• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلوامہ حملہ اور بھارت کاپاکستان پر الزام

تحریر:کونسلرمحمد حنیف راجہ…گلاسگو
پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں۔ بھارت کے فوجیوں کا ہلاک ہونا یقیناً ایک قابل افسوس واقعہ ہے، دہشت گردی چاہے وہ انفرادی ہو، گروہی یا ریاستی ہم ہر مقام پر اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے واقعہ کے فوراً بعد الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا، جیش محمد جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے حکومت پاکستان نے 2002میں پابندی عائد کرتےہوئے اسے غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔ حملہ آور ایک 20سالہ نوجوان عادل ڈار بتایا جاتا ہے جوکہ مقبوضہ کشمیر کا ہی شہری تھا، وہ اپے نہتے مظلوم بہن بھائیوں پر بھارتی افواج کے مظالم برداشت نہ کرسکا۔ 1989تک کشمیریوں نے پرامن سیاسی جدوجہد کی، وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کررہے تھے لیکن بھارتی افواج کے مظالم میں بدستور اضافہ ہوتا چلا گیا جس سے تنگ آکر بالآخر وہ بندوق اٹھانے پر مجبور ہوگئے اور اب برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک بھارت کے ہاتھوں سے مکمل طور پر نکل چکی ہےاور اعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی مسلح جدوجہد میں شامل ہوچکے ہیں اب یہ ایک مکمل اندرونی جدوجہد ہے، خود بھارت کے ایک سابق جنرل نے کہا ہے کہ ساڑھے تین سو کلو گرام کا بارود پاکستان سےسمگل نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے نہایت دانشمندی سے کام لیتے ہوئے بھارت کو کھلے دل سے پیش کش کی ہے کہ اگر وہ معقول ثبوت دے تو وہ اس کے ساتھ مل کر تفتیش کرنے اور مکمل تعاون کے لئے تیار ہیں اور اگر ذمہ دار پاکستان میں پائے گئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی لیکن ساتھ ہی انہوں نے بھارت کو وارننگ بھی دی کہ اگر اس نے پاکستان کے خلاف کوئی مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ پاکستان اور بھارت اس وقت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، یقیناً یہ 1971ء نہیں۔ اب کسی بھی طرف سے ایک معمولی غلطی بڑھ کر ایک ایسے مرحلے تک پہنچ سکتی ہے جو پورے برصغیر کو جہنم میں تبدیل کردے۔ صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی معاملات کو سلجھانے کے لئے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ اس حملے کی جڑیں کشمیریوں کی تحریک حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں پنہاں ہیں جس میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ وادی کے علاقے میں ہر آٹھویں شہری پر ایک مسلح فوجی بندوق تانے کھڑا ہے، لیکن یہ جدوجہد کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ گورنر راج کے بعد صدر راج کے نفاد سے حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کی علمبردار دیگر اقوام کو چاہئے کہ وہ بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے جس سے پاکستان و بھارت دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہونگے اور عوام میں خوشحالی آئے گی۔ پلوامہ حملے کا بادی النظر میں پاکستان کو کسی بھی طور سے فائدہ نظر نہیں آتا بلکہ الٹا نقصان ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی اس وقت مکمل توجہ اپنی اقتصادی بحالی پر ہے وہ افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے، اسی وقت سعودی عرب کے ولی عہد نے بھی پاکستان آنا تھا، افغانستان کا بارڈر بھی محفوظ نہیں، جبکہ کچھ ہی ہفتے قبل ایران میں بھی دھماکہ ہوا ہے تو یہ سب کچھ ایک سازش نظر آتی ہے۔ یقیناًپاکستان اس طرح کی صورتحال نہیں چاہے گا وہ تو خود دہشت گردی کا شکار ہے، بعض حلقے اس سلسلہ میں بھارت کے آئندہ الیکشن کی طرف اشارہ کررہے ہیں جہاں  نریندر مودی اب کمزور حیثیت سے ہیں اس سے قبل بھی وہ اپنے انتخابات پاکستان دشمنی کی بنا پر جیت چکے ہیں اور اب ایک دفعہ پھر لوگوں میں پاکستان کے خلاف جنون پیدا کیا جارہا ہے۔
تازہ ترین