• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک تاریخ وہ ہوتی ہے جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ ایک تاریخ وہ ہوتی ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے بنتی اور تشکیل پاتی ہے۔ اِسے مشاہداتی تاریخ کہا جا سکتا ہے۔ ایک عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ بلاول، عمران اور شیخ رشید اور اُن کے ساتھیوں، کارکنوں اور وفاداروں کے ایک دوسرے پر طنز کے نشتر، ذو معنی اور تنقیصی فقرے اور تبادلہ خطابات میری آنکھوں کے سامنے تاریخ بنا رہے ہیں۔ شاید فکری پختگی سے تہی دامن لیڈران نہیں جانتے کہ اُن کے ہونٹوں سے ٹپکا ہوا ہر لفظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہو جاتا ہے اور اُن کا سیاسی قد بناتا یا گھٹاتا ہے۔ وقتی طور پر اُن کے جوشیلے حمایتی یا جیالے کارکن بےشک واہ واہ کے ڈونگرے برسائیں لیکن تاریخ کے فیصلے اپنے ہوتے ہیں اور اُن فیصلوں میں حواریوں یا جوشیلے کارکنوں کی واہ واہ کوئی کردار سرانجام نہیں دیتی۔

میں پاکستان کی نصف صدی کی سیاست کا عینی گواہ اور تاریخ کا طالب علم ہوں۔ موجودہ سیاست کے رنگ دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں کہ زندگی کے باقی شعبوں کی مانند ہماری سیاست کا معیار اور اخلاقیات بھی مسلسل تنزل کا شکار رہی۔ میں نے بچپن میں جس طرح کی سیاست دیکھی اُس میں تہذیب، اخلاق، باہمی احترام وغیرہ کا رنگ غالب تھا۔ جوں جوں جوانی کی بہار آئی، سیاست کا اخلاقی معیار گرتے دیکھا۔ وہ سیاستدان ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے جو عوام کی تربیت کرتے اور اُنہیں تہذیب کے دائروں کے اندر رکھتے تھے۔ اُن کی جگہ ایسے سیاستدان ابھرتے اور اقتدار پر غلبہ پاتے دیکھے جو عوام میں پزیرائی اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئے جوکروں کی مانند سیاسی اسٹیجوں پر اداکاری کرتے، مخالفین پر گھٹیا فقرے کستے، ذومعنی خطابات دے کر عوام سے واہ واہ کی توقع کرتے تھے۔ آکسفورڈ کے فارغ التحصیل بلاول بھٹو اور عمران خان یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ اُن کے ایک دوسرے کے لئے ذومعنی خطابات، تنقیصی جملے اور مذکر کو مونث کہہ کر پکارنے سے نہ صرف سیاست کا تالاب گدلا ہوتا ہے، محاذ آرائی اور تلخی میں مجروح اّنا بھی شامل ہو جاتی ہے، جو سیاسی کو ذاتی لڑائی بنا دیتی ہے اور کارکنوں کا اخلاقی معیار بھی بُری طرح گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ آکسفورڈ کا طالب علم مَیں بھی تھا۔ وہاں نہ کبھی گھٹیا زبان استعمال ہوتے دیکھی، نہ تقریری مقابلوں میں ذاتی منفی جملے سنے اور نہ ہی آکسفورڈ سے فارغ التحصیل لاتعداد برطانوی وزرائے اعظم کو اِس سطح پر اترتے دیکھا۔ گویا یہ سب ہماری سیاست کی دین ہے اور ہم نے خود اپنی سیاست کو اِس نہج پر ڈالا اور اِس پستی پر اُتارا ہے۔ یونیورسٹی معیاری تعلیم دیتی ہے لیکن اخلاقیات اپنی اپنی تربیت کا ثمر ہوتی ہے۔ قائداعظم لنکنرز اِن لندن، لیاقت علی خان کیمبرج، علامہ اقبال کیمبرج، ذوالفقار علی بھٹو برکلے، بے نظیر آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ تھیں لیکن اخلاقی و تہذیبی شخصیت سب کی الگ اور منفرد تھی۔ تحریکِ پاکستان کے لیڈروں کی زبانوں سے کبھی گھٹیا فقرہ نکلا، نہ کبھی مخالف پر ذاتی حملہ۔ اصولی اختلاف اور اصولی سیاست ہوتی تھی۔ قائداعظم کا ایک فقرہ تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا اور زبان زدِعام ہو گیا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ مولانا آزاد کانگریس کے شو بوائے ہیں۔ اُس ایک فقرے میں قائداعظم نے مسلمانوں کی نمائندگی کے کانگریسی دعوے اور کانگریس کی حکمت عملی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ گویا راہنمائوں کے فقرے تاریخ کے صفحات پر چپک جاتے ہیں۔ میں اسکول کا طالب علم تھا تو پتہ چلا کہ رحیم یار خاں میں ایک جلسہ عام ہو رہا ہے، جس میں سردار عبدالرب نشتر، چوہدری محمد علی اور کچھ بڑے لیڈران خطاب کریں گے۔ انتخابات کا ڈول ڈالا جا چکا تھا۔ قیوم خان مقبول لیڈر تھے۔ میں ایک بچہ طالب علم کی حیثیت سے جلسے میں موجود تھا۔ سبھی نے نہایت مہذب، شستہ اور معیاری انداز میں تقریریں کیں، حکومت پر کڑی تنقید کی، مسلم لیگ کی حمایت کی اپیل کی اور اپنی تقریروں کو شعروں سے سجایا۔

