• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آبرومندانہ معاہدے طے پا گیا۔ سخت سردی، بارش اور دہشت گردی کے خطرے کے مدمقابل ڈٹے بچوں، بوڑھوں، عورتوں، نوجوانوں نے سنگدل حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ورنہ رحمن ملک تو لال مسجد کی تاریخ دہرانے پر مصر تھے۔ خدا واسطے کا بیر رکھنے والے سیاسی مخالفین اور قلمی ناقدین کے اس جھوٹ کی قلعی بھی کھل گئی کہ ڈاکٹر طاہر القادری نادیدہ قوتوں کے آلہ کاراور الیکشن ملتوی کرانے کے خواہشمند ہیں۔ زندگی بھر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے اوراس کی چاکری کرنے والے اس کے سوا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اب کھسیانی بلی کی طرح کنٹینر نوچنے میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کوسیاسی و مذہبی قوتوں کی مخالفت مگر موجودہ جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، اجارہ دارانہ، شقی القلب جمہوریت سے تنگ آئے عوام کی خوشدلانہ تا ئید و حمایت حاصل تھی تبھی تو گھر گھر میں دھرنے کے شرکا کی سلامتی اور ڈاکٹرقادری کی کامیابی کی دعائیں کی جارہی تھیں۔ جرائم پیشہ اشرافیہ کے خلاف طاہر القادری کا پیغام پوری قوم نے سنا اور اس بات پر داد دی کہ یہ مرد ِمیدان نہ دہشت گردی سے ڈرا نہ حکمرانوں کے غیض و غضب سے، نہ میڈیا کی منفی مہم سے متاثر ہوا اور نہ اس نے کسی مرحلے پر اپنے ایثار پیشہ، پرجوش اور پرعزم ساتھیوں کو قانون شکنی اور بدامنی پر مائل کیا۔ جذبوں نے طاقت اور وسائل کو شکست دی اور طاہر القادری کو اہم سٹیک ہولڈر تسلیم کرلیا گیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی میڈیا مینجمنٹ نے ماہرین کو حیران کردیااور سرکاری وسائل کے علاوہ لفافہ جرنلزم منہ چھپانے پر مجبور ہوئی۔ معاہدے کے بعد پاکستان عوامی تحریک کو انتخابی عمل میں شریک ہونے کا اخلاقی جواز ملا اور دھرنے کی وجہ سے اپوزیشن نے کرپشن، نااہلی، غیرذمہ داری اوربے ضابطگی کی کیچڑ میں لت پت حکومت کو اپنا کندھا پیش کیا تاکہ وہ مضبوط پوزیشن کے ساتھ طاہر القادری سے مذاکرات کرسکے۔ ملی بھگت اور مک مکا معلوم نہیں اس کے سوا کس چڑا کا نام ہے۔ بدھ کے روز مذہبی و غیر مذہبی اپوزیشن نے اپنا وزن ظلم، زیادتی، ناانصافی، جبر و استحصال، لاقانونیت، بدامنی اور دھن دھونس دھاندلی کے پلڑے میں ڈال کر اپنے آپ کو ایکسپوز کیا۔ طاہر القادری کی مخالفت میں کسی کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ دس نکاتی اعلامیہ میں ایک پیرا آئین کے آرٹیکل 63,62,218پر عملدآمد کے سلسلے میں ڈال دیتے گویا یہ سب کے سب جعلی ڈگری ہولڈرز، ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، جرائم پیشہ افراد پر مشتمل پارلیمینٹ کے حق میں نہیں اور انہیں موجودہ انتخابی نظام میں اصلاح سے اختلاف ہے کم از کم سید منور حسن، علامہ ساجد میر اور قاری زوار بہادر کو اس پر زور دینا چاہئے تھا۔ حضرت مولانا فضل الرحمن تو صادق و امین کی شرط کو ضیاء الحق کا تحفہ سمجھتے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف نے لانگ مارچ اور دھرنا کے مقاصد سے اتفاق کے باوجود شریک نہ ہو کر نوجوان کارکنوں اور ووٹروں کو مایوس کیا۔ پی ٹی آئی میں فیصلہ سازی کا عمل خراب اور سست ہونے کا تاثر ابھرا اور بالواسطہ طور پر سٹیٹس کو کے حامی لیڈروں کی مانی گئی۔ تنہا پرواز کے اسی شوق نے ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی راہ کھوٹی کی اور اب بعض لوگ عمران خان کو اسی راستے پر چلانے کے خواہشمند ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ اگر خدانخواستہ نوجوان نسل کو پرامن تبدیلی کی راہیں مسدود نظر آئیں تو وہ انتہا پسندی کی راہ پر چل کر کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کا فون نہ سن کر جو غلطی کی اب اس کا ازالہ رابطے میں پہل کے ذریعے کرنا چاہئے یہی تحریک انصاف کی ضرورت اور نوجوانوں کی آرزو ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے جس کنٹینر کا شب و روز چرچا رہا وہ میرے خیال میں صرف ایک دھرنے کے لئے تیار نہیں کرایا گیا، معاہدے پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں یہ دوبارہ استعمال ہوسکتا ہے اور پاکستان عوامی تحریک کی انتخابی مہم میں بھی کارآمد ہوگا۔ تبدیلی کی خواہش مند جو جماعت ڈاکٹر طاہر القادری سے اتحاد کرے گی وہ فائدے میں رہے گی کہ فصاحت و بلاغت سے لیس شیخ الاسلام کی قیادت میں چلنے والی انتخابی مہم زیادہ پرکشش، نتیجہ خیز اور کامیاب ہوسکتی ہے۔ پچیس روز تک ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر طاہر القادری نے رابطہ عوام کی حیرت انگیز مہم چلائی اور مخالفین کو ششدر کر دیا۔
بغض، حسد، تعصب اور شک انسان کو سوچنے سمجھنے اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیتا ہے مگر دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ طاہر القادری کو ماضی کے بجائے حال کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جائے ”یزیدوں سے مذاکرات“، ”لٹیروں سے معاہدہ“ ، ”حکومتی اتحاد کا حصہ“ اور ”چار نکاتی معاہدے میں ابہام“کی باتیں شکست خوردگی کی علامت ہیں۔ خدا توفیق دے تو ٹھنڈے دل سے طاہر القادری کے طریقہ کار، میڈیا مینجمنٹ اور پرامن احتجاج سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی تکنیک پر غور کرنا چاہئے۔
مجھے ذاتی طور پر ننکانہ صاحب، قصور اور لاہور کے نواحی علاقوں سے بسوں پر بھرکر لائے گئے ان ایڈہاک سرکاری ملازمین بالخصوص ٹیچرز سے ہمدردی ہے جنہیں ریگولر کرنے اور پروموشن کے پروانے کے علاوہ چیف منسٹر کے ہاتھوں لیپ ٹاپ ملنے کا جھانسہ دیا گیا مگر پنجاب اسمبلی کے سامنے انہیں بور تقریروں پرٹرخا دیاگیا۔ سول سوسائٹی کے کارکن ظاہر کیا گیا تو انہیں معاوضہ ہی مل جاتا۔ اس مظاہرے سے جمہوریت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کاموقع ملا تو اس خوشی میں حکومت ان بیچاروں کو مستقل ہی کردے۔ یہ پریشان حال ٹیچر میاں شہباز شریف کو دعائیں دیں گے۔ کسی کویقین تو آئے کہ جس نظام کے حق میں نعرہ لگوانے کے لئے ہمیں سارا دن بھوکا پیاسا رکھا گیا وہ عام آدمی کے لئے مفید بھی ہے۔
تازہ ترین