• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسرت راشدی

 ہر فرد زندگی کے کینوس کو حسین بنانے کے لیے اپنی سوچ، صلاحیت اور بساط کے مطابق رنگ بھرتا ہے۔ رنگوں کی اس قوسِ قزُح میں عورت کا وجود منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ بلاشبہ عورت اپنے ہاتھوں سے تصویر کائنات میں رنگ بھرتی ہے۔ اس کا کردار و عمل اور حیات بخش صلاحیتیں معاشرے کے عروج و زوال کا سبب بنتی ہیں۔

مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیئے ہیں۔ خانگی گاڑی چلانے اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھانےکےلئے دونوں کو ہی ایثار و قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ترقی، خوشحالی بھی ان ہی کی مرہون منت ہے، اس کے باوجود عورت کو صحیح مقام دینے میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں عورت کو اپنے معاشرے میں برابری کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔

ہمارے ملک میں دو طرح کی خواتین ایک شہری اور ایک دیہی اپنی خدمات اور صلاحیتوں سے مردوں کا اپنی بساط سے بڑھ کر ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی ستر فیصد آبادی دیہات پر مشتمل ہے۔ یہاں تعلیمی انحطاط کی وجہ سے روشن خیالی کا فقدان پایا جاتا ہے، اس لئے عورت کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہے ۔حالاں کہ پاکستان کی ترقی و خوش حالی میں جہاں شہری خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں، وہیں دیہات میں رہنے والی خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرکے اپنے گھر کی بہتر کفالت کرنے کےلئے کوشاں ہیں۔ گھرداری کے ساتھ ساتھ وہ کھیتوں میں بھی تپتی دھوپ میں کپاس کی چنائی کرتی ہوں یا چاول کی بوائی میں اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں، گھنٹوں کھیت میں گوڈی کرتی ہیں۔ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک گھر اور باہر کے کاموں میں مسلسل مصروف رہتی ہیں۔ میلوں پیدل چل کر کنویں یا نہروں سے کئی کئی مرتبہ پانی کے بھاری بھاری گھڑے اٹھا کر لاتی ہیں۔ مویشیوںکےلئے چارہ لانا، دودھ دوھنا بھی ان ہی کی ذمہ داری ہے اس کے علاوہ کشیدہ کاری اور دیگر ہنر کے ساتھ اپنے گھر کے وسائل میں اضافے کےلئے کوشاں رہتی ہیں۔ دیہاتوں میں قائم متعدد دکانیں بھی خواتین چلا رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو مردوں کے مقابلے میں دیہی خواتین زیادہ محنتی اور ہنرمند ہیں۔ اتنی سخت محنت اور جدوجہد کے باوجود بھی ان کی گھریلو ضروریات پوری نہیں ہوتیں ،کیوں کہ انہیں اجرت اتنی نہیں ملتی جتنا کام وہ انجام دیتی ہیں۔ یہ غریب اور ان پڑھ ہاری خواتین جن زمینوں کو اپنی محنت و مشقت سے سینچتی ہیں، وہ دراصل مقامی وڈیروں کی ہیں جو انہیں ان کی محنت کا انتہائی قلیل معاوضہ دیتے ہیں حتیٰ کہ فصل کےلئے پانی، بیج، کھاد وغیرہ کا بندوبست بھی انہیں خود کرنا پڑتا ہے۔ مالکان وڈیرے ان سے تعاون کرنے کے بجائے تمام اخراجات سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ اتنی مشقت کے بعد مشکل سے ہی ان کا دو وقت کا چولہا جلتا ہے۔ اتنی کٹھن مشکلات اٹھانے کے باوجود انہیں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھ کر ان کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ انہیں وہ احترام نہیں ملتا، جس کی وہ حق دار ہیں بلکہ دیہاتی خواتین بہت سے حقوق سے محروم ہیں۔

