• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد مبین

عشق علامہ اقبال کے فکر و شعر کا ایک مستقل حصّہ ہے۔ انھوں نے جو فلسفہ حیات پیش کیا اس میں تصوّرِ عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ لفظ عشق کا مفہوم جو بظاہر سب پر واضح معلوم ہوتا ہے مگر جب اس کا تعین اور اس کی تعریف چاہیں تو سب سے زیادہ مبہم ہو جاتا ہے۔ زبان کی کم مائیگی سب سے زیادہ عشق ہی کی تعریف میں نمایاں ہوتی ہے۔ عشق کے لغوی معانی گہرا جذباتی لگاؤ، محبت، الفت، عاشقی وغیرہ کے ہیں۔ عشق ایک ہمہ گیر اصطلاح ہے۔ کہیں یہ نشہ ہے، کہیں جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج، کہیں سب سے زیادہ انہماک پیدا کرنے والا شغل ہے، کہیں بیکاروں کا مشغلہ اور کہیں یہ حقیقی ہے اور کہیں مجازی۔ تاہم یہ انسان کے لیے انتہائی اہم جذبہ ہے۔ جس کے بغیر زندگی گزارنا محال ہے۔

مسلمانوں کے ہاں گزشتہ کئی صدیوں سے عشق، عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کی اصطلاحوں میں تقسیم ہو کر استعمال ہو رہا ہے۔ عشقِ مجازی سے مراد انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد لی جاتی ہے جبکہ اشخاص اور اشیاء کی محبت سے ماورا خدا کا عشق ’’عشقِ حقیقی‘‘ کہلاتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی عشق کا جذبہ دے کر پیدا کیا ہے۔ انسان کا یہ عشق ساری عمر دائرہ در دائرہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کہیں رُکتا نہیں۔

قصہ مختصر عشق مجازی میں توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو انسان مایوس ہو کر اپنے خالق کے عشق کی طرف بڑھتا ہے۔ یہاں آکر اس کے عشق کے دائرے مکمل ہو جاتے ہیں لہٰذا اس عشق میں اُسے طمانیت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ اسی عشق کی گواہی قرآن مجید ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ کہہ کر دیتا ہے۔

اگر انسان بچپن ہی میں اللہ تعالیٰ کے عشق کی طرف راغب ہوتو وہ ’’ولی اللہ ‘‘کہلاتا ہے۔ جو انسان عشق کے مجازی دائروں کی تکمیل کرتا ہوا عشق حقیقی کے منصب پر فائز ہوتا ہے وہ عشق حقیقی کی ماہیت کو جیسا سمجھتا ہے اور جس سطح پر وہ پہنچ جاتا ہے وہاں تک غالباً ولی بھی نہیں پہنچ پاتا چونکہ عشق کے ان تجربوں سے نہیں گزر پایا جہاں سے ایک سچا عاشق، عشقِ مجازی کے دائروں کی تکمیل کرتے ہوئے گزرا ہے۔ اس لیے ولی کا عشق قدرے ناپختہ رہتا ہے۔ لہٰذا عشق مجازی کو عشق حقیقی کی سیڑھی کہا جاتا ہے۔ ایک بار جب حضرت علامہ اقبالؒ سے سید نذیر نیازی نے عشق کے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے فرمایا:

’’عشق ہی جوہر ہے زندگی کا۔ عشق ہی ہمارے جملہ مسائل کا حل اور مداوا ہے۔ یہ ہمارا باہمی تعلق ہی تو ہے جس کی بدولت ہم ایک دوسرے سے ربط و ضبط اور اتحاد و اشتراک پیدا کرتے ہیں۔ انسان کا انسان سے میل جول، ایک دوسرے کی الفت اور محبت و مروّت روزمرہ کی بات ہے اور یہی بات ہے جس سے زندگی کا کارخانہ چل رہا ہے۔ ہمارا کوئی جذبہ اتنا مؤثر نہیں جتنا عشق ہے۔ عشق کی خاطر انسان بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ عشق ہی ہر شے اور وجود کا سہارا اور عشق ہی بطور ایک اصول کائنات میں کار فرما ہے‘‘۔

اقبالؒ سے پہلے متاخرین صوفی شعرا کا تصوّر عشق بھی عام شعرا جیسا ہی تھا جس میں انھوں نے زندگی کی بجائے موت، حرکت کی بجائے سکون، جدوجہد و پیکار کی بجائے سستی و کاہلی و بیکاری اور طلب و جستجو کی بجائے حرماں نصیبی مقدر سمجھی تھی۔اقبال نے اس تصوّر عشق میں اتنی وسعت پیدا کی کہ یہ جذبہ اب زندگی کا زبردست محرک عمل بن گیاہے ۔ اسی محرک کی مدد سے انسان فطرت کو تسخیر کرنے کے قابل ہوگیا۔ جس سے مرد خدا پر موت حرام ہوگی۔ اقبالؒ کے نزدیک انسانی وجود کے صحیح اور مکمل مفہوم کا ادراک عشق کی راہنمائی ہی میں ممکن ہے۔ عشق نہ صرف مادی زندگی کی ضمانت ہے بلکہ حیات بعد الممات بھی اسی کی بدولت ممکن ہے:

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم

٭٭٭

عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کر ہے فراق

٭٭٭

عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات

عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات

٭٭٭

کھول کر کیا بیاں کروں سرِ مقام مرگ و عشق

عشق ہے مرگِ باشرف،مرگ،حیاتِ بے شرف

٭٭٭

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ

عشق ہے اصلِ حیات‘ موت ہے اس پر حرام

اقبالؒ کا عشق کا تصوّر دیگر کلاسیکی شعرا سے مختلف ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں لکھتے ہیں:

’’اقبالؒ کا تصوّرِ عشق دوسرے شعراکے سوقیانہ یا رسمی عشق سے بالکل مختلف ہے۔‘‘اقبال نے عشق کے جو معانی لیے ہیں وہ ان کے خط بنام ڈاکٹر نکلسن بسلسلہ تشریحِ خودی،میں کچھ یوں بیان ہوئے ہیں:

’’یہ لفظ عشق نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ عشق کسی شے کو اپنے اندر جذب کرلینے اور اسے اپنا جزوحیات بناکر اپنا لینے کا نام ہے۔‘‘

اقبالؒ کے نزدیک عشق اُس قوتِ حیات سے عبارت ہے جو اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے کے لیے درکار ہے کائنات کی ہر شے اصول حرکت پر قائم ہے۔ آگے بڑھنے اور حقیقت سے واصل ہونے کی امنگ از ذرہ تابہ مہر کار فرما ہے۔ اس مسلسل حرکت و اضطراب کے پیچھے کائنات گیر اصول جذبہ عشق ہے جس کے سہارے پر شے اپنے مبدا تک رسائی حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس جذبے کا اظہار ہر مرتبہ وجود میں مختلف شکل رکھتا ہے۔ جمادات میں یہ محض ایک میکانکی حرکت ہے، نباتات میں جوشِ نمو ہے، حیوانات میں حفظِ نفس اور تولیدِ تواتر کی جبلت ہے۔ دائرہ انسانیت میں آکر یہ جذبہ حیات ایک لامختتم، بے کراں اور مسلسل فعلیت بن جاتا ہے۔

اقبال ایک رباعی میں لکھتے ہیں کہ لالے کے پھول کی سرخ پتیوں میں عشق کے رنگ کی آمیزش ہے۔ ان کی جان میں جو بلاانگیزی ہے وہ عشق کی وجہ سے ہے۔ اگر انسان اس خاکدانِ وجود یعنی کائنات کو پھاڑے تو اس کے اندر اسے عشق کی خونریزی ہی نظر آئے گی۔ مراد یہ ہے کہ عشق کائنات کے ذرے ذرے میں سمایا ہوا اور گردش کررہا ہے۔

اقبال، خودی کو ’’واحد حقیقت‘‘ قرار دیتے ہیں۔یہ محض فلسفی ہیگل کا تصور اور بریڈلے کا تجربہ (حسی ادراک) نہیں بلکہ پوری شخصیت ہے۔ شخصیت بھی وہ جو کشمکش یا مستعدی و بیداری کی حالت میں ہو۔ خودی کی زندگی اختیار کی زندگی ہے جس کا ہرعمل ایک نیا موقع پیدا کرتا۔

نظامِ کائنات کی اصل خودی پر ہے اور زندگی کے تسلسل کا انحصار خودی پر ہے۔ عالم موجودات خودی کے نشانوں میں سے ایک نشان ہی تو ہے۔ جو کچھ یہاں موجود ہے اس کا تعلق خودی کے اسرار سے ہے۔ خودی جب اپنے آپ کو اُجاگر کرتی ہے تو عالم کبریائی کو آشکارا کرتی ہے.یہاں صرف انسانی خودی سے گفتگو ہے۔ اقبال کے نزدیک چونکہ انسانی وجود کے تمام حقائق متغیر اور متحرک ہیں لہٰذا اس کی خودی کو بھی اپنی تربیت کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو اسرار خودی میں اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی ہیں۔

اقبال کے نزدیک جذبہ عشق زندگی کی تمام صورتوں اور اس کے مقاصد پر محیط ہے بلکہ ان کا منبع وسرچشمہ ہے۔ یہ بہ یک آن خودی کی منفرد اکائیوں میں بھی کارفرما ہے اور ان کے کل میں بھی، انسان کے مدارجِ حیات میں یہ جذبہ میکانکی، نامیاتی اور جبلّی صورتوں میں کارفرما ہے اور انسانی شعور کی اعلیٰ سطحوں پر پہنچ کر یہ جذبہ اپنی ماہیت اور اپنے مقصود سے متعلق شعورِ ذات حاصل کرلیتا ہے۔ گو کہ یہ جذبہ عشق انسانی وجود کی ادنیٰ سطح پر بھی مستحکم ہے لیکن اپنی اصلیت کے ساتھ یہ ہمارے مرکز ِوجود یعنی قلب میں موجود ہے جسے اقبالؒ نے نفس مستعرفہ کہا ہے جو خودی کے مرکز کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبالؒ اپنے ایک خط میں اس لیے عشق کو خودی کے استحکام کا باعث کہتے ہیں۔

اقبالؒ نے اپنے پہلے خطبے بعنوان ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ کے شروع میں بحث کاآغاز ہی اس سوال سے کیا ہے کہ فلسفے کے خالص عقلی منہاج کا اطلاق کیا مذہب پر بھی ہوسکتا ہے؟ اور اس کے بعد آپ لکھتے ہیں:

اگر ایمان کے لیے عقل ناکارہ اورعشق کارآمد ہے تو ایمان کے استحکام اور شعور کے لیے تعقل کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں اقبالؒ کا موازنہ عشق وعقل کھل کر سامنے آجاتا ہے۔اقبالؒ تسخیرِ فطرت کا کام عشق ہی سے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محبت جو انقلاب چاہتی ہے، انسان کی نظر کو بلند تر کرکے اسے کائنات کا حکمران بنادیتی ہے۔

تازہ ترین