• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارکنسنز (رعشے کی بیماری) اعصابی نظام میں بتدریج بگاڑ پیدا کرنے والی بیماری کا نام ہے، جو جسمانی حرکات پر اثرانداز ہوتی ہے اور بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔ ابتدا میں اس بیماری کا احساس نہیں ہوتا اور جب کسی متاثرہ شخص کو صرف ایک ہاتھ میںہلکی سی تھرتھراہٹ محسوس ہوتی ہے تو وہ اسے معمولی سمجھ کر اکثر نظرانداز کردیتا ہے۔ تھرتھراہٹ ایک عام علامت ہے جبکہ دیگر علامات میں جسم میں اکڑاہٹ پیدا ہونا (لچک بالکل کم ہوجانا) اور جسمانی حرکات سست پڑجانا بھی شامل ہیں۔ جن افراد کے ہاتھوں میں تھرتھراہٹ بڑھ جاتی ہے، ان کے لیے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کام مثلاً گلاس میں پانی انڈیلنا،چائے کا کپ پکڑنا یا کوئی پیچ کسنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

ہر سال اپریل کی 11تاریخ کو پارکنسنز بیماری سے متعلق آگہی پیدا کرنے کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں آگاہی پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے، جبکہ عوامی سطح پر کئی شہروں میں میراتھن بھی منعقد کی جاتی ہیں۔

اس بیماری کی تشخیص 200سال قبل ڈاکٹر جیمز پارکنسن نے اپنی تحریر "An essay on the shaking palsy" یعنی ’مفلوج کرنے والی کپکپاہٹ کے بارے میں ایک مضمون‘میں کی تھی اور ان کی پیدائش کے دن کو اس بیماری سے آگہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

پارکنسنز علامات

ہر متاثرہ شخص میں پارکنسنز کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں۔ ابتدائی علامات انتہائی معمولی ہوتی ہیں، جنھیں اکثرنظرانداز کردیا جاتا ہے۔ علامات پہلے جسم کے ایک طرف نمودار ہوتی ہیں اور جب یہ پورے جسم میں پھیل جاتی ہیں تو اس وقت بھی وہ حصہ زیادہ سنگین رہتا ہے، جس طرف سب سے پہلے علامات نمودار ہوئی تھیں۔ پارکنسنز کی علامات کچھ اس طرح ہوسکتی ہیں:

تھرتھراہٹ: تھرتھراہٹ عموماً ہاتھ یا انگلیوں میں شروع ہوتی ہے۔ ہاتھ اس وقت بھی تھرتھراتے ہیں، جب وہ آرام کی حالت میں ہوں۔

جسمانی حرکات کا سُست پڑجانا: وقت کے ساتھ یہ بیماری آپ کی جسمانی حرکات کو سست کرسکتی ہے، جس کے باعث چھوٹے چھوٹے کام کرنا بھی مشکل اور وقت طلب بن جاتا ہے۔ متاثرہ شخص چلتے وقت چھوٹے چھوٹے اور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہے، چلنے کی کوشش میں پاؤں کو گھسیٹنا پڑتا ہے اور کرسی سے اُٹھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

پٹھوں میں اَکڑاہٹ: متاثرہ شخص کے جسم کے کسی بھی حصے کے پٹھے اکڑ کر سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں لچک غائب ہوجاتی ہے۔ سخت پٹھے تکلیف دہ ہوسکتے ہیں کیونکہ اس سے آپ کی جسمانی حرکات محدود ہوجاتی ہیں۔

جسمانی توازن اور ڈھانچے میں بگاڑ: متاثرہ شخص کا جسمانی توازن بگڑ سکتا ہے اور وہ کھڑا ہوکر اپنے جسم کو بالکل سیدھا نہیں کرپاتا۔ ایسے شخص کا جسم آگے کی طرف جُھکا ہوا یا خمیدہ ہوتا ہے۔

جسمانی حرکات کا خود بخود ختم ہونا: صحت مند انسان روز مرہ امور میں کئی ایسی جسمانی حرکات کرتا ہے، جن کی وہ کوشش نہیں کرتا بلکہ ایک خودکار نظام کے تحت وہ حرکات وقوع پذیر ہوجاتی ہیں، جیسے آنکھیں جھپکنا، مسکرانا یا پھر چلتے وقت بازوؤں کا جھولنا، تاہم پارکنسنز سے متاثرہ شخص میں یہ خودکار جسمانی حرکات ختم ہوجاتی ہیں۔

