• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے منگل کے روز مختصر نشری خطاب میں جو پالیسی بیان دیا، اسے بجاطور پر بھارت سے آنے والی ان آوازوں کی حدت و شدت کم کرنے کی مدبرانہ کوشش کہا جاسکتا ہے جن میں 14؍فروری کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقے اونتی پورہ میں رونما ہونے والے واقعہ پر پاکستان کو الزامات کا نشانہ بناتے ہوئے بدلے اور انتقام کی باتیں کی جارہی ہیں۔ جمعرات کے روز اونتی پورہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی بس پر خودکش کار بم حملے میں 44فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئےتھے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد کسی تحقیق اور ثبوت کے بغیر بھارتی حکومت اور میڈیاکی طرف سے پاکستان کے خلاف الزام تراشی اور پروپیگنڈہ کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ جبکہ حریت قیادت، مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ اور خود بھارت میں موجو د بعض لیڈروں اور مبصروں کو بھارتی حکومت کے بیانات پر تحفظات ہیں اور ان کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے نئے الزامات من گھڑت ہیں ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تو پاکستان کا نام لیکر دھمکیاں دیتےہوئے یہ تک کہہ دیا کہ انہوں نے اپنی فوج کو آزادی دیدی ہے جبکہ راجستھان کے علاقے پوکھران میں 16؍فروری کو والوشکتی نامی بڑی فضائی مشقیں کی گئیں جن میں استعمال کئے جانے والے جہازوں، حملہ آور ہیلی کاپٹروںاور میزائلوں سمیت جدید فوجی سامان کی تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسی مشقیں اچانک شروع نہیں کی جاتیں بلکہ ان کی پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ درحقیقت انسانی المیوں کو پاکستان کیخلاف الزام تراشی کیلئے استعمال کرنا اور انتخابات میں کامیابی جیسی سیاسی ضرورتوں کیلئے کشیدگی کی فضا تخلیق کرنا بھارت کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ پلوامہ واقعہ کے بعد پاکستان کیخلاف بیانات اور پروپیگنڈہ، مہم کا جو سلسلہ شروع کیا گیا اسکے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ کا موقف یہ تھا کہ بھارت کے پاس اس باب میں اگر کچھ شواہد یا انٹلیجنس معلومات ہیں تو اسلام آباد تحقیق میں بھارت کی معاونت کریگا۔ وزیراعظم عمران خان نے جو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے سلسلے میں مصروف تھے، پالیسی بیان میں نشاندہی کی کہ اپنی ہی اہم کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کیلئے پلوامہ واقعہ جیسے اقدام کی توقع کسی احمق سے ہی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان کو ایسے واقعہ سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ بھارت میں انتخابات کے موقع پر پاکستان دشمن جذبات بھڑکانے والے بیانات کی آگ سرد کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے کھل کر یہ بات کہی کہ ہم دہشت گردی کے معاملے پر بات کرنے کو تیار ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا بھی بڑا مسئلہ ہے اور پاکستانی اسکا نشانہ ہیں۔ پاکستان سے زیادہ دہشت گردی کے سدباب کی کوششوں میں کسی کو دلچسپی نہیں ہوسکتی کیونکہ اسے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ سمیت مختلف علاقوں میں طویل عرصے تک دہشت گردی کا سامنا رہا اور اب بھی وہ دہشت گردوں کی باقیات سے نمٹ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران نے اپنے بیان میں اس تاریخی حقیقت کی جانب سے بھی توجہ مبذول کرائی کہ جنگ شروع کرنا انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے، مگر ختم کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے تو اسے اسکے سنگین نتائج پر بھی غور کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نے درست نشاندہی کی کہ ہر جنگ کا فیصلہ بالاخر مذاکرات کی میز پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں افغانستان کی مثال سامنے ہے جہاں پائیدار امن قائم کرنے کیلئے ساری دنیا اس نتیجے پر پہنچی کہ مذاکرات کے ذریعے ہی یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ، جو انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعد سے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے اور کرتار پور راہداری کھولنے سمیت اہم اقدامات کیلئے تیار رہے ہیں، درست طور پر مشورہ دیا کہ بھارت میں ایک نئی سوچ آنی چاہئے۔ بھارتی قیادت اپنی توانائیاں دشمنی میں ضائع کرنے کے بجائے باہمی تنازعات مل بیٹھ کر طے کرے اور اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے مل جل کر کام کرے۔

تازہ ترین