• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بیٹھے بٹھائے کیا ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے اور بھارت کو امریکہ کی طرف سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور چین کی طرف سے پاکستان کو مشتعل نہ ہونے کے مشورہ کے باوجود پاک بھارت تعلقات اس قدر کشیدہ ہوگئے کہ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے باقاعدہ اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ اس سے پہلے بھارت کے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے 14جنوری2013ء کو ایک پریس کانفرنس کرکے پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی جارحیت کا بھرپور جواب دیں گے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس پر تو حملہ ہوا ہے اور اُس کے دو فوجیوں کو بھارت نے حملہ کرکے شہید کردیا اور بھارت مسلسل لائن آف کنٹرول کی بار بار خلاف ورزی کررہا ہے جس کی وجہ سے شہری آبادی کو خطرات لاحق ہوئے ہیں اور ایک شہری جاں بحق بھی ہوگیا۔ پاکستان نے انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور بھارت کو ہر طرح کی مراعات دیں اور تعلقات کی بحالی کے لئے ہرممکن سعی کی ہے اس کے باوجود بھارت اس قدر کیوں بپھر گیا کہ ان کا آرمی چیف پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور کم گو اور بظاہر صلح جو نظر آنے والے وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول کی سطح پر نہیں آسکتے۔ جس کے بعد انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزا پالیسی پر عملدرآمد روک دیا جو15جنوری2013ء سے لاگو ہونا تھی کہ65 سالہ بزرگ شہریوں کو دونوں طرف سے واہگہ کی سرحد پر ویزے کا اجراء کیا جانا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی ہاکی کے کھلاڑیوں کو واپس کردیا، اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بھارت کی ون ڈے کرکٹ کی شکست کے اثرات ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ بات کچھ اور ہے۔ بظاہر وہ اس کشیدگی کی وجہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ پر ڈال رہے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر شیلنگ پاکستان کی طرف سے ہوئی جبکہ پاکستان یہ الزام بھارت پر ڈال رہا ہے اور غیرجانبدار تحقیق کا مطالبہ کررہا ہے جس پر بھارت راضی ہو کر نہیں دے رہا۔ گمان یہ ہے کہ بھارت افغانستان میں امریکہ کی طرف سے کوئی کردار نہ ملنے پر سخت ناراض ہے اور سرحدوں پر اشتعال انگیزی کرکے وہ اِس خطہ میں اپنی اہمیت منوانے اور افغانستان میں اپنے کردار کو حاصل کرنے کے لئے کر رہا ہے جبکہ پاکستان نے امریکہ سے اس شرط پر تعاون شروع کیا کہ افغانستان کے معاملے میں بھارت کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ وہ تاجکستان تک میں اپنا اڈہ قائم کرکے پاکستان کی مغربی سرحد سے صرف دس منٹ کے ہوائی فاصلہ پر رہنا چاہتا تھا مگر بھلا ہو روس کا کہ اُس نے تاجکستان میں بھارت کو مگ اور دوسرے طیارے رکھنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ تاجکستان کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنا چاہتا ہے نہ کہ بھارت کے اثر میں کیونکہ روس خطہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ چاہے روس کو خوش کرنے میں بھارت روس سے کتنا ہی اسلحہ خریدے مگر وہ اب پاکستان سے اتنا دور نہیں جانا چاہتا جتنا کہ وہ ماضی میں چلا گیا تھا۔ روس کو اور بھی مارکیٹ درکار ہیں۔ اُسے 1.5 بلین ڈالرز کی روسی اسلحہ فروخت کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی مارکیٹ مل گئی اور اسی طرح سے وہ پاکستان کو بھی وافر مقدار میں اسلحہ بیچ سکتا ہے مگر یہ بات خود امریکہ کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ واشنگٹن کو بھارت سے وہ کچھ نہیں ملا جس کی امید لگا کر امریکہ نے بھارت سے دوستی کی تھی۔ بھارت اُس کو ایک حد سے اپنے معاملات میں دخیل کرنا نہیں چاہتا۔ بھارت نے جہاں 15 چنیوک ہیلی کاپٹر کے حصول کا ٹھیکہ جس کی مالیت کئی بلین ڈالرز ہے امریکہ کو دے دیا ہے مگر اس نے توازن برقرار رکھنے کے لئے روس کو بھی اس سے کہیں زیادہ مالیت کے ٹھیکے دیئے ہیں تاکہ روس پاکستان کو اسلحہ بیچنے سے باز رہے۔ امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم کو روس سے سامان حرب خریدنے پر کس نے راضی کیا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے مفاد میں یہ ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور پاکستان کا اس امن کے حصول میں واضح کردار ہے، اس کے بغیر نہ امریکہ افغانستان سے باعزت طور پر نکل سکتا ہے اور نہ افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے تو امریکہ کا پاکستان کا افغانستان کے بارے میں موقف تسلیم کرنا امریکہ کے مفاد میں ہے۔ اس موقف کو تسلیم کرنے کے بعد ہی پاک امریکہ تعلقات معمول پر آنا شروع ہوئے۔ پاکستان نے امریکہ کی رضامندی کے ساتھ افغانی طالبان کو رہا کیا تاکہ وہ پاک امریکہ، نیٹو امن مذاکرات میں شرکت کرسکیں۔ حالیہ پیرس کانفرنس میں پاکستان کے کردار کو سب نے سراہا اور شنید ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کو امریکی صدر بارک حسین اوباما نے مذاکرات میں افغانستان کے امن کے حصول میں پاکستان کی اہمیت واضح کردی۔ اس کے بعد بھارت نے اپنے نمائندے ترکی بھیجے تاکہ ترکی امریکہ کو راضی کرے کہ وہ بھارت کے افغانستان میں کردار کو تسلیم کرائے۔ ترکی سے بھی نفی میں جواب ملنے کے بعد بھارت کے دانشوروں اور قلمکاروں کی ایک بڑی تعداد نے یہ کہا کہ اس جنگ میں پاکستان نے بھارت کو چاروں خانے چت کردیا اور بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار باقی نہیں رہا جبکہ بھارت نے افغانستان میں کئی بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ایک افغانی نسل دانشور موسیٰ خان جلال زئی نے ایک کالم میں لکھا ہے کہ آئی ایس آئی نے افغانستان میں انٹیلی جنس جنگ جیت لی ہے۔ سی آئی اے اور نیٹو کی کوئی ایجنسی افغان طالبان سے رابطہ کرنے میں ناکام رہی جب تک اُن کو پاکستان کا تعاون حاصل نہ ہوا۔ سات ماہ کی سپلائی کی بندش اور امریکہ کے ہر طرح کے حربے کے استعمال کے باوجود پاکستان ثابت قدم رہا اور اپنے مفادات کا سودا نہ کیا تو امریکہ کو اپنے مفاد میں پاکستان سے دوستانہ انداز میں رجوع کرنا پڑا اور پھر دونوں کے درمیان عملی تعاون شروع ہوگیا جس کی بنیادی شرط یہی تھی کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ جہاں تک شمالی اتحاد کا معاملہ ہے پاکستان نے شمالی اتحاد کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرلئے ہیں اور برہان الدین ربانی کے صاحبزادے صلاح الدین ربانی کو اُن کے حالیہ دورے میں خوش کرکے بھیجا اور یہ کہہ دیا کہ پاکستان افغانستان کے کسی گروپ کے ساتھ نتھی نہیں ہے وہ افغانستان میں امن کا خواہاں ہے وہاں قائم امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاہدے میں پاک ایران گیس پائپ لائن پر کوئی سودا نہیں ہوا ہوگا۔
تازہ ترین