• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوںمیں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں تھا جہاں حکومت چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے دوسرے بڑے اجلاس کا انعقاد کیا گیا،اس موقع پردنیا بھر کے نمایاں ممالک سے تعلق رکھنے والے لیڈران، تھنک ٹینکس نمائندگان اور اہم اداروں کے سربراہان بھی موجود تھے، پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کا اعزاز وزیراعظم عمران خان کو حاصل ہوا ۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ جسے پہلے ون بیلٹ ون روڈ بھی کہاجاتا تھا، بلاشبہ چین کی طرف سے رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت 66 سے زائد ممالک تجارتی بنیادوںپر آپس میں منسلک ہورہے ہیں،ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو قریب لانے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔چینی صدر شی جن پنگ نے آج سے چھ سال قبل 2013 ء میں اس عظیم الشان منصوبے کا اعلان کیاجو اب تیزی سے حقیقت کا روپ دھاررہا ہے، زمانہ قدیم کی شاہراہ ریشم کے نقشِ قدم پردورِ جدید کے سلک روڈ اکنامک بیلٹ کا بنیادی مقصد چین کو سڑک اور ریل کی مختلف راہداریوں کے ذریعے ایشیا کے تقریباً تمام ممالک سے ملاتے ہوئے یورپ سے منسلک کرنا ہے، اس طرح میری ٹائم سلک روڈکے تحت چین کو بذریعہ بحری راستہ افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت پوری دنیا تک تجارتی رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا سب سے اہم ترین حصہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) ہے جسے ہم پاکستانی پاک چین اقتصادی راہداری کے نام سے بھی پکارتے ہیں،اندازاََ 62ارب امریکی ڈالرز کی مالیت کا یہ ترقیاتی منصوبہ چینی سرحد ی علاقے خنجراب سے گوادر بندرگاہ تک مشتمل ہے، اس منصوبے کی افادیت کے پیش نظر اسے خطے میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں باشندوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کی ضمانت بھی سمجھا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے کیونکہ سی پیک منصوبے نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تیز رفتار ترقی کی رفتار برقرار رکھی اور ملک کی مائیکرو اکنامکس صورتحال بہتر بنانے میں مدد کی ،سی پیک کی بدولت بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بھی تقویت ملی ، بطور ابتدائی شراکت دار پاکستان کو اقتصادی بحران سے نبزدآزما ہونے کیلئے ہمسایہ دوست ملک چین کاتعاون بھی حاصل رہا، اس امر کا اعتراف خود وزیراعظم عمران خان نے حالیہ اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران کیا کہ پاکستان میں بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کی بدولت توانائی بحران پر قابو پایا گیا،وزیراعظم نے اس موقع پر غیرملکی سرمایہ کاروں کوپْرکشش مواقع فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حکومت اقتصادی ترقی کے لئے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، ہم چین کے ساتھ بنیادی ڈھانچے، ریلوے، توانائی اور آئی ٹی میں تعاون میں اضافہ چاہتے ہیں جبکہ زراعت، صحت اورتعلیم میں تعاون کا فروغ بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے، سی پیک منصوبے کے تحت گوادرتیزی سے دنیا کا اہم تجارتی مرکزبن رہا ہے، سی پیک کے اگلے مرحلے میں خصوصی اقتصادی زونز کا قیام بھی شامل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ انڈیا روز اول سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا سخت ناقد ہے، انڈیااس عظیم الشان منصوبے کی مخالفت کی بڑی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری کوپاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان کے علاقے سے گزرنا قرار دیتا ہے، رواں برس بھی بھارتی قیادت نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم جیسے اہم عالمی اجلاس کاانہی تحفظات کی بناء پر بائیکاٹ کیالیکن دوران اجلاس چینی وزارت سے منسوب ایک نقشہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں پاکستان کا نام شائع نہ کیا گیا بلکہ انڈیا کو نمایاں اہمیت دی گئی،میرے لئے سب سے تکلیف دہ امر یہ تھا جب میں نے حکومت چین کے مبینہ جاری کردہ نقشے میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو انڈیا کا حصہ دیکھا، میں نے اس سنگین جسارت کی فوری نشاندہی اپنی اعلیٰ قیادت کو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سرکاری سطح پر اس اقدام پرسخت احتجاج ریکارڈ کرانے کی ضرورت ہے، اگر آج ہم خاموش رہے تو کل یہی نقشہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تمام ممالک کی سرکاری دستاویزات کا حصہ بن جائے گا جس سے پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر دیرینہ موقف کو سخت سفارتی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ چینی صدر کا تین روزہ اجلاس کے اختتام پر میڈیا بریفنگ میں کہنا تھا کہ حالیہ فورم کے دوران 64ارب ڈالرز سے زائد کے معاہدے کئےگئے ہیں لیکن روزنامہ جنگ میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق چارمالیاتی پروجیکٹس میں سے کوئی بھی پاکستان کے لئے نہیں ہے،متعدد ممالک کی شمولیت کے ساتھ ایک منصوبے کا ذکر کیا گیا ، تاہم پاکستان اس میں بھی شامل نہیں ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا قریبی ہمسایہ ملک چین اپنی کامیاب اقتصادی پالیسیوں اور انتھک محنت کی بدولت برق رفتاری سے عالمی طاقت کا درجہ حاصل کررہا ہے لیکن ایک وقت تھا کہ دنیا کی بیجنگ تک رسائی پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے بغیر ممکن نہیں تھی، ماضی میں بھی ہم نے چین کو امریکہ اور مغربی دنیا سے منسلک کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں، آج بھی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا محور سی پیک منصوبہ ہے ، چین پاکستان کو کتنی اہمیت دیتا ہے اسکا اندازہ بیجنگ آمد پر وزیراعظم عمران خان کے استقبال سے لگایا جاسکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ہماری کلیدی اہمیت کے تناظر میں اعلان کردہ عالمی منصوبوں میں پاکستان کو نمایاں مقام ملنا چاہئے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے سفارتی محاذ پر بہت زیادہ فعال کردار ادا کریں اور ماضی کی دقیانوسی پالیسیوں کو خیرباد کہہ دیں۔ سفارتی محاذ پر جرات مندانہ موقف ہی پاکستان کو عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین