• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرویو :امجد صافی…رپورٹ :گلزار محمد خان

(عکّاسی :فرمان اللہ جان)

عبداللّطیف یوسف زئی کا شمار مُلک کے ممتاز اور ماہر قانون دانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 15اگست 1947ء کو کراچی میں جنم لیا، جب کہ خاندان پُشتوں سے خیبر پختون خوا کے ضلع، صوابی میں آباد ہے۔ اُن کے والد پاک فوج میں ملازم تھے۔ نوشہرہ میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد والد کا مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلادیش) میں تبادلہ ہو گیا، جہاں عبداللّطیف نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے ایک لا کالج میں داخلہ لیا ہی تھا کہ والد کو پشاور منتقل ہونا پڑ ا۔ نتیجتاً، 1973ء میں پشاور یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں، 1976ء تک اپنے استاد، سردار محمد خان ایڈوکیٹ کی زیرِ نگرانی جونیئر وکیل کے طور پر خدمات انجام دیں اور پھر نجی پریکٹس کا آغاز کیا۔ عبداللّطیف یوسف زئی نے 12جولائی 1981ء کو سپریم کورٹ سے وکالت کا لائسنس حاصل کیا اور 1986ء سے 1990ء تک اسپیشل پراسیکیوٹر اینٹی نارکوٹکس رہے۔ 1992ء میں ڈپٹی اٹارنی جنرل مقرّر کیا گیا۔ تاہم، 1994ء میں اس عُہدے سے مستعفی ہونے کے بعد دوبارہ ذاتی پریکٹس شروع کر دی۔ 1997ء سے 2006ء تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو رُکن رہے اور اس دوران 2،2مرتبہ نائب صدر اور جنرل سیکریٹری اور 3مرتبہ خیبر پختون خوا بارکے ایگزیکٹیو رُکن بھی بنے۔ 1999ء میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل، نیب خیبر پختون خوا تعیّنات ہوئے اور 2001ء تک اس عُہدے پر خدمات سر انجام دیں۔ 2009ء میں عدالتِ عظمیٰ نے انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کےسینئر ایڈوکیٹ کا اعزاز دیا۔ خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد 4ستمبر 2013ء کو خیبر پختون خوا کے ایڈوکیٹ جنرل تعیّنات ہوئے اور حکومت کی آئینی مدّت مکمل ہونے کے بعد 24جون 2018ء کو اس عُہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ صوبے میں مسلسل دوسری مرتبہ پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد 30اگست 2018ء کو ایک مرتبہ پھر صوبے کے ایڈوکیٹ جنرل مقرّر ہوئے۔ یوں عبداللّطیف یوسف زئی کو مُلکی تاریخ میں طویل عرصے تک ایڈوکیٹ جنرل کے عُہدے پر فائز رہنے کا اعزاز حاصل ہوا، کیوں کہ 1956ء کے بعد اُن کے علاوہ مُلک میں کسی بھی فرد نے ایڈوکیٹ جنرل کے طور پر 3برس سے زاید عرصہ نہیں گزارا۔ گزشتہ دنوں ہم نے ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختون خوا، عبداللّطیف یوسف زئی سے خصوصی گفتگو کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

نیب قوانین میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے
جنگ پینل، انٹرویو لیتے ہوئے

س :عوام کے لیے انصاف کا حصول دن بہ دن مہنگا اور مشکل کیوں ہوتا جا رہا ہے؟

ج : عوام کو سستے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی مختلف وجوہ ہیں۔ اس وقت عدالتوں میں ضرورت سے زاید مقدّمات موجود ہیں اور ججز کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ اسی لیے عدالتوں کی جانب سے لمبی تاریخیں دی جاتی ہیں اور بعض اوقات فریقین خود بھی مقدّمے کو طول دیتے ہیں۔ تاہم، اب عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے قانون منظور ہو چکا ہے، جس کی رُو سے سول نوعیت کے مقدّمات ایک سال میں نمٹائے جا رہے ہیں اور پھر جب سے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر ذمّے داریاں سنبھالی ہیں، تو فوج داری مقدّمات4روز میں نمٹائے جا رہے ہیں، جو ایک کام یاب تجربہ ہے۔ اسی طرح ماڈل کورٹس کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے، جس کی وجہ سے سائلین کو جلد انصاف مل رہا ہے۔ اب عوام کو اپنے حقوق کا ادراک ہو رہا ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں سے رجوع کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں، سابقہ دَورِ حکومت میں مختلف تنازعات کے حل کے لیے مقامی سطح پر جرگہ کمیٹیز تشکیل دی گئی تھیں، جنہوں نے ہزاروں چھوٹے موٹے مقدّمات نمٹائے۔ ان کمیٹیز کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے فیصلوں میں دونوں فریقین کی رضا مندی شامل ہوتی ہے۔

