• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے وزیراعظم عمران خان پیدا نہیں ہوئے تھے۔ آپ خواہ مخواہ حیران اور پریشان نہ ہوں، عمران خان کے اس دنیا میں آنے سے پہلے دنیا میں بہت کچھ ہو چکا تھا۔ دریائوں کا پانی اسی طرح بہتا تھا۔ جس طرح اب بہتا ہے، آتش فشاں اسی طرح لاوا اگلتے تھے جس طرح اب اگلتے ہیں، جنگل میں آگ اسی طرح لگتی تھی جس طرح اب لگتی ہے، پڑوسی آپس میں اسی طرح لڑتے تھے جس طرح اب لڑتے ہیں، کسی کے آنے اور کسی کے چلے جانے سے قدرت کے قوانین میں رتی برابر فرق نہیں پڑتا۔ تب کی یہ بات ہے جب پاکستان بن چکا تھا۔

کراچی کا ایک لڑکا بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ کرتا تھا۔ وہ اس قدر اطمینان سے بیٹنگ کرتا تھا کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے۔ وہ بالر کے ہاتھ سے نکلتی ہوئی گیند کو بلے یعنی بیٹ تک آتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وہ گیند سےنظریں نہیں ہٹاتا تھا۔ پچاس ساٹھ برس بعد برصغیر کے دو کھلاڑیوں کو میں نے کراچی کے لڑکے کی طرح بیٹنگ کے دوران عقاب کی طرح گیند پر نظریں جما کر کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایک تھے جاوید میاں داد اور دوسرے تھے سچن ٹنڈولکر، مگر کراچی کے لڑکے میں کچھ غیر معمولی جوہر تھا۔ وہ آئوٹ تب ہوتا تھا جب بیٹنگ کرتے ہوئے اس سے کوئی بھول چوک ہو جاتی تھی۔ ورنہ کوئی بالر اپنے بل بوتے پر اسے آئوٹ نہیں کر سکتا تھا۔ پاکستان میں کرکٹ سے عشق کرنے والے انگشت بدنداں تب ہوئے تھے جب پنجاب کی ٹیم کراچی میں ایک چار روزہ میچ کھیلنے آئی تھی، اس ٹیم میں اسپیڈ مرچنٹ، خان محمد، فضل محمود، اسرار احمد اور ذوالفقار جیسے بالر تھے۔ یادوں کے مدہم جھروکوں سے مجھے لگتا ہے کہ پنجاب کی ٹیم میں امتیاز احمد اور نذر محمد بھی شامل تھے۔ میچ کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ کے کرکٹ گرائونڈ پر بیٹنگ وکٹ پر کھیلا گیا تھا۔ میچ غالباً ڈرا ہوا تھا، اس میچ میں کراچی کے حیرت انگیز لڑکے کو کوئی بالر آئوٹ نہ کر سکا تھا اور وہ ترانوے رنز بنا کر پویلین لوٹا تھا۔ یہی وہ میچ تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں سے پاکستان کرکٹ کے کپتان عبدالحفیظ کاردار نے کراچی کے غیر معمولی لڑکے کیلئے ٹیسٹ کرکٹ کے دروازے کھول دیئے تھے۔

کراچی کے حیرت انگیز لڑکے کا نام تھا حنیف محمد۔ وہ سندھ مدرستہ الاسلام اسکول کا طالب علم تھا۔ اسکول میں حنیف محمد کے ساتھ ایک اور لڑکا بھی کمال کی وکٹ کیپنگ اور دھواں دار بیٹنگ کرتا تھا۔ اسی زمانے میں ایک آسٹریلوی کرکٹ ٹیم دوستانہ میچ کھیلنے کیلئے کراچی آئی تھی۔ اس ٹیم میں آسٹریلیا کے عظیم آل رائونڈر کیتھ ملر بھی شامل تھے۔ کیتھ ملر کا شمار اپنے دور کے تیز ترین بالرز میں ہوتا تھا۔ میچ کراچی جم خانہ کے کرکٹ گرائونڈ پر ہوا تھا۔ حنیف محمد کے کلاس میٹ نے کیتھ ملر کی گیندوں پر دو چار چھکے لگائے تھے۔ اس لڑکے کا نام تھا عبدالرشید، اس میچ میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے عبدالرشید نے ایک سو چھ رنز بنائے تھے۔ عبدالرشید سندھ مدرستہ السلام اسکول کی مسجد کے پیش امام کے بیٹے تھے۔ حنیف محمد کے ٹیسٹ کرکٹ سے وابستہ ہو جانے کے بعد عبدالرشید سندھ مدرستہ السلام کی ٹیم میں وکٹ کیپنگ اور دھواں دار بیٹنگ کرتے تھے۔

