• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں شمار ہونے والے جنوبی ایشیائی ملک، پاکستان کو مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس وقت پاکستان کی مجموعی آبادی اکیس اور بائیس کروڑ کے درمیان ہے۔

عالمی اعداد و شمار کے مطابق زمین پر انسانی آبادی کافی عرصہ ہوا سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جس کے بعد بھارت کا نام آتا ہے۔ مجموعی طور پر صرف ان دو ممالک کی آبادی ہی تقریبا ڈھائی ارب کے برابر بنتی ہے ۔پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے ۔

ہماری گنتی بڑھتی ہی جارہی ہے

پاکستان میں چھٹی مردم شماری ،(جو 2017میں ہوئی تھی) کےابتدائی نتائج کے مطابق(کیوں کہ تادمِ تحریرحتمی نتائج جاری نہیں کیے گئےہیں ) ملک کی آبادی 20کروڑ 77لاکھ 74ہزار پانچ سو بیس افراد پر مشتمل ہے۔ان اعدادوشمار کے مطابق انّیس برسوں (2017سے قبل کے) کے دوران ملک کی آبادی میں 7,54,22,241 افراد کا اضافہ ہواجو57فی صد ا ضا فے کے مساوی ہے۔

ان اعدادوشمار کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی میں مرد اور خواتین کا تناسب تقریباً برابر ہے اور مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں صرف51لاکھ زیادہ ہے ۔ ملک میں آبادی میں اضافے کی اوسط سالانہ شرح دو اعشاریہ چار فی صد رہی ۔ پنجاب اور سندھ میں اس شرح میں کمی آئی،لیکن بلوچستان، خیبر پختون خوا اور فاٹا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔مردم شماری کے نتائج کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جو ملکی آبادی کا نصف سے زاید ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی آبادی11کروڑ ہے جس میں دیہی آبادی تقریباً سات کروڑ ہےاورچار کروڑ یا تقریباً 37 فی صدلوگ شہروں میں مقیم ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ1998 میں پنجاب کی آبادی سات کروڑ سے زیادہ تھی۔

آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے جو پونے پانچ کروڑ سے زاید نفوس کا مسکن ہے۔ یہاں دو کروڑ49لاکھ مرد اور دو کروڑ29لاکھ خواتین بستی ہیں ۔ باقی صوبوں کی نسبت سندھ میں آبادی کا بڑا حصہ شہری علاقوں میں مقیم ہے، جو صوبے کی کل آبادی کا52فی صدہے۔خیبر پختون خواہ کی آبادی پونے چار کروڑ ہے۔ وہاں بھی مرد و خواتین کی تعداد تقریباً برابرہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں81فی صدآبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔ فاٹا کی کل آبادی 50 لاکھ بتائی گئی ہے۔ بلوچستان میں کل آبادی ایک کروڑ 23لاکھ سے زاید ہے۔ جہاں 64 لاکھ سے زاید مرد ہیںاور خواتین کی تعداد 58لاکھ سے زاید ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ادارہ شماریات کے مطابق اسلام آباد میں شہری آبادی میں کمی اور دیہی علاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔1998میں اسلام آباد میں شہری آبادی تقریباً 66 فی صد تھی جو اب کم ہو کر تقریباً51 فی صد رہ گئی ہے۔واضح رہے کہ ان اعداد وشمار میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے نتائج شامل نہیں ہیں کیوں کہ انہیں جاری نہیں کیا گیا تھا۔

دفتر شماریات کے مردم شماری سے متعلق امورکے رابطہ کار حبیب اللہ خٹک نے ابتدائی نتائج جاری ہونے کے بعد ذرایع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا:’’ ملک میں شرح پیدائش اور مردم شماری کے لیے فارموں کی چھپائی کی بنیاد پر اب تک جو غیر سرکاری اندازے لگائے گئے ہیں، ان کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی اس وقت ممکنہ طور پر اکیس اور بائیس کروڑ کے درمیان بنتی ہے ۔حالیہ مردم شماری کےدوران بڑھتی ہوئی آبادی کا تناسب زیادہ تر دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان قائم رہائشی آبادیوں میں دیکھا گیا‘‘۔