دیہات میں عورتوں کی ترقی کے امکانات معدوم ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں صدیوں سے قدامت پرست نظریات کے حامل لوگ آباد ہیں جو عورت کو محکوم اور پائوں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ نہ ہی ان کو جائیداد میں کوئی حصہ دیا جاتا ہے، نہ ہی کوئی زمین ان کی ملکیت ہوتی ہے۔ بچیوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کو گوہر تعلیم سے آراستہ کرنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی ان پڑھ خواتین اپنے بچوں کی تربیت بہتر طریقے سے نہیں کر پاتیں۔ ان کی فلاح و بہبود کےلئے نہ ہی کسی قسم کے کوئی فلاحی نہ کوئی حکومتی ادارے آگے آئے ہیں۔ پستی اور مفلسی ان کا نصیب بن گئی ہے۔

دوسری طرف شہری عورت معاشرے میں اپنا مقام بناتی نظر آرہی ہے۔ تعلیمی میدان میں ان کی کارکردگی نمایاں ہے، کاروبار کے تمام شعبوں میں وہ چھا رہی ہے۔ ثقافتی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، اخلاقی و تمدنی، مذہبی غرض کہ معاشرے کے ہر پہلو کو استحکام بخشنے میں عورت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ بہترین ماں، باوقار بہن، ہم قدم شریک حیات، ڈاکٹر، نرس، وکیل، فرض شناس پولیس آفیسر، صحافی، قابل معلمہ اور محب وطن مفید شہری کی حیثیت سے معاشرتی ترقی و تعمیر میں اہم کردار نبھا رہی ہیں۔ اس کے باوجود رونا تو یہی ہے کہ سماج میں انہیں وہ مقام نہیں ملتا، جس کی وہ حق دار ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ روشن خیالی کے دعوے دار حضرات جو سماجی حلقوں میں عورتوں کے حقوق کے علمبردار بنتے ہیں لیکن اپنی ذاتی زندگیوں میں عورت کو برابری کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ عورت کو ماں، بیٹی، بہن، بیوی کی حد تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔

تحفظ حقوق نسواں کا بل پاس ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے، مگر اس سے خواتین کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے، نہ تشدد اور ناانصافی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کا ایکٹ، نام نہاد رسم و رواج کے خاتمے کا قانون، تیزاب پھینکنے کی روک تھام، نیشنل کمیشن آن اسٹیس آف ویمن کو بااختیار بنانے کا قانون، قیدی عورتوں کی فلاح و بہبود جیسے اہم قوانین پاس کئے گئے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی قوانین پر اب تک عمل دار آمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ ہر شعبے میں مرد اور عورت کے درمیان صنفی امتیاز بڑھتا ہی جارہا ہے۔کوئی بھی معاشرہ خواتین کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھائے بغیر ترقی نہیں کرسکتا،اس لئے ان کو بہتر مواقع فراہم کرنے ہوں گے، اپنی سوچوں کو بدلنا ہوگا اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عورت اور مرد معاشرے کے مساوی حقوق کے متقاضی ہیں۔

دیہی علاقوں کی عورتیں ہوں یا شہری، تصویر کائنات کے سب ہی رنگ مدھم دکھائی دیتے ہیں۔ عورت کو جتنا چاہے گاڑی کا دوسرا پہیہ کہہ لیں، جب تک اس پہیئے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، تب تک گاڑی آگے نہیں بڑھے گی۔عورت کی مضبوط حیثیت کو تسلیم کرنے، مکمل تحفظ فراہم کرنے اور مساوی حیثیت جب تک نہیں دی جائے گی، معاشرے میں مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔کسی قوم کی حالت کا صحیح اندازہ اس قوم کی عورتوں کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔خواتین کو ایسے مواقع فراہم کئے جائیں، جس میں وہ اپنی تعلیم، توانائی اور مہارت کو مرد حضرات کے ساتھ مل کر ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم پیشرفت کرسکیں۔دیہی خواتین جو ہماری زرعی پیداوار کو بڑھانے کا اہم ذریعہ ہیں، ان کی فلاح و بہبود، تعلیم اور ان کے حقوق کےلئے حکومت کو جلد ازجلد موثر اور عملی اقدامات کرنے چاہیے۔

تازہ ترین