• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغربی دنیا میں یہ پروپیگنڈا فروغ پا رہا ہے کہ پاکستان مذہبی اقلیتوں کیلئے جہنم اور دہشت گردوں کیلئے محفوظ جنت بنا ہوا ہے یا بنایا گیا ہے؟ اس کا ایک بار پھر ثبوت گزشتہ دنوں کوئٹہ میں علمدار روڈ پر ہونے والے بم دھماکوں کے ذریعے دہشت گردی سے دیا گیا ہے جس میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک سو سے زائد لوگ ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ اس دہشت گردی کے شکار لوگوں میں سول سوسائٹی کا انتہائی سرگرم نوجوان رکن عرفان علی بھی تھا جو مختلف عقائد، مذاہب، فرقوں اور نسلی گروپوں کے درمیان امن اور بھائی چارے کیلئے ہمیشہ سرگردان رہا۔ عرفان علی کا بھی جرم یہ تھا کہ اس کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ لوگ ہیں کہ اپنے عقیدے، مذہب، زبان، نام اور کئی دنوں سے شکل شبیہ اور ناک نقشوں کی بنیاد پر مارے جارہے ہیں۔ اسی طرح اتنا ہی افسوسناک واقعہ اسی دن سوات میں تبلیغی جماعت کے اجتماع پر بم حملے کے ذریعے دہشت گردی ہے۔
بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس سے ایک روز قبل کراچی میں ستّاسی سالہ حکیم برکاتی صاحب کے سر میں گولیاں پیوست کرنے والے قاتل کون ہیں؟
ادھر کراچی میں ہی لیاری جنرل اسپتال کے سینئر میڈیکل ریزیڈنٹس افسر اور اپنے دور کے معروف طالب علم رہنما اور لکھاری ڈاکٹر ظفر قادری کے دو جواں سال جڑواں بیٹوں حیدر اور سمیر کو آگرہ تاج کالونی میں سائلنسر والی بندوقوں سے لقمہ اجل بنایا گیا، جن میں سے ایک نوجوان موقع پر ہی ہلاک ہوگیا اور دوسرا زندگی اور موت کی انتہائی کشمکش میں ہے۔ برسہا برس لیاری کے عوام کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر قادری کے علاقے میں ہر دلعزیز جواں سال بیٹوں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے مجلس عزا میں شرکت کی تھی۔ ڈاکٹر ظفر قادری ، ان کا غمزدہ خاندان اور ہمدرد یہ سمجھتے ہیں کہ انصاف شاید صرف کلفٹن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی والوں کیلئے سریع الحرکت ہوجاتا ہے۔
کوئی مانے، نہ مانے لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ملک فرقہ وارانہ فسطائیت کے دور میں کب کا داخل ہوچکا ہے۔پاکستان کے شورش زدہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ اور صوبے کے دیگر مقامات پر بسنے والے ہزارہ لوگ شاید فرقہ وارانہ فسطائیت تلے آئے ہوئے اور پاکستان میں سب سے زیادہ خطرے تلے آئی ہوئی برادری ہے جن کے خلاف تشدد اب ان کی بدترین نسل کشی میں داخل ہو چکا ہے۔
گھر گھر قبریں، در در لاشیں
بجھا ہر ایک چراغ دیا
ماؤں کے ہونٹوں پر نوحے
اور بہنیں کراہتی ہیں
رات کی تاریکی میں ہوائیں
کیسے سندیسے لاتی ہیں
اس دن ایک دوست نے کہا کہ بدقسمتی سے پیارے پاکستان کا نام اب قبرستان رکھ دینا چاہئے۔
