• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی تعلقات اور امور و سلامتی کے عالمی حلقوں میں آج کی اس مسلمہ حقیقت کا اعتراف تو علمی و تحقیقی حوالوں کے ساتھ برسوں سے موجود ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے لحاظ سے دنیا کی بہترین تین چات چوٹی کی افواج میں ہوتا ہے۔ ان بہترین افواج میں بھارت یہ درجہ کبھی نہ حاصل کر سکا۔ اب قومی دفاعی نظام کے سب سے بڑے، اہم اور احساس جز ترکیبی، عسکری خفیہ اداروں نے یہاں تک اہمیت اختیار کر لی ہے کہ یہ بری، فضائی اور بحری افواج کے مقابل زیاہ غالب ہو گئی ہے کہ زمانۂ امن میں بھی ہر دم سرگرم رہتے ہیں، الحمدللہ! اس میں پاکستان کی سلامتی کا سب سے بڑا اور ذمہ دار خفیہ ادارہ آئی ایس آئی، عالمی درجہ بندی میں ایک عشرے میں امریکی اور اسرائیلی عالمی خفیہ اداروں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔

نجانے برصغیر خصوصاً بھارت کی قسمت کیوں ایسی ہے کہ آج نئی دہلی کے انتہا پسند حکمرانوں کو اس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں ہو رہا اور مودی کی سخت متعصب اور جارح مزاج سکہ بند ہندو قیادت نے جیسے بھارت کی اجتماعی دانش پر کوئی جنتر منتر کرکے اسے جنونی اور اتنا جذباتی بنا دیا ہے کہ بھارت فقط ساڑھے چار سال میں ہی اپنے’’جدید سیکولر جمہوریہ‘‘ ہونے کا تشخص کھو کر واضح اور غالب حد تک مسلسل تشویش کی حامل ایک آرتھوڈوکس (دقیانوسی اور مذہبی سیاست میں رنگی) ریاست بن کر رہ گیا۔ گویا بھارت میں ستر سال کا جمہوری عمل ریورس ہو کر ایک ایسے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کا آغاز دسمبر 1992ء میں بھارت کی تاریخی بابری مسجد کی نیم دہشت گرد انتہا پسند ہندوئوں کے دھاوے میں شہادت سے رکھی گئی۔ لگتا ہے یہ فقط آنجہانی واجپائی کی سیاسی ذہانت ہی تھی جس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ملکی اقتدار تک پہنچنے اور اس کے بعد بھی کافی حد تک اٹل بہاری واجپائی کے وزیراعظم بننے اور کانگریسی زور ٹوٹنے کے باوجود بھارت کے ’’سیکولر جمہوری‘‘ تشخص کو کافی حد تک بچائے رکھا۔ بیچ میں نہرو خاندان بھی کونے لگ گیا اور ایک سکھ کو شو بوائے کے طور پر وزیراعظم بھی بنا دیا گیا لیکن وزیراعظم واجپائی کا دوسرا دور ختم ہونے کے بعد جب بنیاد پرست ہندو، نریندر مودی وزیراعظم بنتے ہی سیکولر بھارت جیسے تیزی سے دہشت گردی کی طرف مائل ہندو ملک کو اپنے اقتدار کی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی مذہبی بنیاد پرستی میں غرق کر دیا۔ یہ تو جنونی ہندو قیادت کو اقتدار میں لانے کا ایک نتیجہ ہے۔ مودی حکومت کا ایک ترجیحی ایجنڈا ’’1990 سے تسلسل کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک حصولِ حقِ خودارادیت کی تحریک کو کچل کر ختم کر دینا تھا‘‘ جو اور بھڑک کر 7لاکھ مسلط افواج اور کشمیریوں پر اس کی کھلی ریاستی دہشت گردی کے باوجود بے قابو ہوتی چلی گئی۔ اب جبکہ مقبوضہ کشمیر بھارتی سنجیدہ اور حقیقت پسند تجزیہ کاروں کے مطابق، بھارت کے ریاستی تسلط سے تیزی سے نکلتا جا رہا ہے، مودی حکومت کی کشمیریوں کو قابو کرنے کی انتہائی خطرناک مس ہینڈلنگ خود بھارت کی سلامتی کے لئے خطرہ بن گئی۔ جس کا ادراک آنجہانی واجپائی نے کٹر جماعت کا وزیراعظم ہونے کے باوجود خوب سمجھ لیا تھا اور اس کے بعد حکومتی اقدامات بھی کئے لیکن حکمران جماعت کے ’’عقابی گروپ‘‘ نے اپنی انتہا پسندی سے اپنے جنونی وزیراعظم کو بنیاد پرستی کے دائرے سے باہر نہ آنے دیا تو اس کا بھارتی سلامتی کے لئے نتیجہ مقبوضہ کشمیر کا اس کی جکڑ بندی سے نکلتا جانا اور وہاں کے بچوں کا خودکش بننے پر آمادہ ہو کر مسلط فوج پر تباہ کن حملوں کی صورت برآمد ہو رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کے آرکائیو سے نکالی یہ رپورٹ ملاحظہ فرمائیں اور خود تجزیہ کریں کہ ایک ہی جماعت، بی جے پی کا ایک وزیراعظم کس راہ پر تھا اور مودی اس ڈگر سے ہٹ کر بھارت کے لئے کس قدر خطرناک بن گیا ہے۔

