۔ سکون و چین کی زندگی کس کو پسند نہیں۔ کوئی تو ڈاکوئوں، چوروں کو چوراہے پر لٹکائے، کوئی تو چاند پر نہیں تو زمین پر بسنے والوں کو جینے کا حق دلائے۔ یہ شیلٹر ہومزکے نام پر سیاسی دکانداریاں کب تک چلیں گی۔ کب وہ دور آئے گا جب کوئی اس دھرتی پر خوش حالی لائے گا اور فٹ پاتھوں پر زندگی بسر کرنے والوں کو اپنی چھت ملے گی۔ سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں کو کوئی چھوٹا موٹا روزگار ملے گا۔ نوجوانوں کو محفوظ مستقبل کی کوئی کرن نظر آئے گی۔ خان صاحب آپ کو غریب کی غربت کا احساس نہیں ہورہا۔ آپ کے ہاتھوں معاشی تباہی تو ہوچکی اوراب آپ سیاسی تباہی کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔

حالات بڑی تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں مگر آپ کو نظر نہیں آرہے۔ آپ کی حکومت تو عام قانون سازی کرنے میں بُری طرح ناکام رہی تو ان حالات میں آپ کی ٹیم میں ایسی کوئی صلاحیت ہے کہ وہ اپوزیشن کو اس بات پر قائل کر پائے کہ فوجی عدالتوں کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے میں ان عدالتوں کا کیا کردار ہے؟ ہماری اعلیٰ عدلیہ بلا مبالغہ ایسی صلاحیت رکھتی ہے کہ دلیرانہ اور دیانت دارانہ فیصلے کرسکے مگر مخصوص حالات میں دہشت گردوں کے مقدمات سے نمٹنا بذات خود ایک کڑا امتحان ہوتا ہے۔ ایک طرف آپ قومی میڈیا کو کچل رہے ہیں تو دوسری طرف آپ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اپوزیشن کو اس مسئلے پر قائل کرسکیں۔ یہ آپ کا اور آپ کی حکومت کا بھی کڑا امتحان ہے اور اس کڑے امتحان سے گزرنا ہی ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین