روزوں کی فرضیت
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلی اُمّتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متّقی اور پرہیز گار بنو۔‘‘(سورہ البقرہ 183)روزہ، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ پورے رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہر عاقل و بالغ مسلمان، مَرد اور عورت پر فرض ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے اسلام کے ابتدائی دِنوں میں مسلمانوں کو ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی،مگر یہ فرض نہیں تھے۔ پھر دو ہجری میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم نازل ہوا، مگر اس میں اِتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزہ برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی نہ رکھیں، تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کِھلا دیا کریں۔ بعدازاں، دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی، لیکن مریض، مسافر، حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بوڑھوں کے لیے جن میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا۔ (تفہیم القرآن)
رمضان المبارک کی فضیلت
حضرت سلمان فارسی ؓسے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا، جس میں آپﷺ نے فرمایا ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے (یعنی نمازِ تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرّر کیا ہے (جس کا بہت زیادہ ثواب رکھا ہے)، جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت یعنی سنّت یا نفل ادا کرے گا، تو اُسے دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب ،عام دنوں کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کروایا، تو اس کے لیے گناہوں کی بخشش اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کروانے کا سامان میّسر نہیں، تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟‘‘
آپﷺنے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا، جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروا دے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کِھلا دے، اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کرے گا، جس کے بعد اُسے کبھی پیاس نہیں لگے گی، یہاں تک کہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصّہ رحمت، درمیانی حصّہ مغفرت اور آخری حصّہ آتشِ دوزخ سے آزادی کا ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف کر دے گا، اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرما دیں گے۔ اُسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دیں گے۔‘‘ ( معارف الحدیث)
رمضان اور صوم کی وجۂ تسمیہ
لفظ رمضان، رمض سے مشتق ہے، جس کے معنی گرم ہونا اور تیز دھوپ سے پائوں کا جلنا ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ روزہ دار کے تمام سابقہ گناہوں کو جَلا اور مٹا دیتا ہے۔حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ رمضان کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ وہ گناہوں کو رمض کر دیتا ہے، یعنی جَلا دیتا ہے۔‘‘ (گلدستۂ تفاسیر) لفظ صوم، لغوی طور پر’’ رُک جانے‘‘ کو کہتے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں عبادت کی نیّت سے طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام ،روزہ ہے۔ رمضان کے روزے ہجرت کے اٹھارہ ماہ بعد فرض ہوئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے وصال فرمانے سے قبل نو بار ماہِ رمضان کے روزے رکھے۔
شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیاطین اور سرکش جِنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور پھر اُس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ پکارنے والا پکارتا ہے’’ اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ اور اے شر کے طلب گار، ٹھہر جا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دیئے جاتے ہیں اور یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی660)
روزہ داروں کا انعام
حضرت سہل ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا’’ جنّت کا ایک دروازہ ،جسے ’’ریان‘‘ کہتے ہیں، قیامت کے دن روزے دار اس دروازے سے داخل ہوں گے۔ آواز دی جائے گی’’ روزہ دار کہاں ہیں؟‘‘ تو وہ اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اُن کے سِوا اور کوئی اس دروازے میں سے داخل نہ ہو گا، جب روزہ دار داخل ہو جائیں گے، تو اُسے بند کر دیا جائے گا۔‘‘(صحیح بخاری 1896) ’’ریان‘‘ کے معنی، سیرابی کے ہیں، چوں کہ روزے دار دنیا میں اللہ تعالیٰ کے لیے بھوک، پیاس برداشت کرتے ہیں، اِس لیے اُنہیں بڑے اعزاز و احترام کے ساتھ اُس سیرابی دروازے سے گزارا جائے گا اور وہاں سے گزرتے وقت اُنہیں ایسا مشروب پلایا جائے گا کہ پھر کبھی پیاس محسوس نہیں ہو گی۔ (عون الباری 2/766)
روزے دار کے منہ کی بُو
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ روزہ جہنّم سے ایک ڈھال ہے، لہٰذا روزہ دار کو چاہیے کہ وہ نہ تو فحش کلامی کرے اور نہ ہی جاہلوں جیسا کام کرے۔ اگر کوئی شخص اُس سے لڑے یا اُسے گالی دے، تو اُس کو دو مرتبہ کہہ دے کہ’’ مَیں روزے سے ہوں۔‘‘ اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خُوش بُو سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’ روزہ دار اپنا کھانا، پینا اور اپنی خواہش میرے لیے چھوڑتا ہے، لہٰذا روزہ میرے ہی لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور ہر نیکی کا ثواب دَس گُنا ہے۔‘‘(صحیح بخاری 1894)
روزہ خاص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ ابنِ آدم کے تمام اعمال اُس کے اپنے لیے ہیں، لیکن روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’’ روزہ دار کے لیے دو مسرّتیں ہیں، جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو جب وہ روزہ کھولتا ہے، تو اُسے خوشی ہوتی ہے اور دوسرے جب وہ اپنے مالک سے ملے گا، تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہو گا۔ (صحیح بخاری 1904)
رمضان المبارک کی پانچ خصوصی برکات
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ اللہ تبارک تعالیٰ نے میری اُمّت کو ماہِ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبیؑ کو عطا نہیں فرمائیں۔(1) جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے، تو اللہ عزّوجل اُن کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ ربّ العزّت نظرِ رحمت فرمائیں، اُسے کبھی عذاب نہیں دیں گے۔(2) اُن کے منہ کی بُو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک، کستوری کی خُوش بُو سے بھی بہتر ہے۔(3) فرشتے ہر رات اور دن اُن کے لیے مغفرت کی دُعائیں کرتے رہتے ہیں۔(4) اللہ تعالیٰ جنّت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں’’میرے نیک بندوں کے لیے مزیّن یعنی آراستہ ہو جا۔‘‘(5) اور پانچویں یہ کہ جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے، تو اللہ عزّوجل سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔‘‘ صحابہ کرامؓ میں سے ایک نے عرض کیا’’ یا رسول اللہﷺ! کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟‘‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’نہیں! کیا تم دیکھتے نہیں کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہو جاتے ہیں، تو اُنہیں اُجرت دی جاتی ہے۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)
تقویٰ کیا ہے اور متّقی کون ہیں؟
روزہ انسان کو غلط کاموں، شیطانی، نفسانی خواہشات سے دُور رکھتا ہے اور تقویٰ، پرہیز گاری، ضبطِ نفس، صبر و تحمّل، برداشت، ثابت قدمی اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ روزہ نہ صرف جسمانی صحت کا ضامن ہے، بلکہ روحانی آسودگی کو جِلا بخش کر قوّتِ ایمانی کو مستحکم کرتا اور انسان کو متّقی و پرہیز گار بناتا ہے۔‘‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے تاکہ تم متّقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘
متقی کون لوگ ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’متّقی وہ ہیں، جو راتوں کو کم سوتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں (سورہ الذاریات 18 )تقویٰ کیا ہے؟ اللہ کے خوف کے باعث خود کو گناہوں یعنی جھوٹ، غیبت، منافقت، بدکاری، بے حیائی، بددیانتی، ریاکاری، دھوکا، فریب، خیانت، کام چوری، غفلت، لاپروائی، سُستی، کاہلی، غصّہ، بدکلامی، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد، رشوت، غبن، ناجائز منافع خوری اور دیگر عیوب سے بچانے کا نام تقویٰ ہے اور یہی روزے کا اصل مقصد ہے۔گویا رمضان المبارک تقویٰ کی افزائش کے لیے موسمِ بہار ہے۔
روزے کا مقصود تقویٰ ہے، نہ کہ فاقہ کشی