ویسے تو تمام اقلیتوں کیلئے جہنم بنے ہوئے پیارے پاکستان میں کوئٹہ سے لیکر گلگت بلتستان و کوہستان تک ملک کے بانی محمد علی جناح کے آبائی اقلیتی مسلم شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور ان کی آبادیوں، مساجد اور امام بارگاہوں یا عزاخانوں حتیٰ کہ سماجی میل جول کے مقامات چاہے قبرستانوں میں جنازوں کے جلوسوں تک کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن کوئٹہ اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں ہزارہ نسل سب سے زیادہ بے یارو مدد گار اورآسان ہدف اس لئے بھی ہے کہ ان کی دور ہی سے شکل شباہت سے ان کو شناخت کر کے ان کے عقیدے اور نسل کی بنیاد پر ان کا قتل عام اور ان پر حملے جاری ہیں۔
ہزارہ چاہے مزدور پیشہ ہوں کہ پروفیسر، سیاستدان، شاعر ، ادیب، نوکری پیشہ کہ سول سوسائٹی ایکٹوسٹ، انہیں چن چن کر قتل کیا جارہا ہے۔ یہ قبیلہ یا ہزارہ قوم جو اپنے عقیدے کے حوالے سے شیعہ ہے کوئٹہ اور پاکستان بھر میں بمشکل پانچ یا سات لاکھ کے درمیان ہوں گے۔اپنے خاندانوں اور برادری کے خلاف تشدد و نسل کشی کے مارے اب پاکستان میں یہ پُرامن ترین برادری جو اقلیت کے اندر بھی ایک اقلیت ہے پاکستان سے مستقل نقل مکانی کی حالت میں ہے پھر چین ہو کہ مشرق بعید، آسٹریلیا کہ کینیڈا، ہزارہ جلاوطن قافلے ٹولوں کی صورت رواں ہیں۔ رکے صرف وہ ہوئے ہیں جن کی مجبوریاں ہیں یا پھر وہ جو ملک چھوڑ کر جانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
یہ جو بے چہرہ بیدار خوں ہزارہ لوگ ہیں یہ پاکستان کی معروف و محنت کش کمیونٹی ہے جن میں موسیٰ خان جیسے جنرل بھی پیدا ہوئے ہیں تو محسن چنگیزی جیسے شاعر اور جواں سال مقتول حسین علی جیسے ادیب، ڈرامہ نگار اورعرفان علی جیسے کمیونٹی لیڈر بھی۔مشہور ماہر علم الانسان یا ایتنھروپولوجسٹ الیسانڈرو مونسوٹی نے پاکستان اور افغانستان میں ہزاروں کے سماجی اور انسانی و تاریخی مطالعے پر مبنی ایک لاجواب کتاب ”وار اینڈ مائیگریشن“ یا جنگ اور نقل مکانی کے عنوان سے لکھی ہے۔
کئی برسوں پر محیط اس تحقیق کے مطابق، افغانستان میں بامیان اور مزار شریف کے قریب کے ہزارہ علاقوں سے سب سے پہلے ہزارہ قبیلے کے لوگ انیسویں صدی کے خاتمے تک افغانستان اور برطانیہ یا اینگلو افغان جنگ کے خاتمے کے بعد وہ افغانستان کے حکمران امیر امان اللہ خان کے مظالم اور اپنی زمینوں کی ضبطی سے تنگ ہوکر موجودہ بلوچستان کی طرف نقل مکانی کر آئے تھے۔
انیسویں صدی کے آخر تک بولان پاس سے انگریزوں کی طرف سے ریلوے لائن بچھائے جانے اور کوئلے کی کانوں میں کام کیلئے یہ ہزارہ مہاجر لوگ کھپ گئے۔ یہ لوگ کوئٹہ اور اس کے آس پاس آباد ہوئے۔ کوئٹہ کے علاوہ وہ مستونگ، خضدار، لورالائی، پشین، ہرنائی وغیرہ میں بھی آباد ہوئے جبکہ کوئٹہ میں انہوں نے بڑا امام باڑہ، حسین آباد، علی آباد اور میرآباد آباد کئے تھے۔ جس شہر جاتے ہیں حسین آباد بناتے ہیں، سندھ میں بھی حسین آباد بنایا۔