ستمبر 1998۔ ڈربن میں اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی عالمی تنظیم NAM(غیر وابستہ ممالک کی تحریک) کا سربراہی اجلاس ہوتا ہے۔ افتتاح جدید تاریخ میں حریت فکر کے سب سے بڑے عالمی رہنما آنجہانی نیلسن منڈیلا کرتے ہیں، اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے۔ فرمایا ’’مسئلہ کشمیر سے ہم سب کا تعلق ہے‘‘ واضح رہے کہ اجلاس میں وزیراعظم واجپائی، NAMکے روح رواں کیوبن صدر فیڈل کاسترو اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سمیت کتنے ہی دوسرے عالمی رہنما اور ریاستی سربراہ شرکا میں موجود ہیں، ان کی موجودگی میں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو اپنے خطاب کا اہم حصہ بناتے ہوئے منڈیلا مزید واضح کرتے ہیں ’’NAMمسلسل جاری مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں بھرپور معاونت کرے گی‘‘۔ مسئلہ کشمیر پر دنیا کے محترم ترین قائد جناب نیلسن منڈیلا کے اس عزم پر بھارت کے سرکاری اور حکمران جماعت کے حلقوں میں کھلبلی مچ گئی اور حکومت اور حکمران جماعت دونوں نے اسے نیلسن منڈیلا کی طرف سے روایت کی خلاف ورزی قرار دیا کہ ’’NAMکے فورم پر دو طرفہ مسائل پر بات نہیں ہوتی‘‘ مقبوضہ کشمیر کے کانگریسی رہنما فاروق عبداللہ یوں بولے:میں وزیراعظم سے کہوں گا کہ وہ مجھے نیلسن منڈیلا کے پاس بھیجیں کہ میں انہیں جا کر سمجھائوں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور انہوں نے اپنے خطاب میں NAMکی مسلمہ روایت کو توڑا ہے کہ اس فورم پر دو طرفہ تنازعات زیر بحث نہیں لائے جاتے۔ گویا پورے بھارت میں یہ سمجھ نہ آئی کہ نیلسن منڈیلا تو روایت شکن اور اسٹیٹس کو توڑنے والا عالمی رہنما ہے، اس کی باکمال اور انتہائی قابل قدر جدوجہدِ آزادی روایت شکنی سے عبارت رہی۔ سمجھے تو شاید آنجہانی واجپائی سمجھ گئے، خاموش رہے، تاہم لگتا تھا کہ آنجہانی نیلسن منڈیلا نے مسئلہ کشمیر پر جو کچھ کہا وہ ان کے دل میں اتر گیا تھا لیکن عالمی سیاست و حکومت کی مجبوریوں کے باعث وہ چپ سادھ گئے، لیکن جب موقع ملا تو عملاً انہوں نے کوششیں شروع کیں جو مینار پاکستان پر حاضری اور لاہور ڈیکلریشن پر محیط ہیں، جن کے فالو اَپ آگرہ مذاکرات کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنونیوں نے ثبوتاژ کیا اور باقی کسر اب مودی نے اپنے دورِ اقتدار میں نکالی، لیکن مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی قیادت میں کمال کی تحریک آزادی اور پاکستان میں ہمارے خانِ اعظم کی قیادت نے ان کی تحریک کو منطقی نتائج سے قریب تر کر دیا ہے، دوسرا اب جبکہ مودی اپنی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں، کشمیریوں کے بعد مسئلہ کشمیر کی دوسری بڑی اسٹیک ہولڈر حکومت پاکستان کی قیادت ایسی روایت شکن ہے، جیسے نیلسن منڈیلا اپنے Peace offence(امن حملہ) سے ساری عمر نسل پرستوں پر حملہ آور رہے اور آج نسل پرستی دنیا میں بڑی گالی بن چکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے پاکستان پر حملہ آور پائلٹ کو اس کے عزائم کو خاک میں ملانے کے بعد گرفتار کرکے جتنی جلدی رہائی کا فیصلہ کیا اور قیدی کے طور پر جو انتہائی متاثرکن سلوک اس سے روا رکھا گیا، اس نے بھارت کی اجتماعی پاکستان دشمنی کے زہر کو دو ہی روز میں بے اثر کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے قومی اور حکومتی اخلاق، تحمل اور بردباری خصوصاً ہماری روایت شکن اور اسٹیٹس کو کو کامیابی سے چُور چُور کرنے میں کامیابی حاصل کرنے والی قیادت نے چند ہی ہفتوں میں بھارت پر جو ’’امن حملے‘‘ کئے ہیں وہ ان کے انتہائی جینوئن اندازِ ابلاغ اور انسان دوست اقدامات سے جاری ہیں، اس میں بھارت کی بچت اور مزید بگاڑ سے بچنے کی فقط ایک صورت ہے کہ وہ جواب میں امن اور مذاکرات کی طرف لوٹے۔ اگر آنجہانی واجپائی کا اندازِ حکمرانی اور مسئلہ کشمیر پر سوچ و اپروچ ان کا سبق نہیں بن سکی تو نیلسن منڈیلا کے خطاب کو یاد کر لیں، وہ تو کوئی ’’پاکستان کے ایجنٹ‘‘ نہ تھے۔ یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تو بھارت کو ہوش دلانے میں ناکام کچھ اداروں کی آوازیں سنیں اور اپنے جارحانہ مزاج اور وزیراعظم عمران خان کے امن حملوں کے اب تک کے نتائج کو سمجھنے کی فہم پیدا کریں۔ انہیں کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان کی دفاع اور حملے کی صلاحیت کس قدر بڑھ چکی ہے اور پاکستان میں جس ایک شدت سے مطلوب قومی قیادت کی ضرورت تھی، وہ بھی پوری ہو چکی مگر مودی صاحب بھارت کو کہاں لے جا رہے ہیں؟

تازہ ترین