• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) سرکاری ادارہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اب تک معاشی بحران سے باہر نہیں آیا جیسا کہ اس کے قابل وصول اثاثہ جات 317.6 ارب روپے تک بڑھ گئے ہیں اور ایل این جی کا نیا شعبہ بھی ریاستی ملکیت مارکیٹنگ کمپنی کیلئے 60.8 ارب روپے کے نئے معاشی بوجھ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ دی نیوز کو دستیاب تازہ ترین دستاویز کے مطابق ایل این جی پی ایس او کے گردشی قرضے میں اضافے کے نئے عنصر کے طور پر سامنے آئی ہے جیسا کہ سوئی ناردرن ایل این جی کیلئے 26.1 ارب روپے ادا کرنے میں ناکام رہی ہےجسے دسمبر تا فروری گزشتہ موسم سرما میں ملکی شعبے میں استعمال کیلئے لایا گیا تھا اور ایل این جی کے واجبات کی عدم وصولیابی کے باعث سوئی ناردرن پی ایس او کو ادائیگی نہیں کر پارہی جس کے باعث ایل این جی کی مد میں ادارے کے قابل وصولی اثاثہ جات میں 60.8 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ دستاویز کے مطابق پاور سیکٹر پی ایس او کا سب سے بڑا نادہندہ ہے جیسا کہ اسے ادارے کے 208.7 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ دستاویز کے مطابق پی آئی اے کو بھی 18 ارب روپے پی ایس او کو ادا کرنے ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے قیمت میں فرق کے دعووں کی مد میں ادارے کو 9.6 ارب روپے دئیے جانے کی بھی ضرورت ہے اور مالی بحران کا سامنا کرنے والے ادارے کو ایکسچینج ریٹ کی مد میں 20.5 ارب روپے بھی ادا کئے جانے ہیں۔ تاہم پی ایس او کی ریفائنریوں کو واجب الادا رقم اور اعتبار نامہ (letters of credit)، کویت پٹرولیم کمپنی کی مد میں اور اسٹینڈ بائی اعتبار نامہ اور ایل این جی ادائیگی 62.8 ارب روپے تک بڑھ گئی ہے۔ دستاویز میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ پی ایس او کو پاک عرب ریفائنری کمپنی (پارکو) کو 5.8 ارب روپے، پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) کو 2.5 ارب روپے، نیشنل ریفائنری لمیٹڈ (این آر ایل) کو 1.1 ارب روپے، اٹک ریفائنری لمیٹڈ (اے آر ایل) کو 4.1 ارب روپے، بائیکو کو 1.2 ارب روپے اور ای این اے آر کو 1.5 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
تازہ ترین