• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بہت پرانا قصہ ہے،کتنا پرانا ہے؟ یہ میں نہیں جانتا۔ دو نوجوان موٹر سائیکل سوار ابراہیم بھائی کی دکان کے سامنے آکر رکے۔ ایک نوجوان موٹر سائیکل پر بیٹھا رہا۔ دوسرے نوجوان نے دکان میں داخل ہو کر ابراہیم بھائی پر بندوق تان لی اور گلّہ لوٹنے لگا ۔ بڈھا ابراہیم بھائی چلاتا رہا ”ارے بیٹے یہ کیا کر رہے ہو، یہ میری دن بھرکی کمائی ہے، اس سے مجھے کاریگروں کو دہاڑی دینی ہے،گھر کا راشن لینا ہے،کمیٹی کی قسط دینی ہے ایسا مت کرو بیٹے“۔
”ابے چپ“ نوجوان نے بڈھے ابراہیم کو چانٹا مارتے ہوئے کہا ”شور مچایا تو گولی مار دوں گا“۔بڈھے ابراہیم نے چیخ کرکہا ”میں تیرے دادا کی عمر کا ہوں مجھ پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے تجھے شرم نہیں آتی“۔ نوجوان ڈاکو نے ابراہیم کے سر پر بندوق کا بٹ مارا اور گلّے کی رقم بٹور کر دکان سے باہر آیا۔ عین اسی وقت ابراہیم کا جواں سال بیٹا اسماعیل موقع پر آن پہنچا ۔ آتے ہی وہ بھاگتے ہوئے ڈاکو سے گھتم گتھا ہو گیا۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے ڈاکو کے ساتھی نے اپنے ریوالور سے ہوائی فائرنگ کر دی، بھگدڑ مچ گئی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکو اسماعیل کی گرفت سے نکل کر موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا۔ اسماعیل نے بینک کے باہر بیٹھے ہوئے چوکیدار سے رائفل چھین کر ڈاکوؤں پر تان لی۔ اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا، بڈھا ابراہیم چیختا چلاتا باہر آیا ”نہیں بیٹا نہیں، قانون ہاتھ میں لینے کا نہیں ہے، لپھڑے میں پڑنے کا نہیں ہے“۔اس دوران دونوں ڈاکو موقع واردات سے بھاگ گئے۔ انصاف کی امید پر برسوں زندہ رہنے کے بعد ابراہیم حال ہی میں اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔ایک اور واقعہ سنئے۔ لطیف سونارا مالدار آدمی ہے۔ اس نے اپنی حفاظت کے لئے تین چار چوکیدار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ دن رات اس کی کوٹھی پر پہرا دیتے ہیں۔ ایک رات نہ جانے کیسے چار نقاب پوش ڈاکو اس کی کوٹھی میں گھس آئے۔ انہوں نے آتے ہی نچلے حصے میں موجود گھر کے افراد کو رسیوں سے باندھ لیا۔ چیخنے چلانے کی آواز سن کر اوپری منزل کے کمرے میں سوئی ہوئی دادی اماں کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے جھانک کر دیکھا۔ سہمی سہمی وہ دبے پاؤں بغل کے کمرے میں اپنے بیٹے لطیف سونارا کے پاس آئی۔ سونارا نیند کی گولیاں کھا کر گہری نیند سویا ہوا تھا اور زور زور سے خرّاٹے لے رہا تھا۔ دادی اماں نے اسے جھنجھوڑا اور پھر قریب میز پر رکھا ہوا پانی کا گلاس اسکے منہ پر انڈیل دیا۔ سونارا ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس سے پہلے کہ سونارا کچھ کہتا، دادی اماں نے اسے چپ رہنے کو کہا۔ سونارے نے حیرت سے پوچھا ”کیا بات ہے اماں؟“اماں نے سرگوشیوں میں کہا ”گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں، سب کو رسیوں سے باندھ دیا ہے، ان سے تجوری کی چابیاں مانگ رہے ہیں“۔
لپک کر لطیف سونارا نے کمرے کی کنڈی لگا دی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل فون اٹھا لیا اور نمبر ڈائل کرتا رہا۔ ماں نے پوچھا ”یہ کیا کر رہے ہو؟“”پولیس کو فون کر رہا ہوں“ دادی اماں نے الماری کھولی اور پسٹل نکال کر لے آئی۔ پسٹل بیٹے کو دیتے ہوئے دادی اماں نے کہا ”اس سے پہلے کہ وہ تیرے بچوں کو مار دیں تو ان کو مار دے“۔”نہیں اماں“ لطیف سونارا نے کہا ”قانون ہاتھ میں لینے کا نہیں ہے، لپھڑے میں پڑنے کا نہیں ہے“۔”ارے وہ تیرے بچوں کو مار ڈالیں گے“۔