سب کو لگتا تھا عبدالرشید ایک روز پاکستان کی ٹیم کی طرف سے کھیلے گا مگر میٹرک کرنے کے بعد روزی روٹی کی تلاش عبدالرشید کو نگل گئی۔ اس دور میں آج کے دور کی طرح قابل اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو کھیل کے بل بوتے پر نجی اور سرکاری اداروں میں ملازمت نہیں ملتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ بے انتہا صلاحیت رکھنے والے کھلاڑی روزی روٹی کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے حنیف محمد کو پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت ملی تھی اور بعد میں وہ بہاولپور کی طرف سے بھی پروفیشنل کھلاڑی کے طور پر کھیلے تھے۔ میں چشم دید گواہ ہوں، میں نے کراچی کے بے مثال باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کو غم روزگار کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

کچھ کھلاڑی خوش نصیب ہوتے تھے۔ طالب علمی کے دور سے لیکر ملازمت کرنے کے دوران کھیل سے وابستہ رہتے تھے۔ امتیاز احمد پاکستان ایئر فورس میں بہت بڑے عہدہ پر کام کرتے تھے۔ ایم ای زیڈ غزالی پاکستان نیوی میں بہت بڑے عہدہ پر فائز تھے۔ ذوالفقار آرمی میں میجر تھے۔ فضل محمد پنجاب پولیس میں اعلیٰ افسر ہوتے تھے اور آئی جی پولیس کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جاوید برکی کمشنر اور بعد میں فیڈرل سیکرٹری بنے تھے۔

این جے وی ہائی اسکول کراچی کے فاسٹ بالر اے آر قاضی کو میٹرک کرنے کے بعد برما شیل آئل کمپنی نے اپنے ہاں ملازمت دی تھی۔ وہ برما شیل کی ٹیم کی طرف سے کھیلتے تھے اور تعلیم سے وابستہ رہتے تھے۔ گریجویشن کے بعد قاضی صاحب نے ایل ایل بی کیا، نامور وکیل بنے اور سندھ ہائی کورٹ کے جج کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔

پی آئی اے ملک کا پہلا بین الاقوامی ادارہ ہے جس نےکھلاڑیوں کی بھرپور طریقے سے حوصلہ افزائی کی اور پاکستان کو کئی ایک عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی دیئے۔ جہانگیر خان بھی پی آئی اے میں اعلیٰ عہدہ پر کام کرتے تھے۔ دیکھا دیکھی بڑے بینکوں نے اچھے اچھے کھلاڑیوں کو اپنا لیا ہے۔ سوئی گیس جیسے اداروں نے کھلاڑیوں کیلئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ کھلاڑی کے لئے مالی ضمانت لازمی ہے۔ سرشرم سے جھک جاتا ہے جب سنتے ہیں کہ رستم زمان گاما پہلوان کو آخر عمر میں علاج معالجہ اور روزی روٹی کے لئے اپنے عالمی اعزاز، بیلٹ، کپ، میڈل، تمغے اور سندیں بیچنا پڑی تھیں۔ تب پاکستان بن چکا تھا اور گاما پہلوان لاہور میں رہتے تھے۔

گستاخی کی معافی چاہتے ہوئے میں اپنے فاسٹ بالر سے عرض کرتا ہوں کہ سر، جس طرح پیسے کے بغیر پاکستان چلانا آپ کو مشکل محسوس ہو رہا ہے، عین اسی طرح کھلاڑی اور کھیل پیسے کے بغیر نہیں چل سکتے۔ آپ اداروں پر پابندی لگا کر کھلاڑیوں کا معاشی حشر نشر Genocideنہ کریں۔

تازہ ترین