• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہالینڈ کے ایک روزنامے نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کی دوسری برسی پر ان پر جان لیوا حملے کے حوالے سے لکھا ہے: ”گورنر سلمان تاثیر کے دن دیہاڑے قتل سے ایک بات پوری طرح عیاں ہوگئی ہے کہ حکومت پاکستان ملکی استحکام کو برقرار رکھنے میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کی جڑیں گہرائی تک اُتر چکی ہیں“۔
ادھر پاکستان کے معروف دانشور اور مذہبی سکالر جاوید غامدی نے ایک ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے سلمان تاثیر کے قتل کو حیات سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس قتل و غارت گری کے سلسلے کو یہیں پر ختم ہو جانا چاہئے اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو جتنا مکالمہ آج ہو رہا ہے آنے والے دنوں میں ہم اتنے مکالمے کا بھی تصور نہیں کرسکتے۔ جاوید غامدی کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے بارے میں اگر کسی ایک سے دوسرے کو اختلاف ہے تو اس کی بات بھی تحمل و بردباری سے سنی جائے، انسانی قوانین کوئی آسمانی صحیفے نہیں ہوتے کہ ان پر بات ہی نہ کی جا سکے۔ یہاں یہ ناخوش گوار بات بھی بتانا ضروری ہے کہ جاوید غامدی کو مختلف حلقوں کی طرف سے دھمکیوں نے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔
پاکستان کے بڑے حادثات میں یہ حادثہ بدلتے سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات کی سنجیدگی کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ تنظیمیں یا ریاستیں اپنے میں جمہوری نہیں ہوتیں بلکہ خیالات جمہوری ہوتے ہیں۔ سلمان تاثیر نے اپنی بے وجہ موت سے آٹھ گھنٹے قبل اپنے Twitter پر شکیل بدایونی کا یہ شعر لکھا تھا:
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عزت، ناموس، آن، آبرو، دھج اور شان کے سامنے جان بڑی حقیر شے ہے اور یہ بات وہ بخوبی جانتا تھا کہ ناموس کسے کہتے ہیں؟ آبرو کا کیا مطلب ہے؟ اور شان کیا ہوتی ہے۔ وہ ایسا شخص نہیں تھا جو بغیر ”زندہ“ رہے موت کی آغوش میں چلا گیا ہو اور وہ ایک اعلیٰ مقصد کے لئے زندہ رہا اور اس کا ہدف ایسا تھا کہ اس نے اپنی ذات کو بھی درمیان سے نکال دیا تھا۔ بس صرف ایک ہی مقصد رہ گیا تھا یعنی انصاف کا حصول۔ یہی وجہ تھی کہ قوم کی ایک غریب بیٹی کو انصاف دلانے کے لئے میدان عمل میں اتر آیا تھا وہ بیٹی جو اقلیت سے تعلق رکھتی تھی اور وہ انسان جو سیکولر تھا۔ ایک بار دہلی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے پنڈت جواہر لال نہرو سے پوچھا تھا کہ آپ کے نزدیک سیکولر ازم کی کیا تعریف ہے؟ نہرو نے جواب دیا تھا: ”تمام مذاہب کے ماننے والوں کو حکومت کی جانب سے یکساں تحفظ“۔
سلمان تاثیر کی موت محض سیاست کا نقصان نہیں ہے سیکولر ازم کا نقصان ہے، انسان دوستی کا نقصان ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کا نقصان ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ اپنے عمل اور مکالموں کے ذریعہ عوامی تال میل، بھائی چارے، بردباری اور ہم آہنگی کا یہ پیغام دینے والی اس افسانوی شخصیت کے کارناموں پر انتہا پسندوں اور مذہبی جنونیوں نے کتنی تنقیدیں کیں، کس قدر شور مچایا اور کس طرح باقاعدہ حملے کئے، اس کے باوجود سیکولر ازم کی کمٹمنٹ سلمان تاثیر کو فیض احمد فیض کی طرح کبھی اپنے قدم پیچھے لینے پر مجبور نہ کرسکی۔ میرے حساب سے سیکولر ازم کی کمٹمنٹ کی یہ پاسداری اگر سلمان تاثیر کی روایت کے بطور ہی ہمارے درمیان باقی رہے تو اس نئے عہد میں یہ ایک بڑا کام ہوگا۔
بعض لوگوں کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ مذہبی آزادی کی حفاظت کے لئے مخالف اہانت مذہب پالیسیوں پر عمل آوری ناگزیر ہے۔ میرے نزدیک مذہب سے تعلق سے اظہار خیال کا تحفظ ضروری ہے کہ کسی مذہبی مسئلے پر مختلف عقائد کے پیروکار مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں اور میں یہ کہنے کی بھی جسارت کروں گا کہ نفرت، تعصب، امتیاز، جبر، استبداد جیسے رجحانات مذہبی امتیازی قوانین کے بطن سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ آج بھی بعض ذرائع ابلاغ میں پاکستانی عدالت کے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر ایسے بیانات دیئے جا رہے ہیں جس میں اس وقت بھی ایک عیسائی کو پیغمبر اسلام کی اہانت کے جرم میں پھانسی کی سزا تجویز کی گئی تھی اس پر 67 سالہ کیتھولک بشپ جان جوزفنے عدالت میں احتجاجاً خودکشی کرلی اور وصیت کی کہ جب تک یہ قانون منسوخ نہ ہو، اس کی لاش نہ اٹھائی جائے۔ اس لئے میرے نزدیک پاکستان کے عیسائی، ہندو، سکھ، احمدی اور دوسری اقلیتوں کے لئے بھی معاشی و سماجی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے ایک ”سچر کمیٹی“ کی ضرورت ہے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مذہب کا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے اس کا عقل، قاعدہ یا قانون سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ مذہب کو منطق، دلیل یا لاجک کے پیمانوں میں نہیں ناپا جا سکتا۔ مذہب کی بنیاد پر ملک کی تعمیر کی سوچ بے بنیاد ہے اور ایسا ملک متحد نہیں رہ سکتا۔ ملک کی تمام طاقت اس کے سیکولر کردار میں پوشیدہ ہوتی ہے، سیکولرالزم کے وسیلے سے ہی جمہوری طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں جو کسی بھی ملک کی ترقی و کامرانی و مضبوطی کی سمت میں مشعل راہ ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات پھر سے بتانا ضروری ہے کہ پاکستانی نصاب میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں ایسے ابواب ہیں جو مختلف فرقوں و مسلکوں کے درمیان تفریق اور علیحدگی کے جذبوں کو فروغ دیتے ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بیج بوتے ہیں جو انسانیت، اخلاق، تہذیب، آئین، عدل و انصاف کا جنازہ نکالتے ہیں۔ اندرا گاندھی نے تو صرف دو قومی نظریہ اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینک دیا تھا مگر ہم نے تو گزشتہ 65 برسوں میں آئین، قانون، اصول، اخلاق، عدل، انصاف، جواز، منطق، دلیل، تہذیب، سیاست، جمہوریت، حسن، زندگی، اعتماد، خواب، احساس، آزادی، خودمختاری، یقین، عزم، اقدار اور امید کو بوری میں بھر کر بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے، بڑا مجرم کون ہے؟ اندرا گاندھی یا ہم؟
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان حالات کی رفتار اور وقت کے ساتھ بدلتے کیوں نہیں، مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلقات استوار کرنے کے ئے ایسے امور اسلامی کو مسلمان ترک کرنے میں کیوں پس و پیش کرتے ہیں جو غیر مسلموں سے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ فتنہ و فساد اور انتہائی مشکل حالات میں شریعت پر عمل کرنا دشوار ہوجائے گا، جب دس حصے میں سے ایک حصے پر عمل بھی نجات کے لئے کافی ہے۔ اسی حوالے سے یہاں میں ایک روایت بیان کرنا چاہوں گا یہ روایت ترمذی شریف کی کتاب الفتن اور مشکوٰة کے باب الاعتقاد بالکتاب و السنہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی جاتی ہے، فرمایا کہ: ”تم ایسے زمانے میں ہو کہ اس میں اگر تم میں سے کوئی اس کا دسواں حصہ بھی ترک کردے جس کا حکم دیا گیا ہے تو ہلاک ہوجائے گا۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ جو ان میں سے دسویں حصے پر عمل کرے گا، اس کی نجات ہوجائے گی“۔ اور میرے حساب سے ایسا وقت آچکا ہے۔
آسمانوں سے پکارے جائیں گے
ہم اسی دھوکے میں مارے جائیں گے
تازہ ترین