کیا ہم پوری دنیا سے علیحدہ ہیں؟

حبیب اللہ خٹک نے بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا: ’’جیسے پوری دنیا میں ہوتا ہے، ویسے ہی پاکستان میں بھی بڑھتی آبادی کا حل صرف برتھ کنٹرول پروگرام کی ترویج اور عوام میں شعور و آگہی کی زیادہ کام یاب مہم کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے‘‘۔تاہم ماہرین کا موقف ہے کہ حکومت تو برتھ کنڑول پروگرام کو زیادہ مؤثر بنانا چاہتی ہے، لیکن ہماری اکثر ناخواندہ خواتین برتھ کنٹرول کو گناہ سمجھتی ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کی صحت کس قدر خطرے میں رہتی ہے۔ وہ ہر بچے کی پیدائش پر خود اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہیں۔ پھر کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں، جو ذاتی طور پر تو مانع حمل ذرایع استعمال کر کے برتھ کنٹرول کا طریقہ اپنانا چاہتی ہیں، لیکن ان کے شوہر یا سسرال والے دباؤ ڈال کر انہیں ایسا نہیں کرنے دیتے۔

عوامی شعور بے دارکرنا بہت ضروری ہے

ماہرین کے مطابق برتھ کنڑول پروگرام کو کام یاب بنانے کے لیے اہم ترین بات عوامی شعور کی بے داری ہے،ناخواندگی ختم کرنے کی کوشش کی جائے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں آبادی میں اضافے اور وسائل کی کمی کے باعث مسائل شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنا صرف حکومت ہی کی ذمے داری نہیں،بلکہ اس مقصد کے لیے علماء اور دانش وروں سمیت تمام سماجی حلقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، خاص طور پر ملکی ذرایع ابلاغ کو بھی اس سلسلے میں عوام کو زیادہ باشعور بنانے میں اپنی ذمے داریاں پوی کرنا ہوں گی۔

بد حال عوام کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں

ماہرین کے مطابق ہمارے ملک کی آبادی میں اضافہ بھی کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔ ملکی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث ملک کے اقتصادی،سماجی،معاشرتی، نفسیاتی اور دیگر مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت تین کروڑ سے زاید پاکستانی خطِ غربت سےنیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اورچھ کروڑ پاکستانیوں کو تو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔محکمہ مردم شماری کے گزشتہ اعداد و شمارکے مطابق ہمارے ملک کی کل آبادی تقریبااٹھارہ کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ پنجاب دس کروڑ آبادی کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ لیکن افسوس کہ آٹھ کروڑ اسّی لاکھ افراد کو صحت و صفائی کے مسائل کا سامنا ہے۔چھ کروڑ پچاس لاکھ افراد ایک کمرے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ پاکستان میں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہواہے۔صاف پانی، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کا بھی واضح فقدان ہے۔

ہوش ربا اعداد و شمار

پاکستان ڈیمو گرافک اور ہیلتھ سروے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی کے تناسب میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اور اگریہ اسی شرح سے بڑھتی رہی تو 2046 تک پاکستان کی آبادی دگنی ہو جائے گی اور 2030 تک پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے گنجان آباد ملک بن جائے گا۔پاکستان ڈیمو گرافک اور ہیلتھ سروے کی جانب سے گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.40فی صدتک پہنچ گئی ہے اور اضافےکی شرح یہی رہی تو2040تک پاکستان میں 12کروڑ مزید نوکریاں درکار ہوں گی۔ رہایش کے لیے ایک کروڑ 90لاکھ گھروں کی ضرورت ہوگی اور2040 تک ہمیں 85ہزارمزیدپرائمری اسکولز بنانے پڑیں گے ۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھرکے مقابلے میں دورانِ زچگی ماؤں اور بچوں کی اموات سب سے زیادہ پاکستان میں ہو رہی ہیں۔ہر سال بارہ ہزار مائیں دورانِ زچگی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ پاکستان میں ہر ایک ہزار پیدائشوں میں 62 شیرخواربچے ایک سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔جنوبی ایشیا میںسب سے زیادہ بچوںکی پیدایش کی شرح پاکستان میں ہے ،لہذا پانچ سال سے کم عمر کے 68فی صدبچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت پانی کی کمی کے شکار دنیا کے تین ممالک میں سے ایک ہے۔

ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں 19برسوں سے سالانہ 40لاکھ افراد کا اضافہ ہونےکے نتیجے میں ملک میں90لاکھ گھروں کی کمی کا سامنا ہے ۔وزیر اعظم کے وژن کے تحت50 لاکھ گھر آئندہ پانچ برسوں میں تعمیر ہو بھی گئے تو اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مزید40لاکھ کی ضرورت ہوگی۔ بڑھتی آبادی کے باوجود سابق حکومتیں عوام کو چھت فراہم کرنے میں ناکام رہیں۔ دیہات میں بنیادی سہو لتو ں کے فقدان کی وجہ سے شہروں کی طرف نقل مکانی،منہگی جائیداد اور گھر کے لیے قرضوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے آبادی کا بڑا حصہ بے گھر ہے ۔ا سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 10ملین گھروں کی کمی کا سامنا ہے۔دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے شہری آبادی میں سالانہ 2.7فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ہماری آبادی جس شرح سے بڑھ رہی ہے اس کے مطابق اگر ایک گھرانہ 6.5افراد پر مشتمل ہو تو سالانہ6لاکھ گھروں کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ مستقبل میں بڑھتی آبادی کے پیش نظر اگر ملک میں گھر تعمیر نہ کیےگئے تو بے گھر افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔پاکستان میں مختلف وجوہات کی بنا پر نہ صرف غریب بلکہ متوسط طبقے کے افراد بھی گھر نہیں بنا سکتے۔ تحریک انصاف کی حکومت جہاں 50لاکھ گھر بنانے جا رہی ہے وہاں دیہات میں سہولتوںکی فراہمی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ شہروں کی طرف نقل مکانی کارجحان کم کیاجا سکے ۔ پاکستان میں 35سے 40لاکھ گھروں کی کمی صرف شہری علاقوں میں ہے ۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 83ارب روپے گھر بنانےکے لیے بہ طور قرض دیے گئے ہیںجسے2021تک 250ارب روپے تک لے جانے کی ضرورت ہے جس سے عوام کو گھر بنانے میں مدد ملے گی۔

غربت کے ڈیرے

گزشتہ برس عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں غربت سے متعلق جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہات میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ ملک میں غربت کی شرح پندرہ برسوں میں 35فی صد کم ہوئی، تاہم دیہات میں غربت شہروں سے دوگنا زیادہ ہے۔پاکستان کی30فی صد آبادی غربت کا شکارہے۔ بلوچستان میں غربت سب سے زیادہ اور پنجاب میں سب سے کم ہے۔80فی صد غریب پاکستانی دیہات میں رہائش پذیر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان ملک کا سب سے غریب صوبہ ہے جہاں معاشی بدحالی کی شرح 42.2 فی صدہے۔ سندھ میں غربت کی شرح 34.2 فی صد، خیبر پختون خوا میں 27اور پنجاب میں25فی صد ہے۔ بلوچستان کا ضلع واشک غریب ترین اور ایبٹ آباد پاکستان کا امیر ترین ضلع ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں غربت کی شرح 18فی صد اور دیہات میں 36فی صدہے۔ بلوچستان میں53فی صد اور خیبر پختون خوا میں49فی صد بچےغذائی قلت کا شکار ہیں۔ سندھ میں47فی صد اور پنجاب میں 38 فی صد بچوں کو پوری خوراک نہیں ملتی۔

مسائل ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں

پاکستان جیسے ممالک کی ایسی صورت حال کے پس منظر میںاقوام متحدہ کی یہ واضح بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا بھر میں بے شمار مسائل آبادی میں اضافے سے بہ راہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ عام لوگوں کے لیے خوراک کی کمی بھی ہے۔پاکستان بننے کے تین سال بعدیعنی 1950 میں ملک کی کل آبادی تین کروڑ پچھتر لاکھ تھی۔لیکن صرف تیس سال بعد،یعنی 1980 میں آبادی ساڑھے سات کروڑ یعنی دگنی سے بھی زاید ہو چکی تھی۔ اس وقت ملک میں روزانہ پندرہ ہزار بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ یعنی ہر روز پندرہ ہزارمزید بچوں کے لیے تعلیم اور صحت کے وسائل درکار ہیں۔ اگر ایک اسکول میں پانچ سو بچوں کی گنجایش بھی ہو تو ہمیں تین سو نئے اسکولز کی ہر روز ضرورت ہے۔کیا ہم روزانہ اتنی تعداد میں نئےا سکولز بنا رہے ہیں؟

