تحریر:پرویز فتح … لیڈز
یوم مئی کی روایت کے مطابق یہ محنت کشوں کا عالمی دن ہے جو انیسویں صدی میں 8گھنٹے روزانہ اوقات کار کی تحریک اور اسے کچلنے کیلئے امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے قتل عام اور شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جسے ہم یوم مئی کے شہید کہتے ہیں۔ اس لئے ہم یکم مئی کو ہر سال محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد اور اس کے لئے قربانیاں دینے والوں کے ساتھ یک جہتی کرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ، پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں ان تمام انسانوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں جو اجتماعی جدوجہد کررہے ہیں، جو زیادہ تر انتہائی مشکل حالات میں کرنا پڑتی ہے اور قربانی مانگتی ہے۔ آج سے 151برس قبل عظیم فلسفی کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل نے دنیا بھر میں تہلکا مچا دیا، محنت کش محنت کش جو لمبی لمبی شفٹوں میں کام کرتے تھے دنیا کی نئی نئی ایجادات سے لے کر روزمرہ کی ضروری اشیاء تک پیدا کرتے تھے، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر استحصال کا شکار تھے۔ کارل مارکس نے انہیں ایک نئی راہ دکھلائی اور جدوجہد کے راستے پر ڈال دیا۔ 1886 کی شکاگو کے مزدوروں کی تحریک اسی عالمگیر تحریک کا حصہ تھی جسے سرمایہ داروں اور ان کی پروردہ حکومت نے بڑے وحشت ناک طریقے سے کچلنے کی کوشش کی۔ یہ وہی دن ہے جب مزدوروں نے اپنا امن کا سفید جھنڈا اپنے خون سے رنگ کر سرخ کردیا اور اس دن سے مزدوروں کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہوکر دنیا بھر میں ان کی جدوجہد کی علامت بن گیا۔ انہی شہیدوں کی بدولت آج ہم 133برس بعد بھی 8گھنٹے روزانہ کام کی صورت میں اور سوشل سیکورٹی مراعات کے ساتھ فیض یاب ہورہے ہیں۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے ہم خاص طور پر ریلوے محنت کشوں کی یونین RMTکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جوکہ پانچ مختلف ریل کمپنیوں، جوکہ پرائیوٹ کمپنیاں ہیں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں یہ جدوجہد بالخصوص مسافروں اور عام شہریوں کے تحفظ کیلئے ہے کیونکہ یہ پرائیوٹ کمپنیاں اپنے اخراجات کم اور منافع بڑھانے کیلئے گارڈ کے کردار کو ختم کرکے صرف ڈرائیور سے ہی ریل چلانا چاہتی ہیں، اس سے عام شہریوں، مسافروں کی سیفٹی کے ساتھ مزدوروں اور مدد کے طلبگاروں کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا ہم یونیورسٹیوں اور کالجز یونین UCUکی جدوجہد کی بھی حمایت کرتے ہیں جو اپنی سال ہا سال کی محنت کی پنشن مراعات کم کئے جانے کیخلاف برسر پیکار ہیں۔ عارضی ملازمین اور کنٹریکٹ لیبر نے تو دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی کام کرنے والوں کے حقوق کو سلب کررکھا ہے کیونکہ ان پر ملازمت کے تحفظ اور دیگر مراعات کا قانون لاگو نہیں ہوتا ہم ہمسایہ ملک فرانس میں ریلوے ملازمین کی وزیراعظم اور حکومت کے خلاف اس جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت مزدوروں کے حالیہ برسوں میں حاصل کئے گئے حقوق کو ختم کرکے ریلوے نیٹ ورک کو پرائیوٹ کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ برصغیر پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کو تو سامراج نے بٹوارے کے وقت ایسے مذہبی تعصب، نفرتوں اور قتل غارت ڈالا کہ وہ اس روایت کو آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں مذہب و عوام کے معاشی، سماجی، سیاسی حقوق کو سلب کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جو آج تک جاری ہے پاکستان میں تو قائداعظم کے انتقال کے ساتھ ہی بیوروکریسی، جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے ملک کو آزادی کی تکمیل اور ایک عوامی فلاحی ریاست کے قیام سے روکے رکھا۔ محنت کش طبقات کے حقوق تو بہت بعدکی بات ہے وہاں تو مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقے کے نہ تو حقوق ہیں نہ تحفظ، وینزویلا میں مزدور اور کسان سوشلزم کی جانب گامزن حکومت کے تحفظ کیلئے کوشاں ہیں تاکہ صدر مزیرو اور ملکی حکومت امریکہ اور یورپین یونین کی جانب سے معاشی پابندیوں، بغاوت کروانے کی کوششوں اور براہ راست سیاسی مداخلت کے خلاف برسرپیکار ہیں جو گزشتہ دہائیوں کی ترقی کو ملیامیٹ کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ انہوں نے ارجنٹائن اور برازیل میں کیا۔
