• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
بھارت کے اندر سے اب جنگ کے خلاف بھر پور انداز میں آوازوں کا اٹھنا اور "Say No To War"کا ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بننا انتہائی خوش آئند ہے۔ یہ وہ آوازیں ہیں جن کو ہندو انتہا پسندوں نے یاتو بالکل خاموش کرا دیا تھا یا پھرڈرانے دھمکانے کی کوشش کی تھی چونکہ بھارتی حکومت، انتہا پسند ہندو اور انتہا پسند میڈیا پر گزشتہ کئی روز سے جنگی جنون سوار تھا اور یہ سب پاکستان کو ’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے بے چین بھی تھے اس لئے جنگ مخالف قوتیں پس منظر میں چلی گئی تھیں۔ انڈیا بہت بڑا ملک ہے اور اس کی بھاری اکثریت پاکستان، چین یا کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کی مخالف ہے مگر وزیراعظم مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے نہ صرف بھارت کےاندر مسلمانوں، مسیحیوں اور دلتوں کے خلاف نفرت کو بھڑکایا گیا بلکہ ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف باقاعدہ محاذ کھول دیا گیا۔ مودی سرکار کا تین ریاستوں میں بری طرح ناکام ہونا بھی اس بات کا تقاضا کر رہا تھا کہ بی جے پی کو کامیاب کرانے کے لئے حسب معمول پاکستان کی مخالفت اوردشمنی کو بڑھاوا دیا جائے۔ یہ بات پاکستان کافی دیر سے کہہ رہا ہے کہ بھارت اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ رکھنا چاہتا ہے مگر اب خود بھارت کےاندر سے اپوزیشن لیڈروں، مدبر صحافیوں، دانشوروں اور عوام نے پاکستان کے اس موقف کودرست تسلیم کرنا شروع کردیا ہے اور مودی پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں اور سول و فوجی قیادت ہمیشہ سے اس خواہش کا اظہار کرتی رہی ہے کہ بھارت کے ساتھ مسائل کو پرامن طورپر حل کیا جائے اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ پاکستان اس حقیقت کو جانتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنی ہمسائیگی کو کبھی بدل نہیں سکتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت کی جگہ کوئی اور ملک پاکستان کا ہمسایہ بن جائے اور بھارت کہیں اور چلا جائے جبکہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کی فوج گزشتہ 30برس سے افغانستان کی جنگ کی وجہ سے دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے اور اس کو پاک افغان سرحد پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان خطے کے حالات کی وجہ سے اقتصادی طور پر انتہائی کمزور ہوچکا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی اور جنگ میں الجھنے کی بجائے اپنی اقتصادی صورتحال کو ٹھیک کرنے اور پاکستان کے غریب عوام کو کچھ ریلیف دے مگر بھارت کے موجودہ حکمران انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے پاکستان کےخلاف کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے، لیکن شاید وہ اس بات کو بھول گئے تھے کہ پاکستان اقتصادی طور پر بھلے کمزور ہےمگر وہ فوجی اعتبار سے ایک قابل اعتماد قوت ہے اور اس کے ساتھ اس کے پاس بھارت سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں اگرچہ ایٹمی ہتھیاروں کا ہونا اور ان کو خدانخواستہ استعمال کرنے کا سوچنا کوئی قابل ستائش بات نہیں تاہم دو حریف ممالک کے درمیان طاقت کے توازن کوبرقرار رکھنے کیلئے اس صلاحیت کا ہونا ضروری بھی ہے۔ اگر یہ ایک فریق کے پاس ہوں تو وہ پورے علاقے میں تباہی پھیلا دے اور علاقے کے سارےممالک کو اپنا غلام بنا کر رکھ دے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور علاقے کے دوسرے ممالک بھی بھارت کے شر سے اسی لئے محفوظ ہیں کہ علاقے میں پاکستان نام کی ایک اور ایٹمی قوت بھی موجود ہے۔ بھارت کی جانب سے بالاکوٹ میں حملے اور اگلے دن پاکستان کی فوجی کارروائی کے بعد دونوں ممالک کے عوام شاید مطمئن ہوگئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حساب برابر ہوگیاہے مگر شاید بھارت کی انتہا پسند سیاسی قیادت شاید ایسا نہیں سوچ رہی بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ونگ کمانڈر ’’ابھی نندن‘‘ جیسے مزید پائلٹوں کو بھی قربانی کا بکرا بنانے کیلئے جنگ میں جھونکنے کی کوشش کرے اور بات کو یہی ختم نہ کرے تاہم بھارت کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں اور عالمی دباؤ کے پیش نظر بھارت کومزید جارحیت نہ کرنے پر غور ضرور کرنا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، روس، چین، سعودی عرب اوربعض دوسرے ممالک نے دونوں ملکوں کو سفارتی انداز میں بتا دیا ہو کہ وہ مزید کسی مہم جوئی سے گریز کریں، لیکن اگر بھارت ان ممالک کو نظر انداز کرکے مزید کوئی کارروائی کرتا ہے تو وہ مزید سفارتی تنہائی کی طرف جائے گاکیونکہ پاکستان نے تو پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ کوئی لڑائی نہیں چاہتا حالانکہ اس وقت پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور چونکہ وہ گزشتہ 30برس سے دہشت گردوں کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑرہی ہے اس لئے اس کو بھارت سے کئی گنا زیادہ جنگ کا تجریہ بھی ہے مگر پاکستان اور اس کے عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ جنگ شروع ہوئی تو اس کو ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا اور اگر خدانخواستہ یہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوگئی تو ایٹم بم خواہ پاکستان چلائے یا انڈیا اس کا نقصان نہ صرف دونوں ملکوں اور آس پاس کے ممالک کو بھی ہوگا بلکہ چین، روس، ایران اور دوسرے علاقائی ممالک بھی تابکاری کے اثرات سے نہیں بچ سکیں گے، اس لئے یہ وقت ہے کہ عالمی برادری بھارت کو مزید مہم جوئی سے روکنے کے لئے عملی اقدامات کرے اس کے ساتھ "Say No To War"کا ٹرینڈ مزید بڑھنا چاہئے۔
تازہ ترین