• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
بریگزٹ سٹوری کچھ اس طرح منظر پر چھا گئی ہے کہ اب یہ ایک ڈراونے خواب night mare کی سی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ جوں جوں 29 مارچ کی ڈیٹ قریب آرہی ہے اس کہانی سے متعلق تمام کریکٹرز شدید ذہنی کوفت محسوس کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ بریگزٹ افیئرز نے ملک کی سیاسی فضا پر تو منفی اثرات مرتب کئے ہی ہیں اسی بریگزٹ کی کوکھ سے اور کئی مسائل جنم لے رہے ہیں کیونکہ ملک کی حکمران اور اپوزیشن دونوں پارٹیاں چونکہ بریگزٹ پر کوئی قابل عمل اور سب سٹیک ہولڈرز کے لئے قابل قبول ڈیل سامنے لانے سے قاصر نظر آتی ہیں جو کہ لیڈرشپ کی غیر فعالیت کا مظہر ہے جس باعث ان پارٹیوں کے اندر جو دیگر مسائل پہلے دبے ہوئے تھے انہوں نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا ہے اور مختلف معاملات کو آسانی سے بریگزٹ سے جوڑنا مشکل نہیں رہا بالفاظ دیگر معاملات اب بریگزٹ سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں ۔ بزنسز businesses گروپس بھی کئی مہینوں سے متنبہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ بریگزٹ پر عدم شفافیت اور معاملات کا غیر واضح پن کاروباروں کو مفلوج کر رہا ہے ۔ جس وجہ سے برطانوی باسیز bosses ، مختلف کاروباروں کے مالکان، تازہ بریگزٹ تاخیر کی تجاویز پر سخت ردعمل ظاہر کر رہے ہیں ۔ دی ٹائمز کے بزنس سیکشن نے ہفتہ رواں کے آغاز میں انکشاف کیا ہے کہ سروس سیکٹر کا کنفیڈینس confidence ، اعتماد ، اکنامک کریش کے بعد اب تیزی سے گر رہا ہے ۔ بزنسیز businesses پولیٹیکل پراسیس میں اعتماد کھو بیٹھے ہیں ۔ انسٹی ٹیوٹ آف ڈائریکٹرز نے ایک ریسرچ کے بعد خبر دار کیا ہے کہ مالی بحران سے لے کر اب تک سروس سیکٹر کا اعتماد ڈوبتا جارہا ہے۔ حکومت کے بریگزٹ پر بامقصد ووٹ پر تاخیر برتنے کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ مزید تاخیر مزید غیر یقینی فضا پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔ سی بی آئی CBI (کنفیڈریشن آف برٹش انڈسٹری ) کی آج کی رپورٹ یہ واضح کر رہی ہے کہ بریگزٹ پر غیر یقینی کی صورت حال انویسٹمنٹ، سرمایہ کاری کو متاثر کررہی ہے۔ خیال رہے کہ سی بی آئی یوکے کی پریمیئر بزنس آرگنائزیشن ہے جو فرموں کو پالیسی میکرز کے لئے ریجنل، نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر وائس voice آواز مہیا کرتی ہے تاکہ کاروباری طبقہ کی اعانت کرکے ایک مزید خوشحال سوسائٹی تخلیق کی جاسکے ۔ اس ادارہ نے ایک نو ڈیل بریگزٹ کے برطانیہ کے ہر ریجن اور قومی پیمانے پر بزنس امپکٹ سیٹ آوٹ set out کیا ہے ۔ اس مشاہدہ کا مقصد بغیر کسی معاہدہ یعنی نو۔ ڈیل کو ٹیبل سے نکالنا ہے تاکہ معاشی نقصانات سے بچا جاسکے، ملازمتوں کو تحفظ ملے اور معیار زندگی بلند ہو سکے ۔ سی بی آئی نے چالیس سے زیادہ کیس سٹڈیز سے باور کرایا ہے کہ ایک نو ۔ ڈیل سے کاروباروں کو کیسے کیسے نقصان پہنچنے کا احتمال ہے ۔مشترکہ نقاط یہ سامنے آئے ہیں: سرحدوں پر تاخیر سے بڑی احتیاط سے تیار کئے گئے سپلائی چینز تباہ ہوجائیں گے ۔ اضافی اخراجات اور ٹیرف مسابقت کو ضعف پہنچائیں گے ۔ یہ بھی خیال رہے کہ بریٹن اکنامی بھاری طور پر سروس سیکٹر پر انحصار کرتی ہے۔ جو آوٹ پٹ out put کے لحاظ سے 79 فیصد اور جابز ملازمتوں کے اعتبار سے 83 پرسنٹ ہے۔ سی بی آئی نے جو سروے کیا ہے اس میں بزنس اور پروفیشنل سروس سیکٹر سے متعلق کمپنیوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں اکاونٹینسی، لیگل اور مارکیٹنگ کمپنیز کے علاوہ صارفین سروس سیکٹرز جس میں ہوٹل بار ریستوران اور لیژر سروسز شامل ہیں پر مشتمل تھا۔سروے میں 184 کمپنیوں نے کہا کہ بریگزٹ پر معاملات کی عدم شفافیت کاروباروں پر نہایت منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ یہ رپورٹ کیا گیا ہے کہ فروری تک تین مہینے کے عرصے میں کاروباری اعتماد میں 34 فیصد کمی واقع ہوئی ہے منافع میں بھی کمی آئی ہے اور بزنسیز کے حجم میں بھی کمی نوٹ کی گئی ہے، کمپنیز اپنے آپریشنز منصوبہ جات کو وسیع کرنے کے حوالے انتہائی منفی ردعمل رکھتی ہیں ان کی توقعات 44 فیصد تک کم ہوگئی ہیں یہ 2008 کے فنانشل کرائسیز سے لیکر اب تک کی کمزور ترین ریڈنگ ہے۔ کمپنیوں کے کسی بڑی سپینڈنگز spendings کے فیصلوں میں تاخیر برتنے کے باعث کاروباری سرمایہ کاری متاثرہ ہے۔ بنک آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ یہ اس سال دو عشاریہ پانچ تک گرے گی۔ یہ دس سال کی تیز ترین شرح ہوگی۔ معاشی غیر یقینی صورت حال کاروباروں کو زخمی کرنے میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ کسی کمپنی کی ناکامی کے بعد سٹاف کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کے نتیجہ میں ادائیگیوں میں 31 فیصد اضافہ ہوا ۔ جو گزشتہ سال 298 ملین رقم تھی۔ واضح کیا گیا ہے کہ بریگزٹ غیر یقینی صورت حال سے صارفین کے اعتماد مجروع ہوئے اور ساتھ ہی مختلف بزنس سیکٹرز کو بڑھتے ہوئے ٹیکسز اور دیگر اخراجات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ عملہ کی تنخواہیں بھی افراط زر کی شرح کی نسبت سے بھی زیادہ بڑھ رہی تھیں۔ سی بی آئی کے چیف اکنامسٹ نے تبصرہ کیا ہے کہ جب تک سیاستدان پارلیمنٹ میں کسی ایسی ڈیل پر اتفاق نہیں کر لیتے جو یو کے کو قابل قبول ہو۔ اور جو ہماری اکنامی کو پروٹیکٹ کرسکے، تحفظ دے پائے ۔ اس وقت تک کاروباری طبقہ میں اسی طرح کے جذبات اور خدشات بڑھتے رہیں گے۔ اس لئے لازم ہے کہ سیاستدان ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی بھرپور سعی کریں جو برطانیہ کی خوشحالی کے رستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔ اس تناظر میں فنانشل ٹائمز ویک اینڈ ، شاید ، شاید اب برطانیہ کا پولیٹیکل ڈیڈ لاک ٹوٹ رہا ہے۔ یہ رائے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے یہ کالم 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کی سابق ہیڈ آف پالیسی یونٹ اورسنئیر فیلو آف کینڈی اسکول کمیلا کیونڈیش نے تحریر کیاہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ حکومت کبھی بھی لوگوں کے ساتھ دیانت دار نہیں رہی۔ اور یہ کہ لوگوں کی اکثریت دو باتوں پر اتفاق کرتی ہے: کہ یہ حکومت نااہل ہے اور آفیشیل اپوزیشن بھی اس ڈیڈلاک کی ذمہ دار ہے ۔ اسی باعث گیارہ ایم پیز کا دو بڑی پولیٹیکل پارٹیز کو چھوڑنا اور ایک انڈی پنڈنٹ گروپ تشکیل دینا معمول سے زیادہ قابل ذکر واقعہ ہے ۔ معمول کے سیاسی حالات میں آپ شاید اس طرح کی علیحدگی کو بہت زیادہ اہمیت نہ دیتے لیکن آج ملک کو غیر معمولی حالات درپیش ہیں۔ ایک اور پیش رفت جو آج منگل 26 فروری کے دی میٹرو لندن نے رپورٹ کی ہے کہ لیبر پیپلز ووٹ کو بیک کرتی ہے۔ جیرمی کوربائین نے گزشتہ روز ویسٹ منسٹر کے ذریعے شاک ویووز بھیجی ہیں کہ وہ ایک سیکنڈ ریفرنڈم کی حمایت کریں گے۔ لیبر لیڈر کا کہنا تھا کہ اگر ایم پیز نے ان کے ایک پلان جس کو وہ آج پیش کریں گے کو مسترد کردیا تو پھر وہ ایک پیپل ووٹ کی سپورٹ کریں گے۔ دی ٹائمز نے پیر 25 فروری کے اداریہ میں بریگزٹ تناظر میں لیبر قیادت کی واضح پالیسی نہ ہونے پر عدم اعتماد کرنے والے لیبر پارٹی کے چند ایم پیز کے چند روز پیشتر پارٹی چھوڑنے کے واقعہ کا حوالہ دے کر پارٹی لیڈرشپ پر یہودی مخالف جذبات کو روکنے میں ناکام رہنے کے الزامات کو دہرایا ہے چونکہ یہ سب معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کی تفصیلات کو جاننا ازحد ضروری اس لئے بھی ہے کہ یہ معاملات اتنے سادہ بھی نہیں ہیں کہ فقط کسی ایک بیانیے ہی کو تسلیم کر لیا جائے دوسرا مسلمان کمیونٹی کا بڑا حصہ لیبر پارٹی سے وابستہ ہے جن کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ بھی مذہبی اور جذباتی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ان کو ایسے امور سے باخبر رہنا بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ایک اصولی موقف کی حمایت کی پاداش میں لیبر لیڈر کس صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ دی ٹائمز نے جیرمی کوربائین کو یہودی کمیونٹی کے حوالے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ حالانکہ مستعفی ہونے والے ایم پیز میں سے چند تو پارٹی چھوڑنے کا بہانہ تلاش کر رہے تھے کیونکہ ان کو اپنے حلقوں کی تنظیمات سے عدم اعتماد کا سامنا تھا اس پہلو پر الگ سے گہرے تجزیے کئے جانے ضروری ہیں، مثال کے طور پر لوٹن ساؤتھ سے لیبر کے ایم پی گیون شوکر نے ممبرشپ سے استعفی دیا اس حلقہ میں پاکستانی کمیونٹی قابل ذکر طور پر بڑی تعداد میں آباد ہے یہاں پر واقفان حال کو علم ہے کہ گیون کے لیے لیبر میں آئندہ حالات ناسزگار ہو کے تھے ۔بحرحال دی ٹائمز نے لکھا ہے کہ لیبر پارٹی میں لیڈرشپ کے خلاء نے گزشتہ ہفتے 1980 سے لیکر اب تک کی ایک بڑے پیمانے پر اس کے پارلیمانی رینکس سے پارٹی چھوڑنے کی صورت حال ملاحظہ کی گئی ۔ جس ہر ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں لیبر ڈپٹی لیڈر ٹام واٹسن نے اس واقعہ کو اس دھرتی کے بحران سے تعبیر کیا۔ لیبر ہارٹی بقول ایم پیز جو پارٹی سے مستعفی ہوئے کے الفاظ میں ایک اداراجاتی یہودی مخالف اور متعصب پارٹی بن چکی ہے۔ ایسے ایشوز پر مسٹر کوربائین ناکام ہو چکے ہیں۔ اور پارٹی کے موڈریٹ ایم پیز اور سپورٹرز کی یہ پبلک ڈیوٹی بنتی ہے کہ وہ فائٹ بیک کریں۔ چاہے وہ پارٹی میں رہیں یا اسے چھوڑ دیں ۔دی ٹائمز کے مطابق لیبر پارٹی فرنٹ بنچ کا ریسپانس دھرتی کے اس ایشو پر یہ رہا ہے کہ یہ محدوے چند ممبران کا ذاتی معاملہ ہے جبکہ حقیقت الارمنگ اور مختلف ہے۔ لیبر برطانوی جیوش کمیونٹی میں تاریخی گہری جڑیں رکھتی ہے۔ اس کے لیڈروں میں ہیرالڈ ولسن، ٹونی بلئیر اور گورڈن براون جیسے اسرائیل دوست شامل ہیں لیکن ٹائمز کی رائے میںُ یہ پارٹی اچانک انتہا پسندوں کے لیے جنت بن گئی جو یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہودی سازشیں عالمی واقعات کا تانے بانے بنتی ہیں۔ اور یہ سارا کرتا دھرتا جیریمی کوربائین کی لیڈرشپ سے جڑا ہوا ہے۔ دی ٹائمز نے حوالہ جات دیے ہیں کہ جب 2015 میں لیبر کی الیکشن میں شکست کے بعد مسٹر کوربائین ایڈ ملی بینڈ کو ری پلیس کرنے کے لیے فرنٹ رنرز کے طور پر ابھرے تو پہلی مرتبہ ان کے معاملات ایک نمایاں پولیٹیکل ایشوز کے طور پر سامنے آئے: یہ سامنے آیا کہ انہوں نے ایک ایسے پریشر گروپ کو عطیات دیے جس نے ہولو کوسٹ سے انکار کیا ہوا ہے۔ انہوں نے دی ٹائمز کے مطابق دہشت گرد تنظیموں حماس اور حزب اللہ کو اپنا دوست قرار دیا اور پھر بھی انہیں یہودی مخالفت نظر نہیں آئی۔ اس طرح کے چند مزید معاملات کو مبینہ طور پر جیریمی کوربائین کی یہودی مخاصمت سے جوڑا گیا ہے۔ جبکہ لیبر ڈپٹی لیڈر کے حوالے بتایا ہے کہ انہوں نے ذاتی طور پر گزشتہ ہفتے پچاس شکایات مسٹر کوربائین کو پہنچائی ہیں جو یہودی مخالفت پر مبنی تھیں۔ چند لیبر ممبران پارلیمنٹ کے استعفی اور متعدد دیگر واقعات کے حوالے دے کر دی ٹائمز نے مسٹر کوربائین پر زور دیا ہے کہ وہ برطانوی یہودی کمیونیٹی کے اعتماد کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ اگر دی ٹائمز واقعی یہ سمجھتا ہے کہ لیبر پارٹی کی قیادت کسی بھی طرح کے تعصب کی مرتکب ہورہی ہے یا پارٹی کے کسی سیکٹر میں اس طرح کی صورت حال موجو د ہے جس کو سنئیر لیڈر شپ نے قبول کر لیا ہے تو واقعی تشویش ناک بات ہے ۔ اور ہم اس پر جیریمی کوربائین پر زور دیں گے کہ وہ فوری راست اقدامات اٹھائیں البتہ لیبر اور دیگر عام فہم سیاسی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ جیریمی چونکہ فلسطین کاز کا سپورٹر ہے۔ اس لیے مبینہ طور پر اس کی لیڈرشپ کے خلاف ایک فضا قائم کی جارہی ہے تاکہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے جیریمی کی شکست کے اسباب پیدا کیے جائیں ۔ فلسطین کاز کی حمایت کو کسی بھی طور یہودی مخالفت سے تعبیر کرنا یہ انصاف کے تقاضوں سے ماورا ہے۔ اور ہماری رائے میں برطانیہ میں مسلمانوں اور ان کے علاوہ دیگر مذاہب سے پڑھے لکھے لیبر حلقوں کو برطانیہ میں ابھرنے والی ان سوچوں کا تحریر و تقریر کے ذریعے جواب دینا ہوگا یہ سوال بھی زیر گردش ہے کہ پوسٹ بریگزٹ آخر ایسا کیا ہوگا کہ اکثر سنجیدہ حلقے خاصے فکر مند دکھائی دیتے ہیں حتی کہ بعض وہ لوگ بھی اب پریشانیوں اور ندامت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے کم علمی یا وقتی برطانوی قومیت کے جذبوں کے تحت ٹرانس میں آکر یورپ چھوڑنے کے حق میں 2016 کے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالا۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ جیسے ہی یورپی یونین سے انخلاء کرے گا یہ یورپین منڈیوں تک رسائی کھو بیٹھے گا اور اس وقت جو ٹریڈ ڈیلز دیگر کئی ممالک کے ساتھ بریٹن انجوائے کرتا ہے وہ پھر کم فیورایبل less favourable بن کر رہ جائے گا۔ بریگزٹ نتائج کے طور پر برطانوی نیشن غریب تر ہوجائے گی جبکہ بریگزٹ کے حمایتیوں کا ایک اوپن ڈائنامک گلوبل بریٹن کا پرامس promise وعدہ کا انجام حتی کہ ابھی بریگزٹ وقوع پزیر ہی نہیں ہوا مگر پہلے سے اس کا انجام دیکھا جاسکتا ہے اور ابھی سے معاملات بریگزٹ کے ظاہری رخ سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔
تازہ ترین