انداز گفتگو بدل جانا: متاثرہ شخص کا اندازِ گفتگو بدل جاتا ہے۔ اس کے بولنے کی رفتار یا تو سست پڑجاتی ہے یا پھر تیز ہوجاتی ہے۔ وہ الفاظ کی ادائیگی اس طرح کرتا ہے کہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اندازِ تحریر پر اثرات: متاثرہ شخص کے لیے لکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ بڑے الفاظ لکھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر سے مشورہ

اگر کوئی شخص ان تمام علامات یا ان میں سے کسی ایک بھی علامت کو محسوس کرے تو اسے ڈاکٹر سے فوری طور پررجوع کرنا ہیے۔ وہ پارکنسنز کے علاوہ دیگر وجوہات کا بھی جائزہ لے سکتا ہے۔

وجوہات

پارکنسنز بیماری سے متاثرہ شخص کے مخصوص دماغی خلیے (نیورون) یا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر ختم ہوجاتے ہیں۔ کئی علامات دماغ میں ایسے نیورون کو نقصان پہنچنے کے باعث ظاہر ہوتی ہیں، جو ڈوپامائن نامی پیغام رساں کیمیائی مادہ پیدا کرتے ہیں۔ جب ڈوپامائن کی سطح کم ہونے لگتی ہے تو اس سے دماغ میں غیرمعمولی سرگرمیاں وقوع پذیرہوتی ہیں۔ ایسے میں مختلف اعصابی گروپوں مثلاً سبسٹینشیا نِگرا (Substantia Nigra)کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ صحت مند لوگوں میں سیاہ نظر آنے والے اس دماغی حصے کے خلیے ڈوپامائن پیدا کرتے ہیں۔ جب اِن خلیات کا تقریباً ساٹھ تا ستّر فیصد حصہ متاثر ہو جاتا ہے تو پارکنسن کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

پارکنسنز بنیادی طور پر جینیاتی بیماری نہیں ہے، تاہم جس خاندان میں کئی افراد اس بیماری سے متاثر ہوں، ان کی آنے والی نسل میں اس مرض کے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ماحولیاتی عناصر جیسے کہ نقصان دہ مادوں سے واسطہ پڑنا بعد میں اس بیماری کا باعث بن سکتا ہے، تاہم اس بات کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔یہ بیماری عمومی طور پر 60سال کی عمر کے بعد پیدا ہوتی ہے اورخواتین کے مقابلے میں مردوں میں اس بیماری کے ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔

احتیاط

چونکہ پارکنسنزبیماری کے ہونے کی وجوہات نامعلوم ہیں، اس لیے اس سے محفوظ رہنے کے ٹھوس طریقوں کا بھی ابھی تک پتہ نہیں لگ سکا۔ کچھ تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ ایروبِک ورزش کو اپنے معمول میں شامل کرکے اس بیماری سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق کیفین(جو کافی، چائے اور کولا میں موجود ہوتا ہے) استعمال کرنے والوں میں ایسے دیگر افراد کے مقابلے میں پارکنسنز کی بیماری کم دیکھی جاتی ہے، جو کہ کیفین استعمال نہیں کرتے۔ تاہم ابھی تک ایسی کوئی واضح تحقیق سامنے نہیں آسکی، جس میں کہا گیا ہو کہ کیفین انسان کو پارکنسنز کی بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی بات سبز چائے کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔

تشخیص

پارکنسنز کی تشخیص کے لیے ابھی تک کوئی سائنسی ٹیسٹ ایجاد نہیںہوسکا ہے۔ میڈیکل ہسٹری، علامات اور اعصابی و جسمانی معائنے کے بعد مستند نیوروفزیشن(نیورولوجسٹ) متاثرہ شخص میں پارکنسنز کی تشخیص کرسکتا ہے۔

علاج

پارکنسنز کی بیماری ابھی تک لاعلاج ہے۔ تاہم مخصوص علاج کے ذریعے علامات پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ بیماری کی سنگینی کے پیشِ نظر کچھ ڈاکٹر سرجری بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر متاثرہ مریض کو لائف اسٹائل میں ضروری تبدیلیاں لانے خصوصاً ایروبک ورزش کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ کچھ مریضوں کے جسمانی توازن اور حرکات کو بہتر بنانے کے لیے فزیو تھراپی بھی تجویز کی جاتی ہے۔ متاثرہ افراد کو ایسی ادویات بھی دی جاتی ہیں، جو دماغ میں ڈوپامائن کی مقدار کو بڑھانےیا اس کے متبادل کا کام کرتی ہیں۔

تازہ ترین