نہیں، بالکل نہیں۔تو پھر ان بچوں کو تعلیم کی سہولتیں مہیا کی جاسکتی ہیں اورنہ صحت کی۔ آبادی بڑھنے کی رفتار میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آرہی ہے۔ وسائل کے استعمال میں عدم توازن کی وجہ سے ہمارے ملک میں پانچ سے انیس سال کی عمر کے درمیان پانچ کروڑ کے قریب بچے اور نوجوان تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔پاکستان کی پینسٹھ فی صد آبادی دیہات میں بستی ہےجہاں تعلیم اور علاج کی سہولتیں خاصی محدود ہیں اور،کہیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہروں میں سہولتوں کی صورت حال قدرے بہترہے۔ لیکن دیہات سے شہروں کی طرف مسلسل نقل مکانی،نئے شہروں کی کمی اور گنجان آباد رہائشی علاقوں کی وجہ سے شہروں میں بھی وسائل کی فراہمی کی صورت حال ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے۔

ورک فورس ہے،مگر تعلیم اور تربیت کے بغیر

پاکستان کی ساٹھ فی صد آبادی ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ورک فورس میں شامل ہوکر ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن یہاں بھی ہمیں ایک بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کثیر تعداد میں سے ایک بڑی تعداد کسی ہنر یا تیکنیکی مہارت سے نابلدہے۔ صبح صبح چوکوں میں ہمیں رزق کمانے کے لیےاپنے گھروں سے نکلنے والے مزدوروں کے ہجوم تو نظر آتے ہیں، لیکن اکثر ڈھونڈنے سے بھی اچھا مکینک، پلمبر یا الیکٹریشن نہیں ملتا۔ نوجوانوں کوتیکنیکی علوم نہ سکھانا اور ان کا مزدوری پر مجبور ہونا بدترین قسم کا بحران جنم دیتاہے،کیوں کہ جہاں مزدوروں کی تعداد زیادہ ہو وہاں طلب اور رسد (ڈیمانڈ اور سپلائی) کے اصول کے مطابق مزدوری سستی ہوتی چلی جاتی ہے۔ آبادی میں بہت زیادہ اضافہ وسائل کی تقسیم کو بھی غیر متوازن بنا دیتا ہے۔ پاکستان میں اوسطاًہر کمانے والے شخص پر چار مزید افراد کی ذمے داری ہے۔ متوسط طبقے یا غریب گھرانوں میں یہ تناسب ایک اور چھ تک جا پہنچتا ہے۔ یعنی ایک کمانے والے شخص کو چھ مزیدافراد کی کفالت کرنا پڑتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے کہیں زیادہ خطرناک یہ تناسب ہے۔ جب ایک شخص پر بہت سے لوگوں کی ذمے داری ہو تو صحت، تعلیم اور خوراک کو معیاری بنانا دشوار ترین ہوتا چلا جاتاہے۔ جب تعلیم کی سہولتیں نہیں ہوں گی، کاروبار میں لگانے کو سرمایہ نہیں ہوگا،تیکنیکی تعلیم کے بھی وسائل نہیں ہوں گے تو مزدوروں کی ایک اور فوج وجود میں آئے گی جسے بہت جدوجہد کے بعدشاید مزدوری تو مل جائے، لیکن اس مزدوری کے عوض ملنے والا معاوضہ اتنا کم ہوگا کہ گھر کا چولہا مشکل ہی سے جلے گا۔ سہولتوںکے فقدان کا یہ ایسا چکر ہے جس میں مزدور آنکھوں پر ضروریات کی پٹی باندھے ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح گھومتا چلا جاتا ہے۔

خوراک کی کمی کے شکار ہمارے بچّے

پاکستان میں ساٹھ فی صد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ان میں سے پینتالیس فی صدبچے خوراک کی کمی کی وجہ سے اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ ان کی ذہنی نشوونما درست طریقے سے نہیں ہوپاتی۔ ظاہر ہے کہ جس بچے کی ذہنی نشوونما درست انداز سے نہ ہو پائے وہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے سے پہلے ہی ہار چکا ہوتا ہے۔ایسے میں خواہ اسے کسی منہگے سےاسکول میں داخل کرا دیں یا اچھی سے اچھی ٹیوشن فراہم کردیں،جب دماغ ہی نشوونما نہیں پا سکا تو وہ بچہ کبھی بھی مناسب ذہنی نشوونما والے بچےکے برابر ترقی نہیں کرسکے گا۔پھر یہ کہ یہ بیماریاں نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔یعنی ہم موجودہ ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی زیادتی کررہے ہیں۔

تازہ ترین