• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اورینٹل کالج کے عربی زبان و ادب کے استاد پروفیسر حافظ نورالحسن صاحب بادشاہی مسجد لاہور کے دامن میں واقع علماء اکیڈمی میں ہمیں تفسیر قرآن حکیم پڑھایا کرتے تھے۔ عربی زبان پر ایسی مہارت اور ایسا تجربہ بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے۔ لفظ کے ”مصدر“ کو اتنی عمدگی سے بیان کرتے تھے کہ پوری عربی ادب کی تاریخ گویا نظروں کے سامنے آجاتی تھی۔ دیوبندی مکتب فکر سے تعلق تھا، مولانا ابوالکلام آزاد کے بہت بڑے مداح تھے۔ ان کا جب بھی ذکر کرتے، محبت سے کرتے اور ”امام الہند“ کے لقب سے یاد کرتے۔ شکل میں بھی مولانا آزاد سے ان کو کافی مشابہت تھی، طبعیت میں سادہ مزاجی، نرمی اور ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کبھی کبھی کوئی مضمون خشک ہوجاتا یا پڑھانے کا موڈ نہ ہوتا تو ماضی کے قصے چھیڑ دیتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ ایک پیر صاحب کا قصہ سنو، حالانکہ وہ پیروں کے اتنے زیادہ معتقد نہیں تھے۔ کہنے لگے پنجاب یونیورسٹی نے پروفیسر حضرات کے ایک نمائندہ وفد کو عربی زبان کے قدیم نایاب اور نادر ”مخطوطے“ یعنی ہاتھ سے لکھے ہوئے قدیم نسخے تلاش کرنے اور ان کی فہرست بنانے کے لئے قدیم لائبریریوں کا دورہ کرنے اور پنجاب بھر کے شہروں اور دیہات میں جاکر ان جگہوں کا مشاہدہ کرنے کا پروجیکٹ دیا جہاں یہ قدیم اور نایاب نسخے موجود تھے۔ اسی سفر میں پروفیسر حضرات کا یہ وفد پنجاب کی ایک بہت بڑی خانقاہ میں بھی گیا جہاں دربار شریف کے احاطے میں ایک لائبریری تھی جہاں قدیم اور نایاب نسخے موجود تھے جو عام طور پر دستیاب نہیں ہیں۔ روحانی آستانے پر ان قدیم کتابوں کو لکڑی کے شیلفوں میں بڑی احتیاط سے رکھا گیا تھا اور لگتا تھا کہ ان کی دیکھ بھال کی جاتی تھی یہ سب کچھ ہمارے لئے حیران کن تھا کیونکہ عام طور پر یہ دیکھا گیا کہ قدیم کتابوں کے نسخے بے یارو مددگار پڑے ہوتے تھے۔ ہمیں پروفیسر حافظ نورالحسن نے بتایا کہ انہوں نے اندازہ لگایا کہ اتنے بڑے دربار کا سجادہ نشین معلوم نہیں ان کتابوں کو پڑھ بھی سکتا ہے یا نہیں، جو ان کے بزرگوں نے اکٹھی کی تھیں۔ ہمیں کہنے لگے پھر پیر صاحب تشریف لائے تو ان کا حلیہ دیکھ کر ایک عام دیہاتی کا گمان ہوا۔ نیلے رنگ کا تہبند، اوپر سفید رنگ کا ڈھیلا ڈھالا کرتا، سر پر کپڑے کی ٹوپی، لمبی سفید داڑھی۔ ان پیر صاحب سے میں نے ان سے عمدہ کتابوں کے ذخیرے کا تذکرہ کیا تو وہ خوش ہوئے۔ پھر ان قدیم کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے اور مختلف جگہوں سے عربی عبارات کو پڑھ پڑھ کر سنانے لگے۔ بعض جگہ پر انہوں نے حاشیے میں بھی کچھ لکھا تھا وہ بھی عربی میں تھا وہ بھی بتاتے رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان سادہ لباس میں ملبوس اس درویش شخص کی عربی زبان پر مہارت پر حیران رہ گئے۔ پروفیسر حافظ نورالحسن نے تو پیر صاحب کا ہاتھ چوم لیا اور پوچھا عربی زبان میں یہ مہارت اور یہ پختگی کہاں سے آئی؟ ہم تو حیران رہ گئے ہیں۔ پیر صاحب نے بتایا کہ ان کے والد گرامی رحمة اللہ علیہ نے بچپن میں انہیں عربی زبان اور دیگر اسلامی علوم پڑھنے کے لئے اجمیر شریف بھیج دیا تھا اور وہاں کے مدرسے مہتمم صاحب کو تاکید سے ہدایت کی تھی کہ اس صاحبزادے کے اندر سے ”پیر زادگی“ کو نکالنا ہے۔ یہ ”پیرزادگی“ کیا ہوتی ہے؟ میں اچھی جانتا ہوں کیونکہ میں بھی ایک پیر خاندان میں پیدا ہوا اور ”پیرزادہ“ ہوں۔ خیر پیر صاحب کہنے لگے دوسرے طلبہ کو تو کھانا مدرسے سے ملتا تھا مجھے حکم ملتا تھا کہ اجمیر کی گلیوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے گھروں سے کھانا اکٹھا کرو اور اسے مدرسے میں لاکر کھاوٴ۔ پیر صاحب کہنے لگے کچھ عرصے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ میں ”پیرزادہ“ نہیں ہوں۔ فرمانے لگے کہ ”پیرزادگی“ تو نکل گئی لیکن علم کا نور اندر آگیا۔ جاننا چاہیں گے یہ پیر صاحب کون تھے؟ یہ تھے وہ شیخ الاسلام جن پر لفظ اور لقب ”شیخ الاسلام“ ناز کرتا تھا۔ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت حافظ خواجہ محمد قمرالدین سیالوی رحمة اللہ علیہ۔ اس فقیر نے حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کی زیارت کا شرف مختلف مواقع پر حاصل کیا۔ 