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص نے جھوٹ بولنا، جھوٹ پر عمل کرنا اور فریب کاری کو نہ چھوڑا، تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا ، پینا چھوڑ دے۔‘‘(صحیح بخاری 1903) حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک اور حدیثِ مبارکہؐ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’ کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ جنہیں اپنی اس عبادت سے رات کو نیند سے محرومی کے سِوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہؐ میں واضح طور پر فرما دیا گیا ہے کہ اگر قیامُ اللیل میں رجوع اِلی اللہ کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، تو اس طرح راتوں کا کھڑا رہنا سوائے رَت جگے کے اور کچھ نہیں ۔ عبادت کی حقیقی رُوح یہ ہے کہ جب معبودِ حقیقی کے حضور کھڑے ہوں، تو اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور جواب دہی کا خوف بھی ہو۔ پھر اس کی معافی و خُوش نودی کے طلب گار بھی ہوں اور یہی وہ تقویٰ ہے، جو روزے کا مقصود ہے۔
ماہ رمضان کے روزوں کا نعم البدل نہیں
اگر کوئی عاقل، بالغ مرد یا عورت کسی شرعی عُذر کے بغیر رمضان کے فرض روزے چھوڑتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کے ساری عُمر کے روزے بھی اجر و ثواب اور مرتبے کے لحاظ سے اس ایک روزے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی شخص نے بغیر کسی معقول عذر کے اور بغیر کسی مرض کے ایک روزہ بھی چھوڑا، تو اگر وہ ساری عُمر بھی روزے رکھے، تب بھی وہ اس کی قضا نہیں ہو سکتے۔‘‘(کُتبِ احادیث) شرعی نقطۂ نظر سے جان بوجھ کر رمضان کے روزوں کو چھوڑنے پر بھی روزے کی قضا رکھنا لازم ہے، لیکن اجر و ثواب کے اعتبار سے وہ قضا روزے، رمضان کے روزوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔
روزہ، قرآن اور لیلۃ القدر
سورۂ البقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ سورۂ القدر میں ارشاد ِباری ہے’’ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا اور لیلۃ القدر، ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ اس نسبت سے رمضان، قرآن اور لیلۃ القدر میں خاص تعلق ہونا ایک قدرتی اَمر ہے۔ رمضان کے ان بابرکت شب و روز میں تلاوتِ کلامِ پاک، صاحبِ ایمان کا سب سے بہترین وظیفہ ہے۔
حضور نبی کریمﷺکے فرمان کے مطابق، قرآنِ پاک کے ہر حرف کے عوض دَس نیکیاں ملتی ہیں اور رمضان کے مہینے میں ہر نیکی کا ثواب 70گُنا بڑھ جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ کہتا ہے’’ اے ربّ، مَیں نے اسے دن بھر کھانے پینے اور شہوت سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔‘‘ اور قرآن کہے گا’’ اے ربّ! مَیں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔‘‘ پس دونوں کی شفاعت قبول فرمالی جائے گی۔‘‘(بیہقی)
دُعا کی قبولیت کا خاص وقت
سورۂ البقرہ کی آیات 183سے188تک رمضان المبارک کے احکام و مسائل بیان ہوئے ہیں، لیکن درمیان میں آیت 186میں دُعا کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اے پیغمبرؐ! جب تم سے میرے بندے ،میرے بارے میں دریافت کریں، تو آپؐ کہہ دیں کہ’’ میں بہت ہی قریب ہوں۔ جب پکارنے والا پکارتا ہے، تو میں اُس کی دُعا قبول کرتا ہوں، تو ان کو چاہیے کہ میرے احکامات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔‘‘ روزوں کے احکام کے درمیان دُعا کا بیان فرما کر یہ واضح کر دیا گیا کہ رمضان میں دُعا کی بھی بڑی فضیلت ہے۔
جس کا خُوب اہتمام کرنا چاہیے، خصوصاً افطاری کے وقت کو قبولیتِ دُعا کا خاص وقت بتایا گیا ہے۔(ترمذی، ابنِ ماجہ) امام ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں واضح اشارہ دیا گیا ہے کہ روزے کے بعد دُعا قبول ہوتی ہے، اس لیے دُعا کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عُمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ روزہ افطار کرنے کے وقت روزہ دار کی دُعا قبول ہوتی ہے۔‘‘( ابو داؤد)اسی لیے حضرت عبداللہ بن عُمرؓ افطار کے وقت سب گھر والوں کو جمع کر کے دُعا کیا کرتے تھے۔ مفتی محمّد شفیع ؒفرماتے ہیں کہ’’ آیت 186میں’’ اِنّی قریب‘‘ فرما کر اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا کہ دُعا آہستہ اور خفیہ کرنی چاہیے، دُعا میں آواز بلند کرنا پسندیدہ نہیں۔‘‘ (معارف القرآن ج ا ص 451)
ماہِ رمضان میں اپنے روزمرّہ کے معمولات میں ان چار باتوں کا تو ضرور اضافہ کرنا چاہیے۔ (1) کثرت سے عبادت، نفلی و تلاوتِ کلام پاک (2)اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ (3)دُعائوں میں زیادہ گریہ وزاری(4) مزاج میں عاجزی و انکساری۔