• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

تھانوں کی حالت زار عمارتیں شکستہ، پولیس موبائلیں ناکارہ

پولیس ،عدالت اور جیل،کو کرمنل جسٹس سسٹم کی تکون کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی سقم ہو تو انصاف کاقتل اور مسائل پیدا ہوتے ہیں یہ تینوں بنیادیں اسی وقت بااختیار اور مضبوط ہوسکتی ہیں جب یہ کسی کہ تابع نہ ہوں ۔،بد قسمتی سے سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح میرپورخاص میں بھی پولیس کے معاملات کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے ۔صوبائی حکام کی عدم توجہی کے باعث انصاف کی فراہمی کی پہلی سیٹرھی، تھانے ان گنت مسائل کا شکار ہیں ،سندھ کے چھوٹے شہروں میں ہی نہیں بلکہ بڑے شہروں میں بھی تھانے تحقیق وتفتیش کے حوالے سے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ،تفتیش کا نظام اس قدرفرسودہ اورناقص ہے کہ عدالتیں بھی فوری اور حقیقی انصاف کی فراہمی سے قاصر رہتی ہیں ،جس کا فائدہ جرائم پیشہ عناصر کو ملتا ہے۔ زیادہ تر گناہ گار افراد، مقدمات سے باعزت بری ہو جاتے ہیں اور بے گناہ لوگ برسوں جیلوں میں اذیتوں کا شکار رہتے ہیں ۔پاکستان کے قیام کو سات عشرے گزرنے کے باوجود ملک پر حکم رانی کرنے والے ،محکمہ پولیس کو انصاف کے تقاضوں اور عوامی امنگوں کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب نہیں ہوسکےہیں۔

تھانوں کی حالت زار عمارتیں شکستہ، پولیس موبائلیں ناکارہ
پولیس کی ناکارہ موبائل وین

تقریباً 16 سال قبل پولیس میں بعض اہم اصلاحات کا آغاز کیا گیا تھا ،جس کے تحت پولیس کے نظام کو آپریشن اور انویسٹی گیشن کا نام دے کر دوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ لیکن عدم توجہی اور سنجیدگی کے فقدان کے باعث پولیس کامذکورہ نظام چند سالوں میں اپنی اہمیت وافادیت کھو بیٹھا ہے۔،سندھ کے چوتھے بڑے شہر اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میرپورخاص سمیت ضلع بھر کے پولیس اسٹیشنوں کی زیادہ تعداد طویل عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہے ،تھانوں میں پینے کے صاف پانی ،ضروری فرنیچر ،بیت الخلاء اور دیگر بنیادی سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ پولیس فورس کے زیر استعمال، بوسیدہ ہتھیار اور دھکا اسٹارٹ موبائل ٹرانسٹورپ پولیس نظام کاتمسخر اڑا رہی ہیں۔ضلع کے بعض تھانے دوسرے سرکاری محکموں کی عمارتوں کام کررہے ہیں۔ میرپورخاص میں 19پولیس اسٹیشن واقع ہیں جن میں ایک وومن تھانہ بھی شامل ہے ۔ ان میں سے سات پولیس اسٹیشن 2012میں قائم کئے گئے تھے یہ اور بات ہے کہ ان تھانوں کے قیام کے باوجود میرپورخاص سمیت ضلع بھر میں امن وامان کی صورت حال تسلی بخش نہیں رہی ہے۔،زیادہ تر تھانوں میں عملے ،سائلین اور ملزمان کے کیلئے بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں۔

متعدد تھانوں کی عمارتیں انتہائی بوسیدہ اور خستہ حالت میں ہیں جب کہ بعض تھانےجھاڑ جھنکاڑ اور خستہ حالی کی وجہ سے جنگل اور کھنڈرات کامنظر پیش کررہے ہیں۔،تھانوں کی عمارتوں کی بوسیدہ حالت کی وجہ سے کسی بھی وقت کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔ چند سال قبل ضلع کے بعض تھانوں میں سائلین کوعزٹ و وقار کے ساتھ اپنی شکایات درج کرانے کے لیےبیٹھنے کےلیے فرنیچر سے آراستہ شکایتی مراکز قائم کئے گئے تھے جووقت گزرنے کے ساتھ زبوں حالی کا شکار ہوتے گئےاور ان کا فرنیچر بھی ٹوٹ پھوٹ گیا۔

جہاں تک پولیس کو دی جانے والی ٹرانسپورٹ کاتعلق ہے تو ان کایہ حال ہے کہ زیادہ تر گاڑیاں مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوکر تھانوں میں کھڑی ہیں۔ ان میں سے بیشتر گاڑیوں کے پرزے اور ٹائر غائب ہوچکے ہیں اور وہ انیٹوں پر ٹکی ہوئی ہیں۔ جو گاڑیاںعلاقوں میں گشت کرتی نظر آتی ہیں ان میں بیشتر دھکا اسٹارٹ ہیں۔عام لوگوں کا خیال ہے کہ خوبصورت عمارتیں تعمیر کرنے اور پولیس نفری یا تھانوں میں اضافہ کرنے کے بجائے ان کے معیار میں بہتری لانے کی ضرورت ہے،اس حوالے سے مختلف ریٹائرڈ افسران ،سینئر وکلاء اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے ہے کہ پولیس کی بہتری اور اسے عوام کی امنگوں کے مطابق مکمل طور پرڈھالنے کیلئے تھانوں کا ہر قسم کے سیاسی معاملات سے آزاد رکھنے اور انہیں جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے ان کے خیال میں پولیس کے نظام تفتیش کو جدید سائنٹیفک بنیادوں پر استوار کرکے ہی صوبے میں امن و آشتی کی فضا برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ ایک بزرگ شہری شیخ عاشق علی کے رائے ہے کہ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے چند سالوں کے بعد ہی سے اقتدار کے ایوانوں میں زیادہ تر ان لوگوں کا ہی غلبہ رہا ہے جنہیں ملک وقوم کے مفاد سے کوئی غرض نہیں ان کے ذہنوں میں پولیس کے ذریعے ہمیشہ حاکمیت قائم کرنے کا تصور رہا ہے ۔

تھانوں کی حالت زار عمارتیں شکستہ، پولیس موبائلیں ناکارہ
تھانے کی عمارت میں جھاڑ جھنکاڑ کا جنگل

سندھ کے سابق آئی جی اے ڈی خواجہ نے پولیس کو جدید خطوط پر آراستہ کرنے اوراسے عوام دوست بنانے کے لیے حتی المقدور کوششیں کیں۔ان کے دور میں اس محکمے کے بعض شعبوں کی بہتری نظر آتی ہے۔ اسی مقصد کے تحت چند ہفتے قبل میرپورخاص میں پولیس عوامی سہولت سینٹر کا قیام عمل لایا گیا جس کے لیے تقریباً چار کروڑ روپے کی لاگت سے ایک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ مذکورہ سینٹرمیں عوام کو شناختی کارڈ کی گمشدگی کی رپورٹ کے اندراج، ڈرائیونگ لائسنس ،ملازمت اور بیرون ملک سفر کرنے کیلئے کریکٹر سرٹیفکیٹ کے حصول ،کرائے دار اور ملازمین کی رجسٹریشن سمیت دیگر سہولتیں ایک ہی چھت کے نیچے میسر ہوں گی۔ یہ سینٹر مکمل طور سے کمپیوٹر ائز اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہوگا، جہاں چاق و چوبنداور تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا گیا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین