• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ میر درد یاد آرہے ہیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں

دردِ دل، انسانیت سے عشق نے دور افتادہ چھوٹے سے ملک نیوزی لینڈ کی 28سالہ جیسنڈا کو ایک ہفتے میں ٹرمپ، پیوٹن، شی چن، مودی، تھریسامے، اینجلا، ایما نویل سے کہیں زیادہ بلند مقام عطا کردیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ ٹائم میگزین جیسنڈا کا سرورق دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ تو میرے دل کی کیفیت ہے، آپ کے سامنے رکھ دی۔ اس وقت موضوع ہے دہشت گردی کے حوالے سے خیراتی اداروں کی مالی چھان بین۔ یہ تو طے ہے کہ پاکستان دردِ دل اور انسانیت سے محبت میں عطیات دینے والی قوموں میں سر فہرست ہے۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق مخیر پاکستانی ہر سال 2ارب ڈالر سے زیادہ خیرات دیتے ہیں۔ پاکستانیوں کی یہ شرح بھارت سے دگنا ہے لیکن اب مشکل یہ آگئی ہے کہ اقوام متحدہ کے دبائو پر خیراتی اداروں کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ عطیات دینے والوں سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سے بھی ایسے ہی تفتیش کر رہے ہیں جیسے جرائم پیشہ افراد سے کی جاتی ہے۔ یہ فراخدل فرشتے حیران پریشان ہیں کہ دردِ دل پر یہ اذیت، یہ خوف و ہراس۔ امریکہ کے لئے تو یہ سب کچھ روا ہے۔ وہ پہلے جنہیں مجاہدین کہہ کر پرورش کرتا ہے، دنیا بھر سے انہیں عطیات دلواتا ہے، جب مطلب نکل جاتا ہے توا نہیں دہشت گرد کہہ کر الٹی گنتی شروع کر دیتا ہے۔ اصل دبائو امریکہ کا ہے لیکن ہم پاکستانی ایک دوسرے کے خلاف کیسے ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ تو اس کی زر خرید ہے۔ دہشت گردی یقیناً انسان دشمنی ہے کوئی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ دہشت گردوں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے۔ ان کے سرپرست افراد اور اداروں سے بھی سخت سلوک ہوناچاہئے۔ لیکن اس کی تحقیقات اور تفتیش بہت ہی محتاط انداز سے ہونا چاہئے۔ بھارت کے کہنے پر امریکہ کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور ادارے اندھی تقلید کرتے ہیں اور ان تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مارنا شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان کے اَن گنت فلاحی اداروں، مختلف برادریوں کی تنظیموں کو ایف آئی اے اور دوسرے سرکاری اداروں کی طرف سے نوٹس موصول ہورہے ہیں۔ جس میں کہا جارہا ہے کہ اپنا پورا دفتری ریکارڈ لے کر آئیں۔ پورے ریکارڈ کا مطلب ہے جب سے یہ تنظیم قائم ہوئی ہے۔ 20سال، 25سال، 50سال، 70سال۔ سارا ریکارڈ لائیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ بینک بھی اقوام متحد ہ کی اندھا دھند تقلید میں مصروف ہیں۔ اسٹیٹ بینک بھی ایسے سرکلر جاری کر رہا ہے۔ ہر کھاتے دار کو تفصیلی فارم پُر کرنا پڑ رہے ہیں۔ سارے پاکستانی، ان اداروں کی نظر میں مشکوک ہو گئے ہیں۔ پوری قوم کسی چوں چرا کے بغیر یہ تفصیلات دے رہی ہے۔ ہم یرغمالی ہر سوال کا جواب دینے پر مجبور ہیں۔

اوّل تو حکومت پاکستان کو اپنی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ پالیسی تشکیل دینا چاہئے تھی۔ کسی ایک تاریخ کا تعین ہونا چاہئے۔ جماعت الدعوۃ، لشکر طیبہ اور دیگر تنظیمیں ہمیشہ سے غیر قانونی اور نشان زدہ نہیں تھیں۔ کم از کم وہ تاریخ طے ہو جب سے انہیں حکومت پاکستان نے ممنوعہ قرار دیا۔ جماعت الدعوۃ 2005کے زلزلے میں متاثرہ علاقوں میں بہت خدمات انجام دے رہی تھی۔ اس دَور میں اگر کسی ادارے یا فرد نے انہیں گرانقدر عطیات دئیے تو وہ قابل احتساب کیسے ہو گئے۔ وزیر قانون، وزیر خزانہ، وزیر مذہبی امور، سب کو سوچنا چاہئے کہ وہ ایک خودمختار حکومت اور ایک آزاد قوم کے اتنے بڑے مناصب پر فائز ہیں۔ یا وہ مجبورو بے بس ہیں کہ ان کے ماتحت محکموں میں، بینکوں میں، یہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ جہاں ریاست اپنے عوام کی فلاح و بہبود، روزگار کے لئے کوئی قابلِ اعتبار نظام نہیں بنا پاتی، اپنے باشندوں کو بنیادی سہولتیں نہیں دے پاتی تو وہاں فلاحی تنظیموں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اگر غریبوں کو مفت کھانا کھلانے والی، گھروں میں راشن پہنچانے والی، بیماروں کا مفت علاج کرنے والی تنظیمیں نہ ہوں تو پاکستان میں کتنے افراد بھوکے رہیں۔ کتنے بیمار علاج کے لئے ایڑیاں رگڑیں۔ یہ تنظیمیں قارون کے خزانے لے کر نہیں آتیں، یہ صاحب دل افراد کے عطیات سے ہی چلتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 2ارب ڈالر عطیات دینے والے افراد میں سے 67فی صد تو مستحق افراد تک براہِ راست رسائی حاصل کرتے ہیں۔ 33فیصد مختلف تنظیموں اور اداروں کے ذریعے یہ امداد بہم پہنچاتے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں سخاوت کے تین انداز ہیں۔ نقد رقوم کی صورت میں، اشیائے ضروریہ کی شکل میں اور ایک بڑی تعداد اپنا وقت عطیہ کر رہی ہے۔ ایدھی فائونڈیشن، چھیپا اور ایسے ہی دوسرے اداروں میں نوجوان، ایمبولینس ڈرائیوری کرتے ہیں یہ اکثر رضا کارانہ ہے۔ کے پی کے رضاکار وقت دینے میں سب سے آگے، دوسرے نمبر پر بلوچستان ہے۔ بلوچستان میں 90فیصدمخیر افراد ضرورت مندوں کو براہ راست نقد رقوم دیتے ہیں۔ پنجاب اور بلوچستان دونوں میں اشیا کا عطیہ بھی کثرت سے دیا جاتا ہے۔ سندھ میں مخیر افراد اور اداروں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ کراچی عطیات کی تقسیم میں سب سے آگے ہے۔

عطیات کی فراوانی کا یہ سلسلہ اقوام متحدہ کے بیدار ہونے اور دنیا کے بدل جانے سے بہت پہلے سے جاری ہے۔ ہمارے سرکاری اداروں، پولیس، ایف آئی اے اور دوسرے محکموں میں بہت سے اہلکار ایسے ہوں گے جو عطیات کے ذریعے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے ہوں گے۔ عطیات کا یہ سلسلہ سب سے زیادہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ہے۔ ایسے اسپتال بھی قائم ہو چکے ہیں جو ہر مریض کا مہنگے سے مہنگا علاج مفت کرتے ہیں۔ اکثر اسپتالوں میں نادار مریضوں کے لئے زکوٰۃ فنڈ یا دوسرے فلاحی فنڈز سے علاج کی گنجائش ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں ذہین مگر غریب طالب علموں کے لئے فیس کی معافی اور مفت کتابوں کی فراہمی کے سلسلے ہیں۔

اس ساری تفصیل سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور حکومت دہشت گردی کی مالی امداد پر تحقیقات کے سلسلے میں حدود و قیود کا تعین کرے۔ سب سے موثر راستہ تو یہ ہو گا کہ پارلیمنٹ میں اس ساری صورت حال پر بحث کر کے قوانین وضع کئے جائیں۔ یہ اپنے ہم وطنوں کے معاملات ہیں۔ کسی غیر ملک کے نہیں اور تحقیقات کے لئے وقت کا تعین کیا جائے کہ ممنوعہ تنظیموں کو عطیات کب سے غیر قانونی تسلیم کئے جائیں گے۔ جب تک کسی تنظیم کو حکومت پاکستان نے غیر قانونی قرار نہیں دیا اس وقت تک اسے عطیات دینا بھی غیر قانونی نہیں ہو سکتا۔

اس پوچھ گچھ کا پہلا ردّ عمل تو یہ ہو رہا ہے کہ بڑے بڑے عطیات دینے والوں نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اس طرح بہت سے خاندان ماہانہ راشن سے محروم ہو رہے ہیں۔ خیراتی ادارے مفت علاج میں مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ لوگ پتھر دل ہو رہے ہیں۔

تازہ ترین