• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاکستان امن پسند ملک ہے لیکن ہم کسی کے خوف یا دباؤ میں نہیں آئیں گے اور کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کا جواب اسی شدت سے اور بھرپور طور پر دیا جائے گا‘‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز لائن آف کنٹرول کے دورے کے موقع پر اپنے ان الفاظ سے، مودی سرکار کی جانب سے کسی تحقیق اور ثبوت کی زحمت میں پڑے بغیر پلوامہ خود کش حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرکے جارحیت کی مسلسل دھمکیوں کے تناظر میں واضح کر دیا کہ پاکستان کو نرم نوالہ نہ سمجھا جائے۔ افواجِ پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی گزشتہ روز ہی ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں اس موضوع پر بڑی تفصیل سے اظہارِ خیال کیا۔ وزیراعظم پاکستان اس سے ایک دن پہلے ہی صراحت کر چکے تھے کہ کسی جارحیت کی صورت میں پاک فوج کو مناسب جوابی کارروائی کا مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں آئی ایس پی آر کے سربراہ کے خیالات دراصل پلوامہ حملے اور اس پر بھارتی ردعمل کے نتیجے میں رونما ہونے والی صورت حال پر افواجِ پاکستان کا موقف ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق ’’پاکستان ذمہ دار ملک ہے، جنگ چاہتے ہیں نہ جنگ کی بات کرتے ہیں لیکن ہم پر حملہ ہوا تو اس بار پاکستان کا فوجی ردعمل مختلف ہوگا‘ بھارت ہمیں حیران نہیں کر سکتا‘ ہم اسے حیران کریں گے‘ ہم جنگ کی تیاری نہیں کر رہے بلکہ جنگ کی صورت میں جواب دینے کی تیاری کر رہے ہیں‘‘ انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاک فوج نے ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سیکھا ہے لیکن اب کسی غلطی کی گنجائش نہیں یعنی جارحیت ہوئی تو برابر کا جواب دینے میں دیر نہیں ہو گی۔ پلوامہ خود کش حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کو میجر جنرل آصف غفور نے اس بنیاد پر ناقابلِ فہم قرار دیا کہ پاکستان کے لیے یہ کارروائی کسی بھی طور مفید ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔ سعودی ولی عہد کی آمد سمیت آٹھ اہم امور کے درپیش ہونے کی وجہ سے پاکستان کے نقطۂ نظر سے علاقے کا کشیدگی سے پاک ہونا بہت ضروری تھا جبکہ پاکستان کے خلاف مہم جوئی کرکے بھارتی حکمراں جماعت کو عام انتخابات سے عین پہلے اس واقعے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے تاریخی حقائق کی روشنی میں واضح کیا کہ جب بھی پاکستان میں کوئی اہم ایونٹ ہونے جا رہا ہوتا ہے یا بھارتی حکومت کو سیاسی فائدے کے لیے کسی ایشو کی ضرورت ہوتی ہے تو بھارت یامقبوضہ کشمیر میں ایسا واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ انہوں نے ان میں سے بعض واقعات کو یاد دلاتے ہوئے یہ سوچنے کی دعوت دی کہ یہ مسلسل اتفاقات آخر کیوں رونما ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے مکتی باہنی کے ذریعے بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کے سازشی کردار اور کلبھوشن یادیو جیسے ایجنٹوں کے ہاتھوں پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کا حوالہ دے کر بھارت کے مکروہ چہرے کو کامیابی سے بے نقاب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بامقصد اور پُرامن بات چیت کے ذریعے تمام اختلافات کو حل کرنے کے پاکستان کے مستقل موقف کا بھی اعادہ کیا۔ اس موقع پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے مطابق بہاولپور میں جیش محمد کے مرکزی مدرسے کا حکومت پنجاب کی تحویل میں لیا جانا پاکستان کی جانب سے اس امر کی نمایاں کوشش ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ادنیٰ شک و شبہ کی بھی کوئی گنجائش باقی نہ رہنے دی جائے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت میں بھارت کے جارحانہ عزائم کو خطے کے لیے نہایت خطرناک قرار دیتے ہوئے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ ایک امریکی ماہر نے متنبہ کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ایٹمی ملکوں میں جنگ دنیا کی 90فیصد آبادی کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس صورت حال میں بھارت کے لیے بھی ہوشمندی کی راہ یقیناً یہی ہے کہ جنگ اور جارحیت کی دھمکیوں کی روش چھوڑ کر تنازعات مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی راہ اپنائے جس کے لیے پاکستان ہمہ وقت تیار ہے۔

تازہ ترین