• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ماہ میرے ایک دوست جو بہت اچھا کاروبار کرتے اور ٹیکس اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرتے ہیں، نے مجھے کافی غصے میں فون کیا۔ کہنے لگے کہ میری توبہ کہ آئندہ میں اس ملک میں ٹیکس دوں۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ آپ جیسا شخص جو ٹیکس کو قومی فریضہ سمجھتا تھا، آج یہ بات کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ چند بڑی بڑی گاڑیاں آئیں، ایک گاڑی میں سے ایک پروٹوکول افسر نکلا اور مجھے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ میں رک تو گیا لیکن آگے جگہ نہیں تھی اور ان گاڑیوں نے پوری روڈ بلاک کر دی۔ پھر میں نے اور دوسری گاڑیوں والوں نے ہارن بجائے اور کہا کہ روڈ تو بلاک نہ کریں۔ وہ پروٹوکول افسر سب سے بدتمیزی کرنے لگا اور بڑی غلط زبان استعمال کرنے لگا۔ میں نے اس وقت سوچا کہ میرے ٹیکس کے پیسوں سے اگر ان لوگوں نے ان بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنا ہے اور وہ پروٹوکول افسر جس کی تنخواہ میرے ٹیکس کے پیسے سے ہی دی جاتی ہے، نے مجھے ہی برا بھلا کہنا ہے تو میرا دماغ خراب ہے کہ میں ٹیکس جمع کراتا رہوں؟ میں اپنے دوست کا جتنا غصہ ٹھنڈا کر سکتا تھا، کیا اور فون بند کر دیا۔

یہ واقعہ ہے تو تقریباً ایک ماہ پرانا لیکن اس کی یاد مجھے کل اس لئے آئی کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک اہم اجلاس میں حکم دیا کہ ٹیکس زیادہ اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے اور جو لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں وہ اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت جاری کی کہ ٹیکس چوری کرنے والوں کے ناموں کی فہرست بھی جاری کی جائے۔

یہ بات درست ہے کے پاکستان میں بہت کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ ٹیکس دے ہی نہیں سکتے اور اس سے بھی انکار نہیں کہ جو ٹیکس دیتے ہیں، ان کی زندگی میں ٹیکس دینے سے سکون نہیں آتا بلکہ ہمارے ٹیکس کی وجہ سے بہت ساری مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ سب کو علم ہے کہ ایف بی آر مسلسل اپنے ٹیکس اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔ پھر دوسری طرف ہم اپنے عوام کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ اچھے بھلے ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کا ایمان بھی ہل جاتا ہے، تو پاکستان کے ٹیکس کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟

بادشاہوں سے لے کر مملکتوں تک، ہزاروں سال سے ٹیکس اکٹھا کرنے کی تاریخ ہے۔ کئی ہزار سال پہلے قدیم مصر میں بھی عوام سے ٹیکس اکٹھا کیا جاتا تھا۔ رومن سلطنت بھی ٹیکس اکٹھا کرتی تھی۔ جہاں بھی انسان اجتماعی حیثیت میں رہنا شروع ہوئے ہیں، وہاں پر نظام کو قائم کرنے اور انسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ٹیکس وصول کرنا ضروری رہا ہے۔ لیکن ماضی میں ٹیکس جبر سے اکٹھا کیا جاتا تھا اور آج کے دور میں یہ ایک سوشل کنٹریکٹ کے تحت اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ریاست اپنے باشندوں کو تحفظ کے ساتھ سروس بھی دیتی ہے، جس کے لیے لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ صحت، تعلیم اور جان و مال کے تحفظ کے لئے ریاست ٹیکس لیتی ہے۔ اب پاکستان میں کچھ لوگوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ چونکہ ریاست نہ تعلیم دیتی ہے اور نہ ہی صحت جبکہ ہر سرکاری محکمے میں جائز کام کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے تو ہمیں ٹیکس کیونکر دینا چاہئے؟ دوسری طرف ریاست کا موقف یہ ہے کہ چونکہ ٹیکس کا مطلوبہ ہدف پورا نہیں ہو پاتا اس وجہ سے ریاست عوام کو مذکورہ تمام سہولیات نہیں دے سکتی۔ یہ بالکل مرغی پہلے آئی یا انڈا والی بحث ہے، لیکن ٹیکس کولیکشن بڑھانے کے لئے حکومت فوری طور پر تین اقدامات ضرور کر سکتی ہے۔ پہلا تو یہ کہ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں، ان کو تنگ کرنے کے بجائے ان کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ ہمارے ہاں ایسا کلچر ہے کہ جو طبقہ پہلے سے ٹیکس دیتا ہے، اسی کو مزید رگیدا جاتا ہے اور سرکاری اہلکار بھی انہی لوگوں سے رشوت وصول کرتے ہیں۔ ناجائز کام تو دور کی بات، جائز کام کرانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ دوسرا یہ کہ عوام میں موجود اس تاثر کہ ان کا ٹیکس پروٹوکول اور حکومتی اہلکاروں کی عیاشی میں اڑا دیا جاتا ہے، زائل کیا جائے۔ ایسے تاثر سے تو جو لوگ ایمانداری سے ٹیکس دیتے بھی ہیں، وہ بھی میرے دوست کی طرح ہچکچانے لگتے ہیں۔ پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم ہے۔ اگر حکومت اس بات کی یقین دہانی کرا دیتی ہے کہ لوگ جو ٹیکس دیں گے اس سے مریضوں کا علاج ہو گا، لوگوں کو تعلیم ملے گی اور وہ پیسے عوام کے فائدے کے لیے استعمال کیے جائیں گے تو یہی پاکستانی قوم جو آج ٹیکس کم دیتی ہے، بڑھ چڑھ کر ٹیکس ادا کرے گی۔ تیسرا اور سب سے اہم کام ٹیکس کے ریٹ اور طریقے کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کم کما رہا ہے اس کو کم ٹیکس دینا چاہئے اور جو زیادہ کما رہا ہے اس سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جانا چاہئے لیکن چونکہ پاکستان میں بہت سارے ٹیکسز اِن ڈائریکٹ یعنی بالواسطہ اکٹھے کیے جاتے ہیں، جس کے باعث اشیاء کی خریداری پر امیر و غریب کو یکساں ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ٹیکس ریٹ مناسب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ جگہ پر پاکستان میں ٹیکس ریٹ امریکہ اور برطانیہ سے بھی زیادہ ہے۔

امریکہ کے بانیوں میں سے ایک بینجمن فرینکلن نے اپنے دوست کو خط میں لکھا تھا کہ دنیا میں دو ہی چیزیں یقینی ہیں، ٹیکس اور موت۔ حکومت کو نئی ٹیکس پالیسی بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑے گا کہ ٹیکس اور موت کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے باعث موت بھی کہیں یقینی نہ ہو جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین