• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طوبیٰ عزیز ، لاہور

کئی ہزار سالہ قدیم تاریخ کا گہوارہ ’’چکوال‘‘ اعلیٰ نسل کے بَیل، گھوڑوں ، ریوڑیوں اورہمّت و شجاعت (پاک فوج کے جوانوں کی اکثریت اسی علاقے سےتعلق رکھتی ہے)کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے بھی اسی چکوال کی سیر کا پروگرام بنایا ۔ در اصل ہم وہاں موجودہندوؤں کا مقدّس و تاریخی مقام ’’کٹاس راج‘‘ دیکھنا چاہتے تھے، جہاں ہزاروں سال پرانی تاریخ سانس لے رہی ہے۔ یہاں ہندو مذہب کے علاوہ مسلمانوں، دراوڑوں، یونانیوں، جین مت، بُدھ مت اور سکھوں وغیرہ کی ثقافت کا بھی عکس دِکھائی دیتا ہے۔ سطحِ سمندرسے تقریباً ڈھائی ہزار فیٹ بلند ،اس جگہ قائم مندر اور اس سے ملحق حویلیاں دُورہی سے نظر آجاتی ہیں۔ کبھی یہ جگہ علم و فن کا مرکزہوا کرتی تھی،جہاں دیگر علوم کے علاوہ سنسکرت کی تعلیم بھی دی جاتی ۔ مندروں کے قریب آج بھی ایک بدھ اسٹوپا کے آثار موجودہیں،جو بدھ مذہب کے پیروکاروں کی عقیدت کا مظہر ہیں۔تقسیم ِہند سے قبل یہاں ہندوؤں کی اکثریت آباد تھی، لیکن قیام ِ پاکستان کے بعدکٹاس راج کے ہندو نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے۔ کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کے مندروں میں سے رام چندر مندر، ہنومان مندر اور شیو مندر خاص طور پر نمایاں ہیں۔ہندو عقائدوقدیم روایات کے مطابق جب ’’شیو ‘‘نامی دیوتا کی چہیتی بیوی’’ ستی‘‘ نے وفات پائی،توان کے آنسوؤں کے تسلسل کی بہ دولت دو تالاب وجود میں آئے، جن میں سے ایک ’’پشکار‘‘ (اجمیر میں) اور دوسرا ’’کٹکشا‘‘( سنسکرت میں کٹکشا کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے)ہے، جوکٹاس راج (لفظ کٹکشا کی جدید شکل)تالاب کی صُورت آج بھی چکوال میں موجود ہے۔ اس کا رقبہ دوکنال سے زیادہ اورگہرائی تقریباً تیس فیٹ ہے ۔ تالاب کے اِردگِرد چھوٹے بڑے مندر ہیں۔ کٹاس ایک انتہائی دِل چسپ مقام کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق کٹاس راج تالاب میں اشنان سے گناہ دُھل جاتے ہیں، اس کا پانی نیلا یا گہرا ہرا معلوم ہوتا ہے۔ پہلےتالاب کے پانی کو فلٹر کرکے چکوال کے لوگوں کو فراہم کیا جاتا تھا،لیکن اب پانی کی مقدار پہلے سے کم ہو گئی ہے، کیوں کہ اس کے اردگِرد سیمنٹ کی فیکٹریاں لگ گئی ہیں اور زیرِ زمین پانی کی سطح بھی کم ہو گئی ہے،مقامی لوگوں کی شکایات کے باوجود فیکٹریاں اسی طرح ماحول پراثرانداز ہورہی ہیں۔

زیادہ تر مندر چکوال سے چالیس کلومیٹر دُور پوٹھوہار اور مشرقی پنجاب میں واقع ہیں۔ ان مندروں سے ہندو1947ء میںہجرت کرکے شمالی پنجاب چلے گئے۔ کٹاس کے مشہور ہونے کی ایک اور وجہ ’’ستگڑا‘‘ (سات مندروں کا مجموعہ)بھی ہے۔ اس کے ارد گرد موجود مندر منہدم ہوچکے ہیں، مگر یہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ستگڑا تین منزلوں پر مشتمل ہے ،اس کا ایک ہی داخلی راستہ مندر کے اندر سے گھومتا ہوا چھت کو جاتا ہے۔ پہلی منزل میں عبادت گاہ اور دوسری منزل میں دو چھوٹے تنگ و تاریک کمرے ہیں ، جب کہ بالائی منزل سے پورے کٹاس کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ کٹاس ہی وہ مقام ہے جہاں ماضی میں جنوبی ایشیا کی واحد یونی وَرسٹی ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مشہور مسلمان ماہرِ ارضیات ، ریاضی، تاریخ اورعلم ِ نجوم، ابو ریحان البیرونی نے اسی یونی وَرسٹی سے سنسکرت کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ علاوہ ازیں، اسی جگہ ایک پُراَسرار سُرنگ بھی موجود ہے ، جہاں سے ہندو زائرین مقدّس جھیل تالاب کا نظارہ کرتے ہیں۔یہ مندرہر وقت اگربتّی کی خوش بُو سے معطّر رہتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تعمیر کے وقت مندر کی دیواروں کی مضبوطی و پختگی کے لیے ماش کی دال استعمال کی گئی۔ اسی لیے چاہے کتنی ہی کڑی دھوپ یا گرمی کیوں نہ ہو،، مندر کے اندر ہر وقت ٹھنڈک کا احساس رہتا ہے۔

موجودہ حکومت سیّاحت کے فروغ میں فعال نظر آتی ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ مُلک میں موجود تاریخی مقامات کی ماند پڑتی خُوب صُورتی کی بحالی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی عمارتوں کی مرمّت اور تزئین و آرایش کے لیے بھی ٹھوس منصوبہ بندی کرےاور سالانہ بجٹ کا کچھ حصّہ ان کے لیے بھی مختص کیا جائے کہ یہ سیّاحت کے فروغ میں اہم کر دار ادا کرسکتے ہیں۔ 

تازہ ترین