1970ء میں جب ایک بنگالی کمیونسٹ لیڈر نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ”کسان کانفرنس“ منعقد کرائی اور کہا کہ اب پاکستان میں کمیونسٹ نظام آئے گا تو یہ درویش منش اور سادگی و انکساری کا مرقع سجادہ نشین ایک سیاسی قائد اور رہنما کے طور پر سامنے آیا آپ کی کوششوں سے اسی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ”کل پاکستان سنی کانفرنس“ کا انعقاد کیا جس کے نتیجے میں جمعیت علماء پاکستان کو سیاسی طور پر فعال اور متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور حضرت شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی کو اس کا صدر چنا گیا۔ پنجاب بھر کے سجادہ نشین حضرات نے آپ کی آواز پر لبیک کہا، میرے برادر اکبر حضرت پیر فتح محمد قادری جو اس وقت تقریباً نوے سال کی عمر کے قریب ہیں اور جلال پور پیر والا میں آستانہ قادریہ کے سجادہ نشین ہیں، 1970ء کے الیکشن میں جمعیت کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اور ان کو ٹکٹ خواجہ قمرالدین سیالوی کی طرف سے جاری ہوا تھا۔ یہ پہلا مرحلہ تھا کہ پاکستان میں علماء اہلسنت نے سیاسی طور پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بزرگوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں قائداعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد مدرسوں اور خانقاہوں تک محدود ہوگئے تھے۔ 1970ء کے الیکشن میں پڑنے والے ووٹوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد دوسرا نمبر جمعیت علماء پاکستان (جے یو پی) کے ووٹوں کا تھا لیکن اس کے سات امیدوار کامیاب ہوسکے۔ چار پنجاب سے، تین صوبہ سندھ سے۔ سندھ سے قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی، علامہ عبدالممصطفیٰ الازہری اور مولانا محمد علی رضوی جبکہ پنجاب سے ابراہیم برق، صاحبزادہ نذیر سلطان، غلام حیدر بھروانہ اور مولانا محمد ذاکر منتخب ہوئے۔ سندھ کے تین اور پنجاب کے واحد عالم دین تو جمعیت سے منسلک رہے جبکہ پنجاب کے تینوں جاگیردار ممبران پہلے اجلاس میں ہی پی پی پی میں چلے گئے۔
مولانا نورانی مرحوم نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران جمعیت کے پنجاب کے جاگیردار ارکان جن میں سے ایک جھنگ کے دربار کا روحانی پیشوا بھی تھا، ایک گورنر کے اشارے پر میرے ساتھ والی نشست سے اٹھ کر پیپلز پارٹی کی نشستوں پر چلے گئے اور مجھے بتایا تک نہیں۔ مظفر گڑھ کے ابراہیم برق اور جھنگ کے صاحبزادہ نذیر سلطان اور غلام حیدر بھروانہ وہ تھے جن کے لئے علماء کرام اور مشائخ عظام لوگوں سے ووٹ کی درخواست کرتے رہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لفظ تو تلخ ہے مگر سچ یہ ہے کہ وہ ان کے لئے ووٹوں کی ”بھیک“ مانگتے رہے۔ لیکن پارٹی بدلنے میں انہوں نے کسی اور سے تو کیا معذرت کرنا تھی اپنے پارلیمانی لیڈر مولانا شاہ احمد نورانی کو بھی کچھ نہیں بتایا۔ پنجاب سے جمعیت کے ایم این اے حضرات کی اس قلابازی سے خواجہ قمرالدین سیالوی کا دل ٹوٹ گیا اور وہ ایک طرح سے سیاست سے کنارہ کش ہو کر ”سیال شریف“ کی خانقاہ اور اپنے مریدوں کی تربیت اور روحانی سرپرستی تک محدود ہوگئے اور سیاسی معاملات مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی کے حوالے کردیئے۔ مولانا نورانی صاحب 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں مقبولیت کی عروج پر تھے تو پنجاب کے بعض سجادہ نشینوں نے مولانا نورانی سے پھر رابطہ کیا اور مذہبی پلیٹ فارم پر سیاست کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن مولانا نورانی ایسے ”موقع پرست“ لوگوں کو جواب دینا اور ان سے نمٹنا خوب جانتے تھے۔ اس لئے بڑے بڑے سجادہ نشین ان کے قریب آنے سے کتراتے تھے اور بات کرتے گھبراتے تھے۔ جس طرح خواجہ قمرالدین سیالوی ایک درویش سیاسی رہنما تھے ان کے سیاسی وارث مولانا نورانی نے بھی درویشی میں ہی زندگی گزار دی انہیں ہر دور کی حکومت نے اپنے قریب کرنا چاہا۔ مولانا نورانی کا نام بیچ کر بہت سے لوگ خوش حال ہوگئے لیکن مولانا نورانی کرایہ کے فلیٹ میں رہے، آخری عمر میں ان کی اہلیہ کو وراثت میں حصہ ملا تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہہ کر مکان بنوایا جس میں مولانا نورانی کو چند سال رہنا نصیب ہوا۔ جس قوم نے خواجہ قمرالدین سیالوی اور مولانا نورانی جیسے درویش سیاسی رہنماوٴں کی قدر نہیں کی اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا”۔
تازہ ترین