س :فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں عدالتی نظام کے قیام اور قبائلی عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

ج :سابقہ فاٹا کے 7قبائلی اضلاع میں عدالتی نظام نافذ ہو چکا ہے اور یہ یقیناً ایک مشکل مرحلہ تھا، کیوں کہ گزشتہ ایک سو برس سے ان علاقہ جات کا نظم و نسق ایف سی آر کے تحت چل رہا تھا۔ اس وقت وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے قبائلی اضلاع کے عوام کو مساوی حقوق اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے قبائلی اضلاع کے لیے متعدد ججز نام زد کیے ہیں، جو اُن اضلاع میں خدمات انجام دیں گے۔ اسی طرح 900اہل کاروں پر مشتمل جوڈیشل اسٹاف کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ تاہم، عملے کی بَھرتی میں کچھ وقت لگے گا۔

س :نیب اکثر ایسے افراد کو گرفتار کرتا ہے، جو عدالتوں میں بے گناہ ثابت ہوتے ہیں۔ دُنیا بَھر میں جُھوٹے مقدّمات کے اندراج پر سزا ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟

ج :دراصل، ہمارے مُلک میں اب بھی متعدد ایسے قوانین رائج ہیں کہ جو ایک سو سال سے بھی زیادہ پُرانے ہیں۔ مثال کے طور پر ایف آئی آر کے اندراج کا قانون 1876ء میں بنا، لیکن اس میں بہ وقتِ ضرورت بھی ترامیم نہیں کی گئیں۔ اسی طرح 1999ء میں نیب کا قانون پاس ہوا، تو اُس وقت کے قانون سازوں نے اس میں ضمانت کی شِق نہیں رکھی۔ لہٰذا، ضمانت کے لیے آرٹیکل 199 استعمال کیا جاتا ہے۔ اداروں کو قانون کے مطابق چلنا پڑتا ہے اور قانون عوامی نمایندے بناتے ہیں۔ تاہم، اس وقت فوج داری و دیوانی عدالتوں اور نیب قوانین میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔

س :نیب قوانین میں کس قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟

ج :سب سے پہلے تو نیب کے قانون میں ضمانت کی شِق شامل کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر کسی فرد کے خلاف کیس نہیں بنتا، تو صرف اسے ذہنی اذیت دینے کے لیے مقدّمے کو بے جا طول نہیں دینا چاہیے۔ نیز، کسی کے خلاف جُھوٹا اور غیر قانونی مقدّمہ دائر کرنے پر جُرمانے کی شِق کو بھی قانون کا حصّہ بنانا چاہیے۔ اسی طرح احتساب عدالتوں کو ملزم کو ضمانت دینے کا اختیار تفویض کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔

س :اکثر بے گناہ افراد کو سزا ہو جاتی ہے، تو ایسے متاثرہ افراد کو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟

ج :بد قسمتی سے پاکستان سمیت تیسری دُنیا کے دیگر ممالک میں ’’نقصانات کے ازالے‘‘ کا قانون جگہ نہیں بنا سکا، جس کے تحت کسی بے گناہ کو سزا دینے پر متعلقہ ادارے کو سزا کاٹنی پڑتی ہے یا جُرمانہ ادا کرنا پڑتا۔ مگر ہمارے مُلک میں جُھوٹے مقدّمے کی بنیاد پر زیادتی کا شکار ہونے والے فرد کی داد رسی کے لیے قانون موجود نہیں۔ تاہم، اگر عدالت چاہے، تو کم از کم متاثرہ فرد کے اخراجات متعلقہ ادارے سے جُرمانے کے طور پر وصول کر سکتی ہے۔

س :عدالتوں پر سروسز مقدّمات کا بھی خاصا بوجھ ہے۔ اس کی بہ جائے اداروں میں اپیلٹ کورٹس کیوں نہیں بنائی جاتیں؟

ج :چیف سیکریٹری نے تمام محکموں سے رپورٹس طلب کی ہیں کہ کس محکمے کے کتنے مقدّمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، تاکہ معمولی نوعیت کے مقدّمات میں ریلیف دے کر کیسز نمٹائے جائیں۔

س :اکثر و بیش تر غلط تفتیش کی بنیاد پر بھی فیصلہ ملزم کے حق میں چلا جاتا ہے اور وہ بری ہو جاتا ہے، تو اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

ج :یہ بات بالکل دُرست ہے۔ اس وقت خیبرپختون خوا میں پراسیکیوشن برانچ صوبائی محکمۂ داخلہ کے تحت کام کر رہی ہے۔ اگر پراسیکیوٹرز اور تفتیشی افسران جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں، تو اس خامی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

س :اس تاثر میں کتنی حقیقت ہے کہ ’’ وکیل کی بہ جائے جج کر لیا جائے؟‘‘

ج : یاد رہے کہ ماتحت عدالتیں ہائی کورٹس اور ہائی کورٹس سپریم کورٹ کے ماتحت ہوتی ہیں اور مَیں پورے وثوق سے یہ کہتا ہوں کہ کم از کم خیبر پختون خوا کی حد تک یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ کسی زمانے میں یہ جملہ ایک دوسرے صوبے کے لیے مشہور تھا، لیکن اب وہاں بھی کافی بہتری آ چکی ہے۔

س :صدارتی اور پارلیمانی نظام میں سے کون سا بہتر ہے؟

ج : قانون کی روشنی میں کہی گئی بات اور کسی کی ذاتی رائے میں فرق ہو سکتا ہے۔ تاہم، آئین سے مطابقت رکھنے والا نظام ہی عوام کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گرچہ صدارتی اور پارلیمانی نظام کے اپنے اپنے فواید ہیں، مگر ہمارے آئین میں پارلیمانی نظام کا ذکر ہے۔ لہٰذا، چاہے کسی کو اچّھا لگے یا بُرا، ہمیں آئین کے مطابق ہی چلنا پڑے گا اور آئین کے تحت ریاست کو فلاحی ریاست کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

س: غریب اور مفلوک الحال افراد کے مقدّمات کی پیروی اور ضمانت کے لیے ریاست کیا کردار ادا کر رہی ہے؟

ج: اس سلسلے میں ہر ضلعے میں لیگل ایڈ موجود ہے اور متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اس کا سربراہ اور ڈسٹرکٹ بار کا صدر اس کا رُکن ہوتا ہے۔ جن مفلس افراد کو لیگل ایڈ کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں عدالت اپنے مقدّمے کے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات مُفت فراہم کرتی ہے۔

س :اس وقت ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں مقدّمات کی بھرمار ہے، انہیں کیسے کم کریں گے؟

ج :اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتوں میں مقدّمات کی بھرمار ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ جس تیز رفتاری سے کیسز نمٹائے جا رہے ہیں، اسی تیزی سے نئے مقدّمات بھی دائر ہو رہے ہیں۔ چُوں کہ شہریوں کو عدلیہ پر اعتماد ہے، اسی لیے مقدّمات عدالتوں میں لائے جا رہے ہیں۔

س :کیا آپ فوجی عدالتوں کے حق میں ہیں؟

ج :جب تک نظام اور حالات دُرست نہیں ہوتے، اس وقت تک فوجی عدالتوں کی ضرورت برقرار رہے گی، کیوں کہ بعض مقدّمات ایسے ہیں کہ جن کے فیصلوں سے عام عدالتوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور پھر ویسے بھی فوجی عدالتوں کو آئینی تحفّظ حاصل ہے، بلکہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ تمام شہریوں کے حقوق ہوتے ہیں، لیکن شر پسند شہریوں کے مقابلے میں صلح پسند شہریوں کے حقوق زیادہ ہیں۔ فاٹا انضمام کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرۂ کار کو قبائلی اضلاع تک وسعت دی گئی ہے۔ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد اب اگر قبائلی اضلاع کے کسی شہری کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے، تو وہ ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروا سکتا ہے ۔

