• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”شیخ الاسلام“ ڈاکٹر ”علامہ “طاہر القادری کا ماضی سب کے سامنے تھا لیکن پھر بھی سب نے ان کو سنجیدہ لیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ سیاسی اور صحافتی حلقوں کو یقین تھا کہ ایک قسم کی اے (A)یا پھر دوسری قسم کی اے (A)یا پھر دو نوں ایز ان کے پیچھے ہیں۔ ان کے مریدین کو یقین تھا اور شاید اب بھی ہے کہ اللہ والا اے ان کے پیچھے ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی اچانک حرکت نے سیاسی حلقوں کو بھی ہلاکے رکھ دیا‘ سول سوسائٹی کو بھی بے چین کردیا اور صحافتی دنیا میں بھی طوفان برپا کردیا۔ ہم ڈرامہ سمجھتے رہے لیکن جب ہزاروں بچے اور خواتین ان پر فدا ہونے کی قسم کھا کر بلیو ایریا اسلام آباد میں جمع ہوگئے تو معاملہ ایک انسانی المیہ بننے لگا۔ حکومتی صف میں موجود ڈاکٹرطاہرالقادری (رحمان ملک) اور مذہبی طبقے کے رحمان ملک(ڈاکٹر طاہرالقادری)نے اپنی اپنی حرکتوں سے جو فضابنالی تھی ‘ اس کے تناظر میں خطرہ پیدا ہوچلا تھا کہ خاکم بدہن لال مسجد جیسا کوئی نیا سانحہ رونما ہونے کو ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ آخری وقت حکومت نے بھی دانشمندی سے کام لیا جبکہ ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنی ماضی کی روایت زندہ کردی اور معاملہ بخیریت اختتام کو پہنچا لیکن سوال یہ ہے کہ اس پورے مشق سے کس کو کیا ملا؟ ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ فائدہ آصف علی زرداری اور ان کی سرکردگی میں قائم سیٹ اپ کو ہوگیا۔ ماضی میں تھا یا نہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کے اس مشق کے نتیجے میں اب واقعتاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان مک مکا ہوگیا۔ طویل وقفے کے بعد زرداری صاحب اور میاں صاحب کی براہ راست گفتگو ہوئی ۔ شاید نگراں وزیراعظم کے لئے دونوں جماعتوں کے مابین خوب کشمکش دیکھنے کو ملتی لیکن ڈاکٹر صاحب کے اس دھرنے کی وجہ سے وہ یوں یک جان دو قالب بن گئے کہ میاں صاحب رضا ربانی صاحب کو نگران وزیراعظم بنانے کے لئے اصرار کرتے رہے اور زرداری صاحب بڑے بھائی کو پیش کش کرتے رہے کہ وہ اپنے اسحاق ڈار صاحب کو نگراں وزیراعظم بنا دیں۔ دوسرا فائدہ حکومت کو یہ ہوا کہ اب باقی ماندہ دو ماہ کے دوران اس کے خلاف کوئی نیا حملہ مشکل ہوگیا اور تحریک انصاف کے لئے بھی نگران سیٹ اپ کے حوالے سے اپنی بات منوانے کے لئے تحریک برپا کرنا مشکل ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب نے رینٹل پاور کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو جس طرح ا پنے حق میں کیش کرایا‘ اس کی وجہ سے سپریم کورٹ کی حیثیت پر بھی حرف آیا اور یقیناً یہ بھی زرداری صاحب کے فائدے میں جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر فائدہ میاں نوازشریف کو ہوا ۔ اس دھرنے کی برکت سے وہ حرکت میں آئے اور گزشتہ تین سالوں میں پہلی مرتبہ وہ ایک قومی لیڈر کے طور پر یوں سامنے آئے کہ ان کے ایک طرف مولانا فضل الرحمان اور دوسری طرف سید منور حسن کھڑے ہوگئے ۔ جاتی امرہ میں ٹی وی کیمروں کے سامنے ان کے بائیں جانب بلوچ طلال بگٹی مسکرارہے تھے اور دائیں جانب پختون قوم پرست محمود خان اچکزئی نے اپنی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ جو جماعت جتنی زیادہ ڈاکٹر صاحب کے قریب گئی اس نے اتنا زیادہ نقصان اٹھایا۔ تحریک انصاف جتنی قریب گئی ‘ اتنا اپنی ساکھ کومتاثر کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تحریک انصاف ہی کے مطالبات ہائی جیک کرلئے تھے لیکن آخری وقت میں انہوں نے حکومت کے ساتھ مک مکا کرلیا۔ یوں اب تحریک انصاف اگر ان مطالبات کے لئے تحریک اٹھانے کی کوشش کرے گی تو لوگ اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیں گے ۔ تاہم ڈاکٹر صاحب کی درخواستوں کے باوجود دھرنے میں شرکت نہ کرکے تحریک انصاف کی قیادت نے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا اور اس فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ الحمد للہ تحریک انصاف سیاسی جماعت بن گئی ہے ۔ ایم کیو ایم چونکہ زیادہ قریب گئی اس لئے سب سے زیادہ نقصان اس کے حصے میں آیا۔ اس کی قیادت جو کہ یوٹرنز (U turns)کے لئے مشہور ہے ‘ کے یوٹرنز میں سے ایک اور یوٹرن کا اضافہ ہوا لیکن اس سے بھی بڑا نقصان ایم کیوایم کو یہ ہوا کہ اس کے قائد کی لمبی تقریروں کا ریکارڈ بھی ڈاکٹر صاحب نے توڑ ڈالا۔ خود ڈاکٹر صاحب نے اس مشق کے نتیجے میں بہت کچھ پایا بھی اور کھویا بھی ۔ سب سے بڑا فائدہ ان کو یہ ہوا کہ ان کی شوق شہرت اور شوق تقریر پوری طرح پوری ہوئی۔ ڈی چوک کو وہ تحریر اسکوائر تو نہیں بناسکے لیکن چار دن تک اسے انہوں نے تقریر چوک بنائے رکھا۔ چار چار گھنٹے ان کی تقریر سے ٹی وی چینلز کے ذریعے دنیا بھر کے سامعین ”مستفید“ہوتے رہے۔ یہی ان کی زندگی کا مشن اور مقصود دکھائی دیتا ہے اور ماشاء اللہ اس حوالے سے وہ خوب کامیاب رہے ۔ دوسرا فائدہ ان کو یہ ہوا کہ انہوں نے ثابت کردیا کہ اس عمر میں بھی وہ ماضی کی طرح اچھے بھلے پرفارمر ہیں اور یہ کہ مستقبل میں بھی ان کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ ایک اور فائدہ ان کو یہ حاصل ہوا کہ اس مشق کے دوران انہوں نے اپنے دو صاحبزادوں کو بھی لانچ کردیا اور دنیا پر واضح کردیا کہ وضع قطع سے لے کر کردار تک ‘ ہر حوالے سے وہ بھی اپنے باپ جیسے ہی ہیں اور مستقبل میں خواہشمند حلقے ان کی خدمات سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ایک اور فائدہ ان کو یہ ہوا کہ ان کے نامہ اعمال میں بلیوایریا کے تاجروں اور اسلام آباد کے شہریوں کی بے پناہ”دعائیں“ بھی شامل ہوگئیں ۔ ان کے ہزاروں چاہنے والے مریدین ان کی کرامات کے مزید قائل ہوگئے۔ جن ہزاروں افراد جن میں بڑی تعداد بچوں‘ بچیوں اور خواتین کی تھی ‘ نے ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس دھرنے میں قربانی دی ‘ یقیناً وہ سب قیامت کے روز اللہ کی دربار میں درخواست کریں گے کہ اس عظیم ہستی نے اپنے آپ کو شدید سردی میں اپنے اور اپنے بیٹے کے سینوں کو گولی کھانے کے لئے پیش کئے رکھا اور ہماری حفاظت اور سہولت کے لئے ہر طرح کے انتظامات کررکھے تھے ‘ اس لئے ان کو اس کام کا ”اجرعظیم“ عنایت کردے اور یقینا اللہ اس طرح کے مخلص مظلوموں کی فریاد کو رد نہیں کرتا۔ ڈاکٹر صاحب کی اس مشق کا نقصان ہوا تو دین کے دیگر نام لیواؤں اور مذہبی رہنماؤں کو ہوا ۔ کیونکہ لوگوں کی نظروں میں عالم‘ پگڑی ‘ جبہ اور دستار کی عزت مزید کم ہوگئی۔ لوگوں نے دیکھ لیا کہ کس سرعت کے ساتھ اس طبقے کے بعض لوگ مسلمانوں کو یزید کی صف میں کھڑا کرسکتے اور پھر بوقت ضرورت یزید کے ساتھیوں کو حسین کے نام لیواؤں کے ساتھ بغلگیر کراسکتے ہیں۔ میرے نزدیک دینی طبقات کی یہ بدنامی بھی ڈاکٹر صاحب کی بڑی کامیابی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس پورے مشق کا حتمی نتیجہ اگرچہ جمہوریت اورسسٹم کے حق میں نکلا لیکن اس نے اس نظام کے کھوکھلے پن اور ملک پر قابض سیاسی قیادت کی کمزوریوں کو بھی نمایاں کردیا۔ چونکہ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں ڈیلیور نہیں کرسکی ہیں اورا نہیں اندازہ ہے کہ عوام ان سے کتنے نالاں ہیں ‘ اس لئے کوئی بھی پرفامر سامنے آجائے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ ہماری سیاسی قیادت اگر اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی حامل ہوتی تو اچانک نمودار ہونے والی اسی طرح کی پراسرار شخصیات اور ان کے چند ہزار مریدوں سے وہ اس قدر پریشان نہ ہوتی۔ اسی طرح اس دھرنے سے ہماری ریاستی ڈھانچے کی کمزوری بھی یوں واضح ہوتی ہے کہ ایک پراسرار شخص آکر کسی بھی وقت پورے ملک کو پریشان ‘ اس کے میڈیا کو ہیجان زدہ اور اس کے دارالحکومت کو یرغمال بناسکتا ہے۔ ایسے عالم میں جب کہ خود وہ اور ان کے بچے بلٹ پروف فائیو اسٹار کنٹینر سے احکامات صادر کررہے تھے‘ ڈاکٹر صاحب کی پکار پر ہزاروں مریدین کی لبیک کہنے‘ ان کے حکم پر شدید سردی اور تکالیف برداشت کرنے اور ان کے حکم پر مرنے مارنے کے لئے تیار ہوجانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اکیسیویں صدی میں بھی ہماری سوسائٹی کس حد تک ذہنی جمود اور تقلیدی ذہنیت کی شکار ہے ۔ یہ ہم سب بالخصوص علمائے کرام ‘ اساتذہ ‘ دانشوروں اور اہل صحافت کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ کیایہ صورت حال تقاضا نہیں کرتی کہ کھوکھلے نعرے لگانے اور عوام کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے یہ طبقات اب عوام کے مذہبی اور سیاسی شعور کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔
ایک وضاحت : میرے گذشتہ کالم ”مظلومیت کی طاقت“ کے بارے میں جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما نے وضاحت کی ہے کہ سانحہ عملدار روڈ کوئٹہ کے متاثرین کے احتجاجی دھرنے میں نہ صرف صوبائی قیادت نے حاضری دی تھی بلکہ مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے ان سے ٹیلی فونک خطاب بھی کیا تھا۔ جماعت اسلامی کی قیادت کا یہ اقدام چونکہ اسلام آباد کے اخبارات میں میری نظر سے نہیں گزرا تھا ‘ اس لئے میں نے تحریک انصاف کی طرح اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس کوتاہی پر میں معذرت خواہ ہوں۔
تازہ ترین