• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے جدید دور میں اگر کسی ملک کو تباہی سے دوچار کرنا یا اُس کے وسائل پر قابض ہونا مقصود ہو تو یہ عمل میزائل اور ٹینکوں پر چڑھ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ہدف اُس ملک کی معیشت کو تباہ کرنے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، بھارت اور دیگر مغربی ممالک کی روزِ اول سے یہ خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو جوہری صلاحیت سے محروم کر کے اُسے ڈی نیوکلیئرائز کیا جائے مگر خوش قسمتی سے ماضی میں اِس سلسلے میں کئے گئے مغربی طاقتوں کے گھنائونے منصوبے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے تاہم اب یہ دشمن طاقتیں اپنے اہداف اکنامک ہٹ مین (معاشی قاتل) کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو تباہی سے دوچار کر کے حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

گزشتہ دنوں مجھے دنیا کے مشہور ہٹ مین جان پرکنز کی سوانح عمری Confessions of an Economic Hitman پڑھنے کو ملی۔ جان پرکنز نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ممالک کو قرضے دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور اُن کی معیشتوں کو گروی رکھ لیتے ہیں۔ اِس مقصد کیلئے یہ مالیاتی ادارے ہٹ مین کے ذریعے پسماندہ ممالک کی لیڈرشپ کو قائل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر عالمی مالیاتی اداروں سے بڑی رقوم قرض لیں۔ جان پرکنز کے بقول عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے معاشی قاتلوں کا موثر آلہ ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال پسماندہ ممالک کیلئے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بڑے قرضوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اِن قرضوں کا ایک بڑا حصہ مغربی مشاورتی کمپنیوں کی کنسلٹنسی فیس کی مد میں ادا کردیا جاتا ہے اور پھر پاور ہائوس، انفرااسٹرکچر اور انڈسٹریل پارک جیسے ترقیاتی منصوبے بھی مغربی کمپنیوں کو دے دیئے جاتے ہیں جبکہ اِن قرضوں سے ہونے والی کرپشن بھی لوٹ کر واپس مغربی ممالک پہنچ جاتی ہے۔ اِس طرح یہ پسماندہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں جنہیں وہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بالآخر اِن ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کی ہر شرائط ماننا پڑتی ہیں، پھر یہ ادارے اُن ممالک کے حکمرانوں کو نادہندگی سے بچنے کیلئے قرضے ری اسٹرکچر کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اِس طرح قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید نئے قرضے دے کر عالمی مالیاتی اداروں کو اُن ممالک کی معیشت گروی بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اُن ممالک کے قدرتی وسائل، تیل، گیس اور معدنی وسائل پر مغربی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کر لیتی ہیں جبکہ اُن ممالک کو مغربی ممالک اپنے فوجی اڈوں کے قیام اور اُن کے راستے دفاعی اشیاء کی آمد و رفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔

جان پرکنز کی کتاب پڑھ کر جب میں نے اُس کا موازنہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال سے کیا تو مجھے دونوں میں بڑی مماثلت نظر آئی۔ آج کل پاکستان کے گرد بھی آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے معاشی قاتل گھیرا تنگ کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بنارہے ہیں۔ اِن مالیاتی اداروں کی یہ منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کے قرضے جب 100ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں اور پاکستان کی معیشت میں اتنی سکت نہ رہے کہ وہ یہ قرضے یا اُن کا سود ادا کر سکے اور اگر پاکستان ڈیفالٹ ہوتا ہے تو امریکہ، آئی ایم ایف کے ذریعے ایسے بیل آئوٹ پیکیج کی پیشکش کرے گا جس کے بدلے میں پاکستان کو اپنے نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

نواز شریف دورِ حکومت میں پاکستان کی معیشت ترقی کی جانب گامزن تھی اور ہم نے 13سال میں سب سے زیادہ جی ڈی پی 5.8حاصل کرلی تھی جبکہ بلومبرگ جیسے معاشی ریٹنگ کے ادارے پاکستان کی معاشی صورتحال کی اچھی پیش گوئی کررہے تھے مگر شاید پاکستان کی ترقی مغربی طاقتوں کے مفاد میں نہیں تھی اور پھر (ن)لیگ حکومت کا خاتمہ کر کے وہ معیشت جو ترقی کی جانب گامزن تھی، گراوٹ کا شکار ہوتی چلی گئی۔ پی ٹی آئی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان آئی ایم ایف سے 15ارب ڈالر کے قرضے لینے کے بہت قریب پہنچ چکا تھا اور امکان تھا کہ امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے اپنے گھنائونے منصوبوں میں کامیاب ہو جاتا مگر دوست ممالک سعودی عرب، یو اے ای اور چین کی بروقت 9ارب ڈالر کی امداد سے ہم امریکہ اور آئی ایم ایف کے بچھائے ہوئے جال سے وقتی طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تاہم آج ایک بار پھر آئی ایم ایف پاکستان کو قرضوں کے چنگل میں جکڑنے میں کوشاں نظر آرہا ہے۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران وزیرِ خزانہ اور معاشی ٹیم کو تبدیل کرنا اور آئی ایم ایف سے منسلک افراد کو لانا شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی ایم ایف کو امریکی اور ان مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے، جن کی آنکھوں میں پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اور سی پیک منصوبہ شروع دن سے کھٹک رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی اکنامک مینجمنٹ کو آئوٹ سورس کرنا اور آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجائے اور ہمیں اپنے نیوکلیئر اثاثوں پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین