• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلیل احمد

ایک وقت تھا کہ پاکستان کے شہری کراچی کی سڑکوں پر ٹراموں کو اِدھر اُدھر دوڑتے دیکھتےتھے، اُس زمانے میں کراچی کا سب سے پسندیدہ ذریعۂ سفر ٹرام کو سمجھا جاتا تھا۔کراچی میں چلنے والی ٹرام اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ گزشتہ صدی 70ءکی دہائی میں یا اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل نے کراچی کی سڑکوں پر ٹراموں کو تصویر یا ویڈیو فلموں میں ہی چلتے دیکھا ہوگا۔ یہ بسوں کے مقابلے میں ایک آرام دہ سواری تھی۔کراچی میں ٹرامیں اس وقت چلتی تھیں، جب سواری کے لئے عام طور پر سائیکل رکشا، اور گھوڑے گاڑی کا استعمال کیا جاتا تھا۔

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو مشینی دور میں داخل کرنے کا سہرا انگریزوں کے سر جاتا ہے۔ 1880ء تک شہر میں آمد و رفت کا کوئی خاطر خواہ نظام نہ تھا۔ انگریزوں کے تسلط کے بعد کراچی کے شہریوں کی آمدورفت کو جدید سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے یورپ کے شہروں کی طرز پرکراچی میں بھی ٹرامیں چلانے کا منصوبہ بنایا گیا۔1881ء میں کراچی میونسپلٹی کے سیکریٹری اور انجینئر جیمز اسٹریچن نے اس کا خیال پیش کیا تھا۔پروجیکٹ پر کام شروع ہوا اور 1881ءمیں پروجیکٹ کے لئے ٹینڈر طلب کئے گئے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے ایڈورڈ میتھئیوز نے ٹرام سازی کا ٹینڈر پیش کیا۔8 فروری1883ءکو اس پروجیکٹ کی تکمیل کے ساتھ ہی کراچی میں ٹرامیں چلانے کے لیے حکومتِ بمبئی کی منظوری حاصل کی گئی اور 1884ء میں شہر میں ٹرام کی پٹری بچھانے کے کام کی ابتدا ہوئی،20 اپریل 1885ء میں کمشنر سندھ ہنری نیپئر بی ایرکسن نے کراچی میں پہلی ٹرام کا وکٹوریہ روڈ موجودہ عبداللہ ہارون روڈکے سامنے سینٹ اینڈریو چرچ کے قریب اس کاباقاعدہ افتتاح کیا ۔ اکتوبر 1884ءمیں اسٹیم پاور سے ٹرام بنانے کا کام شروع ہوااور پھر کراچی کی سڑکوں پر ٹرام چلنے لگی۔اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار25کلو میٹر فی گھنٹہ تھی، یہ عام طور پر 12سے 15میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا کرتی تھی، لکڑی سے بنی ہوئی نشستیں بیک ٹو بیک نصب کی گئی تھیں اور ایک نشست پر 6 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو تی تھی لیکن اسٹیم ٹرام میں سب بڑی فنی خامی یہ تھی کہ ہر پندرہ منٹ کے بعد اس میں اسٹیم کے انتظامات کرنا پڑتے تھے ،جس سے مسافروں اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔ اس مسئلے کے باعث اسٹیم ٹرام جلد ہی ناکام ہوگئی۔کراچی کے شہریوں نے سکون کا سانس لیا تھا۔ کیوں کہ کراچی کے تجارتی اور آبادی والے علاقے سے ہر آدھے گھنٹے کے بعد ایک ٹرام گزرتی تھی، اس کے شور کی وجہ سے کراچی کے باسی بہت پریشانی کا شکار تھے۔ اس کے بعد گھوڑوں سے چلنے والی ٹرام متعارف کرائی گئی، ہر ٹرام میں دو گھوڑوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔اُس زمانے میں گھوڑوں کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لیے ان کے سروں پر خاص قسم کے ہیٹ پہنائے جاتے تھے۔ جو ہر دو میل کے فاصلے کے بعد گھوڑے تبدیل کردیے جاتے تھے۔ ہر چوراہے پر گھوڑوں کے پینے کے لیے پانی کے بڑے بڑے حوض بنائے گئے تھے، جس میں صاف و شفاف پانی ہمہ وقت بھرا رہتا تھا۔ ان کی سج دھج کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ لوگ شوق سے اس کی سواری کیا کرتے تھے۔ یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی لمیٹڈ نے چلائی تھیں، آج کے رمپا پلازہ کے قریب ٹراموے کا ہیڈ کوارٹر واقع تھا، جو ایک کمپائونڈ کی شکل میں تھا۔ اسی کمپائونڈ میں ٹراموے کمپنی کے ملازمین کے کوارٹر اور گھوڑوں کے اصطبل ہوا کرتے تھے۔اُس زمانے میں کراچی میں اس کے علاوہ آمد و رفت کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ ذاتی ٹرانسپورٹ صرف چند انگریز افسران کے پاس ہی ہوا کرتی تھیں۔ گھوڑوں سے چلنے والی ٹرامیں کئی سال تک چلتی رہیں۔گھوڑوں سے چلنے والی ٹراموں میں سفر نسبتاً زیادہ وقت لیتا تھا۔ اگرچہ ہر دو میل کے بعد گھوڑے بھی تبدیل کردیے جاتے تھے، لیکن جانور تو پھر جانور ہے،لہٰذا 1902ء میں پیٹرول کے ذریعے چلنے والی ٹرامیں چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کے انجن تیز رفتار تھے۔ ان کے لیے ازسرنو پٹریاں بچھائی گئیں۔ ٹرام کی پٹریاں ریل کی پٹریوں سے مختلف تھیں۔ یہ سڑک کی سطح کے برابر ہوتی تھیں۔ 1910ءمیں پٹرول سے چلنے والی ٹرام باقاعدہ متعارف کرائی گئی، ایک گیلن پٹرول میں 8 میل یا 12کلومیٹر چلتی تھی۔ اس زمانے میں ایک روپے میں چار گیلن پٹرول فروخت کیا جاتا تھا۔ اس ٹرام کو جان ایبٹ نامی انجینیئر نے ڈیزائن کیا تھا۔اس کے بعد 1945ءمیں شہر میں ڈیزل سے چلنے والی ٹرامیں متعارف کرائی گئیں جو آخر وقت تک چلتی رہیں۔ یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی کے تحت چلا کرتی تھیں۔ اس کمپنی کے چیف انجینیئر کا نام جان برنٹن تھا، اسی کی زیر نگرانی کراچی اور کوٹری کے درمیان ریلوے لائن بچھائی گئی تھی۔کراچی میں تین عشروں سے زائد عرصے تک ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی کے تحت کراچی کی سڑکوں پر ٹرامیں چلتی رہیں۔کراچی میں ٹرام کی تاریخ 90 سال یعنی 1885ء تا 1975ء پر محیط ہے۔ ٹرامیں دو طرح کی چلا کرتی تھیں، ایک منزلہ اور دو منزلہ، ۔یہ ٹرامیں عوام میں بہت مقبول ہوئیں۔ جو لوگ ملک کے دوسرے شہروں سے اُس زمانے میں کراچی آتے تھے، اُن کی دو فرمائشیں ہوتی تھیں، پہلی سمندر دیکھنے کی اور دوسری ٹرام میں سفر کرنے کی۔ اُس وقت دو پیسے کے ٹکٹ میں شہر کے بعض اہم حصّوں کی سیر کی جاسکتی تھی۔

ابتدا میں دو پیٹرول انجن استعمال کیے گئے۔ 1913ء تک کراچی میں چلنے والی ٹراموں کی کل تعداد 37 تک پہنچ گئی تھی۔ آج کے بس ڈرائیور سیٹ پر بیٹھ کر بس چلاتے ہیں، لیکن ٹرام کا ڈرائیور کھڑے ہوکر اسے کنٹرول کرتا تھا۔ اس میں اسٹیئرنگ کے بجائے گھومنے والا لیور استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے دائیں جانب گھمانے سے رفتار تیز اور بائیں جانب گھمانے پر رفتار کم ہوجاتی تھی، ہارن کی جگہ پیتل کی گھنٹی لگی ہوتی تھی، جس کا پنڈولم ایک ڈوری کے ذریعے کنٹرول ہوتا تھا۔ وہ ڈوری ڈرائیور کے ہاتھ میں ہوتی تھی، گھنٹی کی ٹن ٹن سے ٹرام اپنی آمد سے لوگوں کو خبردار کرتی تھی۔

ٹرام کے دونوں جانب آٹھ، آٹھ دروازے ہوا کرتے تھے۔ نشستیں لکڑی کی ہوتی تھیں۔ پائے دان پورے دروازوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ مسافر آرام سے اتر اور چڑھ سکتے تھے۔ ٹرام کے چلنے سے ایک مخصوص گھررگھرر کی آواز دور سے ہی اس کے آنے کا پتا دیتی تھی۔ ایک کنڈیکٹر اور ایک چیکر ہوا کرتا تھا، تینوں افراد کی خاکی وردی ہوتی تھی۔ کاغذ کے ٹکٹ تھے، جس پر ٹرام کا نمبر لکھا ہوتا تھا۔ ٹرام کے دونوں جانب لیور سسٹم نصب تھا۔ واپسی پر ڈرائیور اسے دوسری جانب سے کنٹرول کرتا تھا۔کیوں کہ ٹرام کی پٹری ایک ہی ہوتی تھی۔ ان کا کوئی رجسٹریشن نمبر نہیں ہوتا تھا۔ ٹرام وے کمپنی کے جاری کردہ نمبر دونوں جانب درج ہوتے تھے۔ کچھ وقت گزرا تو آج کی طرح جیسے بسوں پر اشتہارات لگے ہوتے ہیں، ٹراموں پر بھی تشہری بورڈ نصب کیے جانے لگے تھے۔ یہ ٹرامیں 28 فٹ لمبی اور تقریباً ساڑھے چھ فٹ چوڑی ہوا کرتی تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد انگریز یورپ واپس جانے لگے تو انہوں نے اسے بھی فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت تاجر محمد علی نے ٹرام وے کمپنی 32 لاکھ روپے میں خریدلی تھی اور اس کا نام بدل کر محمد علی ٹرام وے کمپنی رکھ دیا تھا۔ یہ ٹرامیں چار روٹس پر چلتی تھیں، ایک سولجر بازار سے بولٹن مارکیٹ تک۔ دوسری صدر سے کینٹ اسٹیشن تک، تیسری گاندھی گارڈن اور کیماڑی کے درمیان چلائی جاتی تھی۔ چوتھی بولٹن مارکیٹ سے چل کر لی مارکیٹ پر ختم ہوجاتی۔ ان ٹراموں کا جنکشن بولٹن مارکیٹ پر تھا ۔اس وقت اس کا کرایہ دو پیسے سے پانچ پیسے تک ہوگیا تھا۔ 31 اپریل 1975ء کراچی کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ اُس روز کراچی کے شہریوں کے لیے ٹرام کی سہولت بند کردی گئی تھی۔ یہ فیصلہ اُس وقت کی حکومت کا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ کراچی تیزی سے پھیل رہا ہے، آمدورفت کے نئے نئے ذرائع اور وسائل استعمال ہونے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک بڑھ گیا ہے اور چوں کہ شاہراہوں پر ٹرامیں دو طرفہ چلتی ہیں، لہٰذا ان کی وجہ سے حادثات کے خطرے بڑھ گئے ہیں۔ محمد علی ٹرانسپورٹ کمپنی کو اس حکم کی پاس داری کرتے ہوئے ٹرام سروس بند کرنی پڑی تھی۔ اس وقت کراچی کی سڑکوں پر 65 ٹرام وے چلا کرتی تھیں۔ ٹرام سروس بند ہونے سے کراچی کا اپنے ماضی سے ایک اہم رشتہ منقطع ہوگیا۔

آج بھی اگر کسی بزر گ کی یادداشتیں کھنگھالنے کی کوشش کریں تو ان کی یادداشتوں میں ٹراموے کا ذکر لازمی ہوتا ہے۔ کراچی کے اکثر پرانے باسیوں کا خیال ہے کہ اُس وقت کراچی کی پہچان دو چیزیں تھیں، ایک سمندر اور دوسری ٹرام۔ بعض افراد تو صرف تفریح طبع کے لیے ٹرام کا سفر کیا کرتے تھے۔ٹراموے اُس دور کا کام یاب ترین نظام تھا۔

آج اس تاریخی اثاثے کی یادگار کے طور پرکوئی علامت محفوظ نہیں، البتہ چند تصاویر اور یادیں باقی رہ گئی ہیں۔

تازہ ترین