• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میں بیرون ملک مقیم ہوں ،اپنی والدہ کو خرچہ کے لیے رقم بھیجتا تھا ،ایک بار میں نے صرف یہ جاننے کے لیے کہ ان کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں یا نہیں ، ان سے پوچھا کہ آپ ان پیسوں کا کیا کرتی ہیں؟ انہیں یہ لگا کہ شاید میں پیسوں کا حساب مانگ رہا ہوں ،جس کا اظہار انہوں نے کسی رشتے دار سے کیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد مجھے یہ خلش ہے کہ کہیں مجھ سے نافرمانی یا بے ادبی یا دل آزاری تو نہیں ہوگئی ؟ (بندۂ خدا، امریکا )

جواب:اسلام نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کے سامنے عاجزی سے پست آواز میں بات کرنے کا حکم دیاہے ،لہٰذا ضروری ہے کہ اولاد ایسی کوئی بات نہ کرے ، جس سے اُن کی دل شکنی ہو، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’ اورماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور اگر تمہاری زندگی میں وہ دونوں یان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچ جائے تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا اور ان سے ادب سے بات کرنا اور اُن کے سامنے عاجزی اور رحم دلی کا بازو جھکائے رکھنا اور یہ دعاکرنا : اے میرے رب! ان پر رحم فرمانا جیساکہ انہوں نے بچپن میں(شفقت ومحبت سے) میری پرورش کی تھی ،(بنی اسرائیل:23-24) ‘‘ ۔

عموماً والدین اولاد کی بڑی خطاؤں کو بھی معاف کر دیا کرتے ہیں ،آپ کے بقول آپ نے صرف اُن کا بہتر خیال رکھنے کے لیے پیسوں کا مصرف پوچھاتھا ، بظاہر اس میں کوئی بے ادبی کا پہلو نہیں ہے ، یہ اچھی بات ہے کہ آپ اس پر ندامت محسوس کررہے ہیں ۔تاہم اگر کسی موقع پر آپ کی والدہ نے اظہار کیاہو کہ اس بات سے اُن کی دل آزاری ہوئی ہے ،تو آپ اُسی وقت اُن کی زندگی میں اپنے مقصد کی وضاحت کرکے معافی مانگ لیتے،البتہ اب آپ اپنے احساسِ ندامت کو دور کرنے کے لیے والدہ کے ایصالِ ثواب کے لیے دعائے مغفرت اور صدقاتِ جاریہ کا اہتمام فرمائیں ۔ حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ تم میں سے کوئی شخص نفلی صدقہ کرے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے کردے ،تو اس کے والدین کواس کا اجر ملتا ہے اور اس کے اجر سے کچھ کمی نہیں ہوتی ، (المعجم الاوسط:7726)‘‘۔

تازہ ترین