س :خیبر پختون خوا میں احتساب کا قانون آپ کے دَور میں بنا اور ختم بھی ہوا۔ کیا احتساب کمیشن کے قیام کا فیصلہ دُرست تھا؟

ج :صوبائی حکومت نے اچّھی نیت اور سوچ کے تحت احتساب کا قانون بنایا تھا، لیکن احتساب کمیشن کے ذمّے داران نے اپنے اختیارات کا دُرست استعمال نہیں کیا، جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوئیں۔ علاوہ ازیں، صوبے میں افسر شاہی نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ دراصل، احتساب کمیشن کے اہل کاروں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، جس سے سرکاری محکموں میں بے چینی نے جنم لیا۔

س :کیا موجودہ مُلکی حالات میں بہتری کی کوئی امید ہے؟

ج :بِلا شُبہ اس وقت مُلک کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم، جو اقوام بر وقت سخت فیصلے کرتی ہیں، اُن کی آیندہ نسل ان کے ثمرات سے مستفید ہوتی ہے۔ عمران خان پاکستانی عوام کے لیے امید کی واحد کرن ہیں۔ وہ مُلک کو بُحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی کرپشن کے خلاف مُہم کو بین الاقوامی پزیرائی ملی ہے۔

س :ذاتی زندگی اور فیملی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ج :میرے 4بچّے ہیں، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ ایک بیٹا لندن میں کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر رہا ہے، جب کہ دوسرے نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اور اسلام آباد میں پریکٹس کر رہا ہے۔ ایک بیٹی ڈینٹسٹ، جب کہ دوسری نے امریکا سے ہائیر ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ جہاں تک میری ذاتی زندگی کا تعلق ہے، تو اگر کوئی وکیل صحیح معنوں میں پریکٹس کرتا ہے، تو اس کی خانگی زندگی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ البتہ میری اپنی بچّوں سے دوستی ہے اور ہم تعطیلات میں کہیں نہ کہیں گھومنے ضرور جاتے ہیں۔

س :لَو میرج کی یا ارینجڈ؟

ج :میری شادی لَو اور ارینجڈ میرج کا امتزاج ہے۔ شادی کے وقت میری اہلیہ بھی وکالت کرتی تھیں۔

س :گھر میں آپ کی چلتی ہے یا اہلیہ کی؟ نیز، کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟

ج :اگر کوئی شوہر یہ کہتا ہے کہ گھر میں اُس کی چلتی ہے، تو وہ جُھوٹ بولتا ہے۔ میرے گھر میں بھی اہلیہ ہی کی چلتی ہے۔ تاہم، اللہ کے فضل و کرم سے ہماری ازواجی زندگی بڑی پرُ سکون ہے ۔

س :کھانے میں کیا پسند ہے؟ نیز، کیا خود بھی کھانا پکا سکتے ہیں؟

ج :مُجھے ہر لذیذ کھانا پسند ہے۔ مَیں نے اپنی بہنوں سے کھانا پکانا سیکھا اور سب کچھ پکا سکتا ہوں۔ البتہ کچّے باسمتی کا پلاؤ بہت اچّھا بناتا ہوں۔

عمران خان اور پرویز خٹک کی خواہش پر ایڈوکیٹ جنرل بنا

پی ٹی آئی میں شمولیت کے حوالے سے عبداللّطیف یوسف زئی نے بتایا کہ’’ 2013ء میں، مَیں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اسکاٹ لینڈ میں تعطیلات گزار رہا تھا کہ اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ کے پی کے، پرویز خٹک نے مُجھےبہ ذریعۂ فون بتایاکہ وہ اور عمران خان مُجھے ایڈوکیٹ جنرل بنانا چاہتےہیں۔ اور پھر مَیں نے چار ماہ تک اس عُہدے پر خدمات سر انجام دینے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کیا ۔ مَیں جنوری 2014ء میں باضابطہ طور پر پی ٹی آئی کا حصّہ بنا اور پارٹی نے 2015ء اور 2018ء میں مُجھے سینیٹ کا ٹکٹ بھی دیا۔‘‘

تازہ ترین