• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برٹش کوالٹی پریس کاتسلسل اور گہرائی سےعمیق مطالعہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ بریگزٹ تباہی کاایک دہانہ ثابت ہو سکتا ہے۔اس کے اثرات صرف برطانیہ یورپ پر ہی نہیں دنیا بھر میں مختلف سطحوں پر مرتب ہوں گے اس لیے بریگزٹ افئیرز سے انگیج رہنے کی وسیع پیمانے پر ضرورت ہے اور خاص طور پر برطانویوں کیلئے یہ ایک دہانہ یا کھائی ہے اسی باعث دی ٹائمز نے The Brexit Brink کے عنوان سے اداریہ لکھا ہے جس میں یہ نمایاں بھی کیا ہے کہ دی پرائم منسٹر ایک بامقصد ووٹ کے لیے تاخیر کرسکتی ہیں لیکن زیادہ مدت تک نہیں ، دی ٹائمز لندن اداریہ پیر 11فرروری۔مزید، پندرہ روز قبل صریح واضح طور پارلیمنٹ نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ برسلز واپس جائے اور ان امور پر دوبارہ مزاکرات کرے جن پر برطانیہ یورپ سے انخلاء کرسکتا ہے۔ محدود اکثریت سے ممبران پارلیمنٹ نے یہ پاس کیا تھا کہ اگر آئریش بیک سٹاپ پر تبدیلی کی جاسکے تو پھر وہ پرائم منسٹر کے یورپ چھوڑنے کے پہلے سے کیے گئے اگریمنٹ کو منظور کرنے پر رضامندی ظاہر کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ ایک کھلا سوال ہے کہ کیا یہ اچیو achieve بھی کیا جاسکتا ہے ؟ لیکن اس بات کا واضح طور پر امکان نہیں کہ ایسا کم از کم جمعرات تک حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ویلنٹائن ڈے حتی کہ اگلا پارلیمنٹری فلیش پوائنٹ ہے۔ ایک بار پھر یہ دن ہائی ڈبیٹ اور غیر یقینی نتائج کا حامل دن ہوگا۔ اس پارلیمانی ڈبیٹ ،بحث کا وعدہ وزیراعظم تھریسا مے نے کر کھا ہے جو ایک سٹریٹیجی ہے کہ آخر پر کنٹرول کھونے سے بچا جائے۔ پچھلی بحث کے بعد سے ای یو آفیشلز کبھی کبھار سرد اور بعض اوقات گرم یعنی دونوں طرح کے الفاظ سے برطانوی اپروچ کا جواب دے چکے ہیں مگر کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی۔دی ٹائمز کا جائزہ ہے کہ اس جمعرات کو “بامقصد” ووٹ کے بجائے مسز مے کا پلان ایک “نیوٹرل موشن” کا ہے۔ جو ڈبیٹ کی اجازت تو دیتا ہے لیکن یہ بحث کوئی قانونی فورس کی حامل نہیں ہوگی ۔ وزیراعظم کی سوچوں کا محور ترامیم ہوگا یہ دباو ڈالنا کہ بریگزٹ میں تاخیر ہو یا ایک نرم انخلاء ہو بجائےجس پر ان کی پارٹی سٹینڈ کریگی ۔ ایک مرتبہ پھر مسز مے مزید وقت کے حصول کی خواہش کریں گی دی شیڈو بریگزٹ سیکرٹری سر کئیر سٹیمر نے گزشتہ روز ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ پرائم منسٹر کا پلان کلاک کو رن ڈاؤن کرنا ہے ۔ وہ پارلیمنٹ کو ایک سچے ووٹ سے انکار کررہی ہیں ایسا بامقصد ووٹ یورپی سمٹ جو 21 مارچ کو طے ہے تک روکنا ہے کیونکہ اس کے بعد بمشکل ایک ہفتہ ہی رہ جائے گا جبکہ برطانیہ نے قانونی طور پر یورپ سے انخلا کر جانا ہے اس پوائنٹ پر یورپ کی طرف سے کسی حرکت کے بغیر پارلیمنٹ کے ہاس صرف یہ چوائس رہ جائے گی کہ وہ یاتو کسی معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہونے دے یا پھر مسز مے کی جو ڈیل پارلیمنٹ پہلے مسترد کر چکی ہے اسی کو قبول کر لے یعنی مسز مے کے اس گیم پلان کے باعث پارلیمنٹ ابرو کی جنبش بھی نہیں کر پائے گی تاہم یہ ایک