سونارا پولیس سے رابطہ قائم کرنے کے لئے موبائل فون کے نمبر ملاتا رہا مگر بے سود۔ اسی لمحے نچلے فلور سے گولی چلنے کی آواز آئی ۔دادی اماں اور لطیف سونارا کانپ اٹھے۔ دونوں حیرت میں پڑ گئے جب گولی چلنے کے بعد کسی کے چیخنے چلانے کی آواز نہیں آئی۔ دادی اماں نے کمرے کا دروازہ کھولا اور کوریڈور سے جھانک کر نیچے دیکھا۔ وہ بیہوش ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ڈاکوؤں نے بہو، بیٹی اور بیٹے اور ان کے دو بچوں کو کرسیوں سے باندھ کر ان کے منہ پر ماسکنگ ٹیپ لگا دیا تھا۔ وہ دبے پاؤں کمرے میں واپس آئی، اس کا رنگ زرد پڑ گیا تھا۔ بیٹے کو جھنجھوڑتے ہوئی دادی اماں نے کہا ”انہوں نے تیری بہو کی ٹانگ میں گولی مار دی ہے،کچھ کر لطیف، کچھ کر“۔”دیکھ نہیں رہی ہو اماں!“ سونارا نے موبائل فون کے نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا ”پولیس کو فون کرنے کی کوشش کر رہا ہوں“۔”فون چھوڑ“ دادی اماں نے لطیف سے فون چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ”یہ لے ریوالور،گولی چلا دے گولی چلنے کی آواز سن کر وہ بھاگ کھڑے ہوں گے“۔”اگر گولی کسی کو لگ گئی تو خواہ مخواہ کا پھڈا کھڑا ہو جائے گا“ لطیف سونارا نے کہا ”قانون ہاتھ میں لینے کا نہیں ہے“۔”وہ اوپر آرہے ہیں “ دادی اماں نے سونارا سے کہا ”کچھ کر لطیف، کچھ کر“۔”اتنی دیر سے نمبر ملانے کی کوشش کر رہا ہوں“۔ سونارا نے کہا ”کوئی کال ریسیو نہیں کرتا“۔”وہ لوگ اوپر آگئے ہیں“ دادی اماں نے سونارے کو ریوالور تھماتے ہوئے کہا ”میں کسی کو مارنے کا کب کہتی ہوں تو بس ہوا میں گولی چلا دے“۔
” اگر کسی کو لگ جائے تو؟“ سونارے نے ریوالور لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ”قانون ہاتھ میں لینے کا نہیں ہے“۔ڈاکو اوپری منزل پر آگئے۔ کمرے کا دروازہ زور سے کھٹکھٹاتے ہوئے ایک ڈاکو نے چلا کر کہا ”تجوری کی چابی دے دو ورنہ ہم اس بچی کے سر میں گولی داغ دیں گے“۔
دادی اماں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر کوریڈور میں جھانک کر دیکھا ایک ڈاکو نے لطیف سونارا کی پانچ برس کی بچی کو باہوں میں جکڑ رکھا تھا۔ دادی اماں تڑپ اٹھی۔ سونارا کو شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے دادی اماں نے کہا ”وہ ببلی کو مار ڈالیں گے، گولی چلا“۔”نہیں اماں نہیں“ سونارا نے کہا ”قانون ہاتھ میں لینے کا نہیں ہے“۔دادی اماں کھڑکی کی طرف بڑھ گئیں۔ ذرہ سا پردہ ہٹایا اور پھر ڈاکوؤں کو خوفزدہ کرنے کے لئے گولی چلا دی۔ اتفاق کی بات ہے ہوا میں چلائی گئی گولی ایک ڈاکو کے سر میں لگی۔ وہ سیڑھیوں سے قلابازی کھاتا ہوا نیچے جا گرا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔
قصہ مختصر۔ جس ڈاکو کے سر میں گولی لگی تھی وہ پولیس کا نامی گرامی مخبر تھا اور حال ہی میں سپاہی کے طور پر پولیس میں بھرتی کیا گیا تھا۔ بوڑھی دادی اماں جیل میں ہے۔ پولیس چالان کے مطابق مرحوم سپاہی اور لطیف کی بہن کے درمیان خفیہ مراسم تھے۔ بڑھیا نے غیرت میں آکر دونوں پر گولی چلا دی۔ گولی لڑکی کی ٹانگ پر لگی اور سپاہی کے سر پر لگی اور وہ شہید ہو گیا۔ انعام کے طور پر اس کے آوارہ بیٹے کو پولیس میں ملازمت مل گئی ہے۔
تازہ ترین