افغانستان میں امیر امان اللہ خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے جانشین امیر حبیب اللہ خان نے اگرچہ نقل مکانی کر جانے والے ہزارہ لوگوں کو افغانستان آکر پھر سے آباد ہونے کی پیشکش کی لیکن وہ واپس نہیں گئے۔ چہ جائیکہ ان میں سے کئی واپس جانے کی بات کرتے تھے۔ 1963ء میں پشتونوں اور بلوچوں کی طرح کوئٹہ اور بلوچستان میں آباد ہزارہ لوگوں کو بھی اصل وقدیمی باشندہ ماننے کا قانون منظورکیا گیا۔ پاکستانی فوج میں ہزارہ محمد موسیٰ خان سپاہی سے جنرل کے عہدے پر پہنچے۔ وہ پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف اور سابق مغربی پاکستان کے گورنر بھی بنے تھے۔ ہزارہ کے لوگوں کی ایک خاصی تعداد پاکستانی سول و فوجی سروسز میں بھی رہی۔ 1969ء میں افغانستان میں قحط و خشک سالی کی وجہ سے ہزارہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے کوئٹہ و دیگر بلوچستان کی طرف نقل مکانی کی۔ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی پشتونستان مسئلے اور افغانستان میں اس وقت کی سردار داؤد حکومت کے خلاف رسہ کشی میں افغانستان سے ہزارہ لوگوں کو پاکستانی شہریت دی جبکہ پشتون پاوندوں اور ہزارہ کاشت کاروں میں دنگے بھی مشہور ہیں۔
لیکن افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب اور روسی مداخلت کے دنوں میں بھی ہزارہ لوگوں کی نقل مکانی رہی لیکن افغانستان میں روسی فوجوں کی واپسی اور طالبان کے ابھرنے پر طالبان کی طرف سے بامیان اور مزار شریف میں ہزارہ لوگوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام ہوا اور ہزارہ مقتولین کی کئی اجتماعی قبریں بھی برآمد ہوئیں تب 1990ء کی دہائی میں افغانستان سے ہزارہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کوئٹہ کی طرف نقل مکانی کر آئی کیونکہ اس وقت تک کوئٹہ اور اس کے اطراف کے علاقے ہزارہ لوگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔
حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑہ دہائی تک ہزارہ لوگوں کیلئے بلوچستان محفوظ ترین اور اپنا وطن اور گھر بنے ہوئے صوبہ اور اس کے دارالحکومت کوئٹہ میں کوئی ہفتہ اور دن شاید ہی ایسا ہوتا ہو جب ان کو شناخت کر کے بے ذریع خونریزی سے نہیں گزاراجاتا ہو۔ پھر وہ کوئٹہ شہر میں برسوں صدیوں سے آباد بڑے امام باڑے سے لیکر ہزارہ ٹاؤن و علمدار روڈ تک کا علاقہ ہو، چاہے میرآباد اور مستونگ کے پہاڑ اور بے گیا راستے یا پھر تفتان ایران سرحد پر زیارتی قافلے۔ مساجد ہوں کہ مارکیٹیں یا امام بارگاہیں ان پرآئے دن بہت ہی منظم اور کمانڈو ایکشن سے بھرپور حملے ہوتے ہیں اور قاتل اسکواڈ یا جتھے اپنی کارروائیاں کر کے سب کی نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی آج تک اوجھل اور پکڑ سے دور رہے ہیں۔
ہزارہ مقتولین کے لواحقین الزام لگاتے ہیں کہ کوئٹہ میں ہزارہ لوگوں کی خونریزی میں ملوث شدت پسند تنظیم کو سیکورٹی ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ باخبر ہزارہ حقوق کارکن کہتے ہیں کہ ہزارہ قتل عام اسٹریٹجک ڈیپتھ پالیسی کا حصہ ہے اسی لئے ان کی وفاداری ”مشکوک“ سمجھ کر مشرف کے دور حکومت سے انہیں اہم سول و فوجی عہدوں سے بھی دور رکھا جا رہا ہے۔ مشرف دور حکومت سے لیکر آج تک نو سو کے قریب ہزارہ لوگ قتل ہو چکے ہیں۔ یہ ہزارہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے!
تازہ ترین