دنیا بھر میں صحافیوں کا قتل عام اور ان پر تشدد ایک تشویش ناک صورت اختیار کرچکاہے۔ گزشتہ برس 2مئی کو انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی جانب سے پریس کا عالمی دن منایا گیا تھا جس کا مطلب عالمی سطح پر صحافیوں پر تشدد اور ان کے قتل عام کے خؒلاف آواز اٹھانا تھا۔ صحافیوں کی اس عالمی تحریک کی تحقیق کے مطابق2000ء سے اب تک ہندوستان میں 30، افغانستان میں 22اور پاکستان میں 115سے زیادہ صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ اسی دوران ترکی میں صحافت اور جمہوری آزادیوں کے خلاف صدر اردگان کی حکومت کی جانب سے حملے جاری ہیں، جبکہ یوکرین میں نہ صرف کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی گئی ہے بلکہ یوم مئی کی تقریبات منعقد کرنے کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ فاشٹ پیراملٹری دستے بلاروک ٹوک سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔ فلسطین کے عوام کو نہ صرف حق خودارادیت نہیں دیا جارہا ہے بلکہ غزہ اور دیگر فسلطینی علاقوں میں اسرائیلی حکومت اور فوجی دستوں کی وحشیانہ بربریت و درندگی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس سب کے باوجود برطانوی حکومت، اقوام متحدہ، حتیٰ کہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر نام نہاد اسلامی ممالک کی خاموشی شرم ناک ہے۔گزشتہ دو برسوں کے یوم مئی پر غور کریں تو برطانیہ میں سیاسی صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوچکی ہے دو سال قبل ہم الیکشن کے عمل سے گزر چکے تھے جوکہ ٹریسامے نے اس سوچ اور غلط فہمی کے مطابق کروائے تھے کہ ایک طرف لیبرپارٹی کے سوشلسٹ رہنما جیرمی کوربن کو عبرت ناک شکست دے سکے جو برطانیہ کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرکے ملک میں عوام فلاحی ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنی ہی پارٹی میں یورپین یونین مخالف سخت مزاج گروپ کو محدود کرکے برطانوی وزیراعظم کو دونوں کوششوں میں منہ کی کھانا پڑی۔ لیبر پارٹی کے منشور "For the many, not the few"کا مطلب ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ طبقاتی بنیادوں پر ایک واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ اس منشور نے لاکھوں کی تعداد میں برطانوی شہریوں بالخصوص نوجوان نسل کو نہ صرف لیبرپارٹی کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا بلکہ لیبرپارٹی کی ممبرشپ اس حدتک بڑھی کہ وہ ممبران کے لحاظ سے یورپ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ جیرمی کوربن اور لیبرپارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ٹریسامے کی نہ صرف مقبولیت کو ملیامیٹ کردیا بلکہ پارلیمنٹ (ہائوس آف کامنز) میں اس کی اکثریت بھی ختم کردی اور اس کو حکومت بنانے کے لئے آئرلینڈ کی علاقائی جماعتDUPکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس ابھرتی ہوئی نئی صورت حال نے لیبرپارٹی کیلئے نئے مواقع پیدا کئے کہ وہ پارلیمنٹ میں حکومت کو چیلنج کرسکے اور باہر ٹریڈ یونین تحریک اور دیگر ترقی پسند اس کی قوت بن سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ صورت حال بہت سے خطرات بھی لائی جن میں پہلا خطرہ بریگزٹ ہے کیونکہ وزیراعظم ٹریسامے نے ریفرنڈم کے نتائج اور اپنی پارٹی کے زیادہ تر ممبران کے موقف کے پیش نظر برطانیہ کی یورپین سنگل مارکیٹ سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ اس لئے اس نے ایک ایسی ڈیل کرنے کی کوشش کی جوسرمایہ دارانہ طبقات کے مفادات کا تحفظ کرسکے اور عالمی سامراج کے نیو لیبرل ایجنڈے کے مطابق ہو اس کا مطلب ہے کہ ٹوری حکومت میں ہونے والی ڈیل کے مطابق محنت کش عوام، ملازمت پیشہ طبقات اور چھوٹے کاروباری لوگوں کو محدود تحفظ حاصل ہوگا۔ انہی مسائل کے پیش نظر جیرمی کوربن کے یورپین رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کرکے ایک نئی ترمیم شدہ کسٹمز یونین کے خدوخال پر بات چیت کی ہے اورٹوری حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کررہے ہیں تاکہ برطانیہ یورپین یونین کے ساتھ ٹیکس اور کسٹمز فری تجارت جاری رکھ سکے۔ اس کی اس تجویز کو شاید اتنی پذیرائی نہ مل سکے لیکن اگر ایسا ہوگیا تو اس سے تمام لیبرتحریک متحد ہوجائے گی اور حکومت کو پرائیویٹائزیشن سے باز رکھنے کے لئے دبائو اور بھی بڑھ جائے گا، اس کا دوسرا بڑا خطرہ لیبرپارٹی کے اندر ٹونی بلیئر نواز دائیں بازو کے عناصر کی کھلی مخالفت یا پھر بغاوت ہوسکتی ہے۔ اس کی ایک جھلک ہم چند ہفتے قبل دیکھ چکے ہیں جو چند ممبران پارلیمنٹ نے لیبرپارٹی چھوڑ کر جیرمی کوربن پر پریشر بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ لیبرپارٹی کے اندر اینٹی سمیٹزم کے الزامات کو جان بوجھ کر اچھالا گیا اور پارٹی کی شہرت کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا ایسی سنسنی خیز خبروں کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے جو برطانیہ کے پانچ کھرب پتی خاندانوں کی ملکیت ہے، جبکہ لیبرپارٹی کی قیادت پر کھلے حملوں کو درگزر کردیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ریسزم کی طرح اینٹی سمیٹزم بھی غلط ہے اور اسے بے نقاب کرنا چاہئے کیونکہ ایسے رجحانات ایک سیکولر اور جمہوری سماج کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتے ہیں لیبرپارٹی کے اندر ان جھوٹے الزامات کی بجائے پارٹی کے اندر دائیں بازو کے عناصر BBC اور دیگر کارپوریٹ میڈیا کی مددسے چلاتے ہیں جس میڈیا کے شیئرز کا بڑا حصہ اسرائیل خرید چکا ہے۔ اس کمپین سے بلاشبہ لوکل الیکشن پر بھی اثرانداز ہو گیا تھا اور جیرمی کوربن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور الیکشن کے امکانات کو موخر کروانے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ لیبرپارٹی جیرمی کوربن کی سربراہی میں یقیناً ترقی پسند نظریات کی طرف بڑھی ہے اگر جیرمی کوربن اور اس کی سربراہی میں لیبرحکومت بن جائے تو یہ اس لحاظ سے ایک تاریخی عمل ہوگا کہ وہ ایسی عوام دوست پالیسیوں کو پروان چڑھا سکے گا جس کے تحت ٹریڈیونین سرگرمیوں پر پابندیاں ختم ہوں گی اور ٹوری حکومت کی جانب سے کٹوتیوں، اسٹارٹی اور پرئیویٹائزیشن کے ایجنڈے کو روکا جاسکے گا۔ اس کیلئے طبقاتی تفریق اور حقیقتوں کو سمجھنا ہوگا اور اس کا تدراک کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں امیر اور غریب کے درمیان بڑی خلیج کو ختم کرنا ہوگا۔ ریاستی مشینری کا تسلط کم کرنا ہوگا، معیشت کی بنیادوں کو تبدیل کرنا ہوگا، ثقافتی اور کارپوریٹ میڈیا پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری کو توڑنا ہوگا، برطانیہ کو نیوکلیئر اسلحہ اور NATO سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا ورنہ برطانیہ میں سوشلسٹ انقلاب کے امکانات محدود رہیں گے اور اگر ایسا انقلاب برپا ہو بھی گیا تو اسے آسانی سے ناکام بنایا جاسکے گا۔ آئو آج ہم عہد کریں کہ برطانیہ میں رہتے ہوئے ہر قسم کے نسلی اور مذہبی تفریق کے خلاف اپنا شعوری اور عملی کردار ادا کریں اور برطانوی معاشرے کو ریسزم اور فاشزم سے پاک ایک پرامن جمہوری ریاست کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ایک پرامن، جمہوری اور انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ممکن ہوسکے۔ آئو آج ہم عہد کریں کہ پاکستان اور قائداعظم کا وہ حقیقی پاکستان بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے جو ایک حقیقی فلاحی ریاست ہو، جو مذہب، جنس، علاقہ اور رنگ کی بنیاد پر اپنے ملک کے عوام کو تفریق کرنے کی بجائے امن، محبت، بھائی چارے کی علمبردار ہو جس میں ملک صرف 1فیصد اشرفیہ اور بیوروکریسی کا نہ ہو بلکہ 99 فیصد محنت کش کام کرنے والے مزدوروں، کسانوں، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز اور پسے ہوئے طبقات کے معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کا تحفظ ہو۔ ایسا ملک کے معاشی ڈھانچے کو توڑ کر تشکیل نو کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آئو عہد کریں اور اس پر ثابت قدمی سے کاربند رہیں، یوم مئی کے شہیدوں کو سلام ۔ انقلاب زندہ باد۔