• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کپتان نے درست کہا کہ جو ’کارکردگی دکھائے گا وہ رہے گا اور جو نہیں دکھا سکا وہ گھر جائے گا‘۔ یہ بھی ٹھیک کہا کہ ’بہتر نتائج حاصل کرنے کیلئے کپتان کو بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا پڑتا ہے‘۔ ایسے ہی تو بنے گا ’نیا پاکستان‘، جس میں اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ ہوں گے، شہریار آفریدی کی جگہ اعجاز شاہ ہوں گے اور فواد چوہدری کی جگہ فردوس عاشق اعوان (دونوں ہی پی پی پی کے)، اب ذرا پوری کابینہ پر نظر ڈالیں اور تلاش کریں اصل تحریکِ انصاف کو اور 23سال پہلے ’عمرانی بیانیہ‘ کو کیونکہ اب سے کچھ دنوں بعد ہی پارٹی کا یوم تاسیس بھی آ رہا ہے۔

اگر بات کارکردگی کی ٹھہری تو پھر بیٹنگ آرڈر ہی کیوں تبدیل، کھلاڑی کو ڈراپ کریں۔ اسد عمر چونکہ پرانا ’انصافین‘ ہے لہٰذا اُس نے وزیراعظم سے معذرت کر لی۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ وہ کسی دبائو یا سفارش پر ’’یوٹرن‘‘ لے کر نئی وزارت لے لیں گے یا نہیں مگر وہ گئے تو باوقار انداز میں۔ اب رہی بات اچھی یا خراب کارکردگی کی تو 2013سے 2018تک پرویز خٹک ایک کامیاب وزیراعلیٰ رہے اور پہلی بار خیبر پختونخوا میں کوئی جماعت مسلسل دوسری بار جیتی لیکن اُن کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کر دیا گیا اور منصب محمود خان کو دے دیا گیا۔ اُس وقت اپنی طرح کی کمزور وزارت چلا رہے ہیں، دوسری طرف پنجاب کے وزیراعلیٰ کے بارے میں شاید ہی کوئی پارٹی کے اندر یا باہر اُن کی کارکردگی سے متاثر نظر آتا ہو مگر اُس سے کیا فرق پڑتا ہے، کپتان تو خوش ہے۔

شاید اسد عمر کے استعفیٰ پر لوگ اتنے حیران نہیں ہوتے، اگر کپتان نے خود اُسے اپنا بہترین کھلاڑی قرار نہیں دیا ہوتا۔ جو شخص الیکشن سے پہلے ہی وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا ہو، چاہے اُس میں فیصلے کرنے کی (اور وہ بھی مشکل فیصلے کرنے کی) صلاحیت نہ ہو تو قصور تو اُس کا ٹھہرا جس نے ایک مڈل آرڈر بیٹس مین کو اوپر کھیلنے کیلئے بھیج دیا، یہ سوچے بغیر کہ وکٹ بھی گیلی ہے اور آسمان پر بادل بھی، اُسے تو آئوٹ ہونا تھا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ انتہائی باصلاحیت ہیں مگر وہ ’انصافین‘ نہیں ہیں۔ اگر اُن کا انتخاب جنرل مشرف نے بھی کیا اور آصف علی زرداری نے بھی تو پھر کپتان کو ماننا پڑے گا کہ اُن کا بھی انتخاب درست تھا۔ اسد عمر تو 1992کے جاوید میاں داد ثابت نہ ہو سکے، کہیں حفیظ شیخ 1987کے سلیم جعفر ثابت نہ ہوں۔ بیٹنگ آرڈر کا فیصلہ یقیناً کپتان کا ہوتا ہے مگر ٹیم تو سلیکشن کمیٹی منتخب کرتی ہے۔ شاید اِسی لئے کچھ نئے کھلاڑی سامنے لائے گئے ہیں، جن میں سب سے اہم نام محترم اعجاز شاہ کا ہے۔ وہ جنرل مشرف کے میاں داد تھے اور اپنی ’صلاحیتوں‘ کا لوہا منوا چکے ہیں۔ کہتے ہیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پر استعفیٰ کے دبائو میں بھی اُن کا عمل دخل رہا۔ اُن کا 2002میں مسلم لیگ(ق) کی تشکیل میں اور مائنس بے نظیر اور مائنس نواز شریف فارمولے پر عمل کروانے میں اہم کردار رہا۔ اب شاید ان کو لانے کا مقصد پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں ’مثبت نتائج‘ دلوانا ہو ۔لہٰذا سیاست کے اِس ’عمرانی فارمولہ‘ میں اب کوئی بھی کسی وقت فٹ ہو سکتا ہے اور کوئی بھی ان فٹ، بس شرط اس کا باصلاحیت ہونا ہے اور ہمارے معاشرے میں ’صلاحیتوں‘ کی تعریف ذرا مختلف رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ اگر آپ میں قابلیت ہو تو آپ باصلاحیت بھی ہوں، اسد کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔

پرانے ’عمرانی فارمولہ‘ نے پاکستان تحریک انصاف کو ایک مضبوط جماعت بنایا۔ اس میں دو دہائی کا عرصہ لگا۔ 2011تک اِس میں یوٹرن تھا اور نہ ہی روایتی سیاست، خود کپتان ایک پرکشش شخصیت کے طور پر سامنے آئے، لوگ اُن کو کرکٹ کے بہترین لیڈر کے طور پر جانتے تھے۔

30؍اکتوبر 2011پارٹی کا عروج تھا، اِس سے پہلے 1997میں کوئی سیٹ نہیں ملی اور 2002میں صرف ایک وہ بھی کپتان کی مگر اب پارٹی کھڑی ہو چکی تھی۔ پارٹی میں ’تبدیلی‘ کا سفر 2013کے پارٹی الیکشن سے شروع ہوا۔ دھاندلی کا الزام لگا تو کپتان نے کمیشن کو تحقیقات کا حکم دیا۔ جب رپورٹ میں ترین اور علیم خان پر الزامات لگنے شروع ہوئے اور پھر ان کے خلاف کارروائی کی بات ہوئی تو کمیشن کو ہی گھر بھیج دیا گیا۔ ایک اور الیکشن کمیشن بنا مگر وہ بھی گھر گیا۔ یہ شاید تبدیلی میں تبدیلی لانے کے سفر کا آغاز تھا۔ اب وہ سب کچھ ہونے لگا جو دوسری بڑی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے۔ الیکشن کے بجائے نامزدگی بس مقصد ایک ہی رہ گیا کہ الیکشن جیتنا ہے۔

2013کا الیکشن نئے ’عمرانی فارمولہ‘ کی پہلی کامیابی تھا۔ ایک صوبہ میں حکومت بن گئی۔ کراچی میں 8لاکھ ووٹ پڑا اور سب سے بڑھ کر اقتدار کی منزل قریب تھی مگر ’اصل انصاف‘ کا پتہ نہیں۔ لوگوں کو عمران سے امید تھی اور اب بھی ہے مگر پارٹی کے اندر پرانے لوگ یہ محسوس کر رہے تھے کہ چونکہ اب اندرونی طور پر الیکشن شاید نہ ہو اور گزارہ نامزدگی پر ہو تو وہ مختلف گروپس میں بٹ گئے۔ سب سے واضح اور بڑی تقسیم ترین اور علیم خان بامقابلہ شاہ محمود اور محمد سرور کے درمیان تھی اور جس کی وجہ سے لاٹری عثمان بزدار کی نکل آئی۔

2018کے الیکشن ہوئے۔ کپتان کو اقتدار تک پہنچنے میں کچھ بے ساکھیوں کے سہارے آگے بڑھنا پڑا جس کا آغاز بلوچستان سے ہوا۔ اب یہ اقتدار مسلم لیگ(ق)،جنوبی پنجاب محاذ، بلوچستان نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور ون مین پارٹی عوامی مسلم لیگ یا شیخ رشید لیگ پر کھڑا ہوا۔

اب آپ خود فیصلہ کر لیں گے اگر ان جماعتوں سے علیحدہ علیحدہ ’میثاق‘کر کے حکومت چل رہی ہو تو پرانے اصولوں پر مبنی ’عمرانی فارمولہ‘ کہاں گیا۔

ہم اصولوں کو بھی بازار میں لے آئے ہیں

اور پتہ پوچھتے پھرتے ہیں خریداروں کا

اب اگر حکومت انہی بے اصولوں والے سیاستدانوں کے ساتھ ہی چلانی ہے، اپنے مخالفین پر ’چھترول‘ کے ذریعے آگے جاناہے اور جنرل مشرف، آصف زرداری اور نواز شریف کی سیاسی ٹیم اور نوکر شاہی کے ساتھ ہی چلنا ہے تو پھر اُن 23سالوں کا حاصل کیا رہا۔

تازہ ترین