خطرات سے پر سٹریٹیجی ہے دو ہفتے قبل پارلیمنٹ معمولی اکثریت سے ہی سعی اصولی طور پر نو ڈیل کو مسترد کر چکی ہے لیکن اس ووٹ کو ایک اسپائریشنل ووٹ کے طور پر لیا جارہا ہے جبکہ یہ بات پیش نظر رکھی جانی چاہیے کہ نو ڈیل نہ تو برطانیہ اور نہ ہی یورپی یونین کے مفاد میں ہے اور اس ایک ایسی غیر یقینی فضا قائم ہوجائے گی جو برطانیہ اور یورپ کے درمیان ریلیشنشپ تعلقات کار اور کاروبار کو بھی شدید طور پر متاثر کرے گی رپورٹس کے مطابق مسز مے کسی واجب ووٹنگ کو 27فروری تک ملتوی کرنا چاہتی ہیں اس وقت تک وزیراعظم کے پاس دوبارہ یورپ کے ساتھ مزاکرات کیلئے ایک مہینہ بچے گا جبکہ دو سال کے دھویں گردوغبار کی فضا کے بعد لیبر پارٹی کی اپنی پوزیشن اب کلئیر ہوئی ہے کہ ایک واضح فوکس ایک مستقل کسٹم یونین کو بنایا گیا ہے اور یورپی کمیشن کا صدر پہلے ہی یہ واضح کرچکا ہے کہ اس طرح کے کسٹم یونین کا وعدہ ہی وہ واحد رستہ ہے جس سے ممکن ہے کہ ای یو پھر بیک سٹاپ کے موضوع پر مزاکرات ہر آمادہ ہو پائے۔ لیبر پارٹی چاہتی ہے کہ کل کی بحث بامقصد ہو مگر کل ہی معلوم ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کس قسم کے طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں کیا یہ ڈبیٹ کسی پیش رفت کا باعث بنے گی یا ایک بے مقصد مشق ۔ جبکہ دی ڈیلی ٹیلی گراف 12 فروری کو یعنی گزشتہ روز آن لائن یہ رپورٹ کیا ہے کہ اب جبکہ بریگزٹ مزاکرات فائنل سٹیج میں داخل ہورہے ہیں وزیراعظم کا اصرار ہے کہ running down the clock نہیں کررہیں اور انہوں نے ایم پیز کو اپنے اعصاب ہولڈ رکھنے پر زور دیا ہے۔ جبکہ ملکی پولیٹیکل ایلیٹ کلاس بریگزٹ میں الجھی ہے دوسری طرف بزنس کے مختلف سطح پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور سروسز مزید سخت کٹوتیوں کے باعث کم ہوتی جارہی ہیں ۔ ایک سٹڈی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک نو ڈیل جرمنی میں کم ازکم ایک لاکھ اور فرانس میں 50ہزار ملازمتو ں کیلئے خطرات پیدا کردے گی ماہرین معاشیات کی جمع تفریق یہ ہے کہ برطانیہ کے ساتھ ٹریڈ رکاوٹوں سے صرف جرمن کار انڈسٹری میں اندازے کے طور پر پندرہ سو ورکرز ملازمتوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ویسے تو دنیا بھر میں اس ریسرچ کے مطابق بریگزٹ کے باعث نقصان ہوگا لیکن ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ سنٹرز جیسا کہ وولفز برگ اور باب لین جن ہیں زیادہ متاثر ہوں گے ۔ برطانیہ جرمن اشیاء کی چوتھی بڑی مارکیٹ ہے لیکن ریفرنڈم سے لیکر اب تک پہلے سے ہی پراڈکٹس کے بہاؤ میں چھ سے آٹھ فیصد کمی آ چکی ہے اور اگر یوکے برے طریقے سے سنگل مارکیٹ اور کسٹم یونین سے نکلتا ہے تو ایکسپورٹس کا حجم مزید پچیس فیصد تک کم ہوجائے گا جس سے بواریا، لوور سیکسونی اور بیڈن ورٹمبرگ کی صنعتوں پر گویا ہتھوڑا برسے گا اور محقق اولیور ہولٹ مولر کے مطابق دنیا کے کسی ملک میں ایمپلانٹ پر بریگزٹ سے جرمنی جتنا زیادہ اثر نہیں پڑے گا یہاں پر 100000کے قریب کارکنوں کی جابز متاثر ہوسکتی ہیں۔ شاید یہئ وجہ ہے کہ برلن میں منسٹرز برطانیہ کی بریگزٹ سیچویشن پر نروس ہیں جرمن کی اقتصادی صورت حال پہلے سے خراب ہے جس کی کئی وجوہات ہیں وہ بمشکل کساد بازاری سے بچا ہے اسی وجہ سے اینجلا مر کیل گورنمنٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ وہ بریگزٹ بات چیت پر بہت حد تک تیاری میں ہے جرمنی نو سو کسٹم آفیشلز ہائر کرنے کے انتظامات بھی کر رہا ہے تاکہ برٹش کمپنیوں کو جرمنی میں رجسٹر ہونے میں آسانی رہے۔ اور جرمنی وزراء اعتراف کرتے ہیں کہ اس حوالے شاک کاروبار کے لیے بدتر ہوسکتا ہے۔ اسی طرح مالٹا جو اپنے تیرہ عشاریہ پانچ فیصد مصنوعات برطانیہ کو فروخت کرتا ہے بھی طرح نشانہ بنے گا۔ یہ ایک عشاریہ سات فیصد مازمتوں کو کھو بیٹھے گا۔ ہر سو میں سے ایک آئریش ورکرز بھی خطرات سے دوچار ہوں گے۔ سروسز، چانسلر کو اگلے ماہ کی موسم بہار کی سٹیٹمنٹ میں کئی بلین پاؤنڈز تلاش کرنا پڑیں گے اگر وہ پبلک سروسز کو ایک اور بدترین شکنجے سے بچانا چاہتے ہیں تو ، ورنہ برطانوی موسم بہار موسم خزاں ثابت ہوگا۔ چانسلر کو خسارہ ختم کرنے کا اپنا پرامس promise وعدہ الگ ڈلیور، پورا کرنا ہے۔ یہ وارننگ دی انسٹی ٹیوٹ آف فسکل سٹڈی The Institute of Fiscal Study نے دی ہے۔ گورنمنٹ کے اخراجات کے پلانز کے تحت صحت، دفاع اور ایڈ فیس aid face کے سوا ڈیپارٹمنٹس مزید کٹوتیوں سے دوچار ہوں گے، پبلک فناس تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ پہلے سے چالیس بلین کی کٹوتی اس کے سوا ہے۔ دباو کم کرنے اور اخراجات کو افراط زر کی شرح سے مطابقت رکھنے کے لیے فلپ ہیمنڈ کو 2023/24تک اضافی پانچ بلین کی ضرورت ہوگی۔ جس کے حصول کے لیے انہیں پھر ٹیکسوں کو بڑھانا پڑے گا، دیگر خرچوں کو کم یا مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ گزشتہ اکتوبر میں چانسلر نے ڈکلئیر کیا تھا کہ خسارہ اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے انہوں نے ایک سو تین بلین دینے کا اعلان کیا تھا جو زیادہ تر نیشنل ہیلتھ سروس NHSکے مد میں پانچ سال کے عرصہ کے لیے تھا اس رقم نے ایک پولیٹیکل تنازعہ کو گو ڈفیوز کیاتھالیکن اس سے لوکل اتھارٹیز ، پولیس اور جیلوں کے متعلق کوئی جواب نہیں مل سکا تھا۔
دی انسٹی ٹیوٹ آف فسکل سٹڈی نے چانسلر پر زور دیا ہے کہ 13 مارچ سپرنگ سیٹلمنٹ کے دن وہ اپنے پلان کا اعلان کریں۔ مسٹر ہیمنڈ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کونسی فنڈنگز کو دستیاب رکھنا ہے۔ جس باعث یہ ایک اہم ترین اعلان ہوسکتا ہے۔ ادارے نے یہ اضافہ کیا ہے کہ پبلک سروسز کو بہت حد تک ایک نو ڈیل بریگزٹ سے متاثر ہونا پڑے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیم ٹرم میں کم رقوم خرچ کی جائیں گی مگر ٹیکسیز بڑھ جائیں گے۔ شارٹ ٹرم، یہ حکومت کے خسارہ کے منصوبوں کو نقصان پہنچائے گا یہ شاید اکنامی کو سپورٹ کرنے کے لیے اخراجات میں اضافہ کی صورت حال پیدا کردے جس سے جو شعبے پہلے سے فنڈنگز کے لیے جدوجہد کررہے ہیں وہ مزید متاثر ہوں گے ۔ اخراجات رقم خرچ کرنے spendings کی کوئی بھی کوشش عارضی ہوگی اور برد ازاں مزید خسارہ کا سامنا کرنا پڑے گا خسارے سے پبلک سروسز کے کئی شعبے نشانہ بن سکتے ہیں۔جس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو ملنے والی سروسز پر نہایت منفی امپکٹ impact ہوگا۔
تازہ ترین