پھر وہ شستہ اور مہذب سیاست آہستہ آہستہ رخصت ہو گئی۔ اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔ صدر ایوب خان مادرِ ملت کے خلاف انتخابی مہم کے حوالے سے جلسے کر رہے تھے تو میں گجرات اسٹیڈیم میں اُن کی تقریر سننے پہنچ گیا۔ ایوب خان نے خدا معلوم کیا تقریر کی لیکن اُن کی ایک گھنٹے کی تقریر کا فقط ایک لفظ ذہن میں محفوظ ہو گیا۔ ایوب خان نے کہا کہ ’اپوزیشن کا دلّا لوگ مجھ پر الزام لگاتا ہے‘۔ ہو سکتا ہے کچھ علاقوں میں ’دلا‘ تکیہ کلام ہو لیکن پنجاب اور دوسرے علاقوں میں یہ نہایت قابل مذمت، تہذیب سے گرا ہوا گھٹیا تیر ہے، جو کسی پر چلایا جاتا ہے،یہ لفظ گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کالم کا دامن تنگ ہے اِس لئے تفصیلات سے گریز ضروری ہے۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر تھے اور ڈگریوں کے حوالے سے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور نہایت ذہین انسان۔ اُنہوں نے عوام کو احساس آزادی دلانے کے لئے عوامی رنگ اختیار کیا اور نتیجے کے طور پر جیالوں اور جوشیلے حمایتیوں کی ایک فوج تیار کر لی، جو مخالفین کا گریبان پھاڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔ میں نے اُن کی جیالی خواتین کو مخالفین کی آنکھوں کی طرف اِس طرح انگلیاں کرتے دیکھا، جس طرح وہ آنکھیں ہی نکال لیں گی۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں جب اُن کے صوبائی وزیر اعتزاز احسن نے استعفیٰ دیا تو میں نے جیالوں کو ٹرکوں پر جا کر اُن کے گھر پر پتھر برساتے بھی دیکھا۔ مقصد یہ کہ بھٹو صاحب کی زبان سے نکلا ہر لفظ پارٹی کارکنوں کا لفظ بن جاتا تھا۔ بھٹو صاحب ذو معنی فقرے کسنے اور مخالفین کی نقل اتارنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ وہ خان قیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہتے۔ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اِس کا مطلب کیا تھا؟ میں تو ہرگز لکھ نہیں سکتا۔ وہ اصغر خاں کو آلو خاں، ایک عالم دین کو مولوی حلوہ، ایک اپنے وزیر کو مولوی وہسکی اور کچھ مخالفین کو (SHE)کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک بہت نامور مرحوم ادیب سابق وفاقی سیکرٹری کو مارلن منرو کہتے تھے۔ انسانوں کی تضحیک اور تحقیر میں اُن کا ثانی نہیں تھا۔ میں نے دیگ سے صرف چند ایک دانے نکالے ہیں ورنہ!! مرحوم سعید کرمانی صاحب تحریکِ پاکستان کے معزز لیڈر تھے۔ کسی نے بھٹو صاحب سے اُن کا ذکر کیا تو فوراً جملہ کسا (Who is SHE?)پھر اُن کو مصر میں سفیر بنا کر بھیج دیا اُسی روز آغا شورش کاشمیری مجھ سے ملے اور ایک دلچسپ واقعہ سنایا جو پھر کبھی۔ عمران خان کا بلاول کو بلاول صاحبہ اور بلاول کا عمران کہتی ہے، کہنا اُسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ قیادت نوجوان نسل کا اخلاق کیا سنوارے گی، اُن کو اپنے دہن کی خبر لینا چاہئے۔ شیخ رشید کے ذو معنی فقرے فواد چوہدری کا انداز ہماری سیاست کی تنزل پزیر اخلاقیات کے چند نمونے ہیں لیکن افسوس تو اِس تلخ حقیقت کا ہے کہ یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اے کاش!اُنہیں کوئی سمجھائے کہ جو دوسروں کی تضحیک کرتا ہے وہ دراصل وہ اپنی تضحیک کرتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین