• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحی نعیم ،کراچی

موجودہ مادّیت پرست اور نفسانفسی کے دَور میں دولت، اعلیٰ عُہدے، طاقت اور شہرت کو کسی بھی فرد کی کام یابی کی ضمانت، مطمئن زندگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے، لیکن ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں، کیا واقعی کام یابی اور مطمئن زندگی جانچنے کا کلّیہ یہی ہے؟ کیا دولت کی ریل پیل سے لوگ تاعُمر صحت مند رہ سکتے ہیں یا پھر شہرت و نام وری کسی کی مطمئن زندگی کی ضامن ہوسکتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ جو لوگ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں، جنہیں آغاز ہی سے زندگی کی ہر آسایش میسّر ہوتی ہے، وہ بھی عموماً اپنی زندگیوں سے ناخوش اور غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات کسی چھوٹی، معمولی سی بات پر شدید ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں، حالاں کہ ان کے پاس دولت کی کمی نہیں ہوتی۔ طاقت کے بل بوتے پر جو چاہیں کرسکتے ہیں، مگر پھر بھی اتنے بے بس نظر آتے ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے لیے ذہنی سُکون نہیں حاصل کرپاتے۔ اس کے برعکس بےشمار لوگ روکھی سوکھی کھا کر بھی خوش باش رہتے ہیں، پُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ پھر ایک کام یاب اور مطمئن زندگی کا راز کیا ہے؟ تو اس کا راز وہی ہے، جو ہمیں اللہ اور اس کے حبیب رسولِ کریمﷺ نے آج سے صدیوں پہلے بتایا تھا۔ یہ راز ہے ’’صلۂ رحمی‘‘، جو بظاہر دو الفاظ کا مجموعہ ہے، لیکن پس منظر میں بھائی کے بھائی پر حقوق کی نہ ختم ہونے والی تفصیلات ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی سے محبّت بڑھتی ہے، رزق میں کشادگی اور عُمر میں برکت پیدا ہوتی ہے، آدمی بُری موت نہیں مَرتا، مصیبتیں اور آفتیں ٹلتی رہتی ہیں اور اس عمل کے باعث جنّت میں جانے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ ایک موقعے پر حضور پاکﷺ نےفرمایا،”الله کی رحمت اس قوم پر نازل نہیں ہوتی، جس میں ایسا شخص موجود ہو، جو اپنے رشتے ناتوں کو توڑتا ہو۔“( شعب الایمان بیہقی)۔

آج کے ترقّی یافتہ دَور میں بھی جب کام یاب لوگوں کی ایک فہرست تیارہوئی اور مختلف مشاہدات و تجربات کے ذریعے اُن کی کام یابی کا راز جانچنے کی کوشش کی گئی، تو تمام تر نتائج کی یک جائی کے بعد جو رپورٹ مرتّب ہوئی، اُس کے مطابق یہ تمام کام یاب لوگ وہ تھے، جو دوسروں کی مدد کرتے تھے، اُن سے خوش گوار تعلقات رکھتے تھے۔ خوشی، غمی کے موقعے پر اُن کا ساتھ دیتے تھے، محنت سے جی نہیں چُراتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کا شکریہ ادا کرتے تھے اور ان کی کام یابیوں پر انھیں سراہتے تھے۔ ماہرین نے دیکھا کہ ان خصوصیات کی بدولت ایسے لوگوں کی گھریلو اور ازدواجی زندگیوں پر بھی خاصے مثبت اثرات مرتّب ہوئے۔ ان کی صلاحیتوں میں بتدریج اضافہ ہوا۔ جسمانی کارکردگی بڑھ گئی۔ نیز، دماغ کے وہ حصّے، جن میں منصوبہ بندی ہوتی ہے، اُن پر بھی مثبت اثرات ظاہرہوئے۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ ایسے نفسیاتی فوائد بھی حاصل ہوئے، جن کی وجہ سے ان کی زندگی سہل اور آسان ہوگئی۔

اس حقیقت میں تو کوئی کلام ہی نہیں کہ خوش خلقی، خوش کلامی، ہم دردی و غم خواری، مہربانی و دِل جوئی اور کسی کی نیکی یا اچھے عمل پر شکریہ کہنے سے نہ صرف دوسرے کا بھلا ہوتا ہے، اُسے سکون و اطمینان ملتا ہے، خود کرنے والے کو بھی بڑی پُرسکون نیند آتی ہے۔ ڈیپریشن جیسا لفظ ہی زندگی سے نکل جاتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتے، مُسکرا کر ملتے تھے۔ آپﷺاخلاق کے انتہائی اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ آپﷺنے کبھی کسی سے بدکلامی کی، نہ کبھی بےجا غصے کا اظہار کیا۔ نہ کبھی کسی سے انتقام لیا۔ اپنی ازواجِ مطہراتؓ، پیاری بیٹیوںؓ، صحابہ کرامؓ حد تو یہ ہے کہ اپنے غلاموں سے بھی آپﷺکا رویّہ بہت نرم، شائستہ اور پیار بَھرا ہوتا۔ اور بحیثیت مسلمان ہمیں بھی اپنے پیارے رسول، نبی کریمﷺہی کی اتباع کرنی چاہیے۔ بندگی کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے اپنے خالق کے شُکرگزار ہوں،جس نے ہمیں بےشمار، لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے۔ مالکِ کائنات کا ارشاد ہے(مفہوم)،’’مَیں اپنے شُکرگزار بندوں کو ان کی شُکر گزاری پر نوازتا ہوں۔‘‘پھر نبی پاکﷺکے شُکر گزار ہوں، جن کی ہم اُمّت ہیں، پھر اپنے والدین کے، جنہوں نے دِن رات ایک کرکے، انتہائی محنت و مشقّت سے پالا پوسا۔ پھر بتدریج اپنے اردگرد موجود رشتوں، دوستوں، عزیزوں، پڑوسیوں کے ساتھ اپنا رویّہ بہتر کریں، باہمی تعلقات سنواریں، نرمی و محبّت سے لوگوں کے دِلوں میں گھر کریں، ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں اور کسی اچھے عمل، چھوٹی سے مہربانی پر شکریہ کہنے اور اپنی معمولی سی غلطی کو بھی جلد تسلیم کرکے معذرت کرنے میں بھی کبھی تاخیر نہ کریں۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں، طرزِعمل ہی درحقیقت ایک کام یاب زندگی اور حقیقی مسّرت و شادمانی کی کنجی ہے۔

تازہ ترین