• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
یورپی یونین کے الیکشن کل 23 مئی کو شیڈول کیے گئے ہیںجن میں برطانیہ کو اب بامر مجبوری حصہ لینا پڑ رہا ہے کیونکہ بریگزٹ سے جڑے امور اتنے گنجلک ثابت ہوئے کہ پارلیمنٹ ایک بند گلی میں محصور ہو کر رہ گئی ڈیل یا نو ڈیل پر معاملات اتنے الجھ کر رہ گئے کہ پارلیمنٹ کسی نتیجہ پر پہنچ نہ پائی اور پھر یورپی یونین کے الیکشن سر پر آگئے جن سے بچنے کی کوئی صورت نہیں بن سکی اب چاہے برطانوی ممبران ای یو کی مدت کے حوالےسے غیر یقینی فضا قائم رہے گی مگر ان میں حصہ لینا ناگزیر ہوگیا ہے۔ بریگزٹ پر ابہام برقرار رہنے کے باعث اور دو بڑی جماعتوں کی شیرازی بندی کی طرف رخ کرتے ہوئے حالات میں سیاسی قائدین بس حالات کے بہاؤ میں بہے جا رہے ہیں جن کی کوئی منزل متعین نہیںجن کے سامنے اپنے اہداف ہی واضح نہیں اس بے سمتی سیاست کو اور برطانیہ آج سیاسی طور پر جس بحران سے دوچار ہے ۔دی ٹائمز نے پیر 20 مئی کو The Road to Nowhere کے عنوان سے اپنے مین اداریئے میں ایک بے سمت سڑک، ایک ایسا رستہ جس کی کوئی منزل نہ ہو سے تشبیہ دی ہے یعنی یہ سیاسی گتھی سلجھ نہیں رہی ۔ ایک مسئلہ جس کے حل کا کوئی پراسپییکٹ آف ڈویلپمنٹ نہیں، ایک ایسا کورس آف ایکشن، پراجیکٹ ، جو کوئی بامقصد با معنی نتیجہ نہ دکھا سکے کنزرویٹیو پارٹی جو ماضی میں سیاسی کامیابیوں کی درخشاں مثالیں رکھتی ہے اب اپنا وہ سٹیٹس یورپ کے جو چھائے ہوئے بادل ہیں ان کے باعث کھو بیٹھی ہے۔ کنزرویٹیو کو حکومت کرنے پر ناز ہوتا تھا مگر اب یہ پولیٹیکل پاور برقرار رکھنے کے لیے درکارعقل سلیم ، سیاسی بصیرت اورحجم سےمحروم دکھائی دیتی ہے اور ٹوریز جیسا کہ اسی پارٹی کے سابق ڈپٹی پرائم منسٹر لارڈ ہیسل ٹائن نے نشاندہی کی ہے کہ یہ پارٹی اب انتہاپسندی کے وائرلیس سے متاثر ہو چکی ہے اور اصل مسئلہ یہی ہے۔ باالفاظ دیگر جب ملک پر حکمران جماعت کی سیاسی اصابت پر سوالیہ نشان لگ جائے تو الجھے ہوئے معاملات جیسا کہ بریگزٹ ایشو ہے یہ معاملہ آخر کیسے کنارے پر لگ سکتا ہے۔ یہ امر نہایت تعجب خیزگردانا گیا ہے کہ وہ لوگ جو لائف لانگ یوروسکیپٹک مجھے جاتے تھےجنہوں نے کئی دہائیاں یہ مطالبات پیش کرتے بسر کیے کہ برطانیہ لازمی طور پر یورپ سے باہر نکلے وہی اگر بعد میں ایک ایسے بل پر دستخط کرنے سے انکاری ہوں جو ان کے مقصد کو پورا کرتا ہو ۔ تو پھر حیرت تو ہوگی ۔ کنزرویٹیو پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کی ایک قابل ذکر اقلیت نے اپنے آپ کو یہ قائل کرلیا ہے کہ ای یو کو ایک انخلاء کی ڈیل کے بغیر چھوڑنا پسندیدہ عمل ہو سکتا ہے یہ وہی پارلیمنٹیرین ہیں جو ابھی کچھ عرصہ قبل تک مختلف خیالات رکھتے تھے۔ جبکہ بلاشبہ بغیر کسی معاہدہ کو ای یو چھوڑنا معاشی طور پر کئی نقصانات کا باعث بن سکتا ہے سیاسی اعتبار سے بھی ایک ڈیل کی غیر موجودگی کے نتائج خاصے ضرر رساں ہو سکتے ہیں ۔ یہ واضح ہے کہ پارلیمنٹ میں اس آپشن کے لیے اکثریت نہیں پائی جاتی کوئی بھی مستقبل کا وزیراعظم جسے اس بنیاد پر انخلاء کرنا پڑے جب برطانوی ممبرشپ اکتوبر کے آخر میں ایکسپائر ہوجائے گی پارلیمنٹ کو پھر اکسایا جائے گا کہ وہ پھر اس معاملہ کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کرے یہ آئینی بحران پیدا کردے گا۔ اور ماسوا جنرل الیکشن یا سیکنڈ ریفرنڈم کے معلوم نہیں کہ اس بحران پر قابو پانا ممکن ہو گا۔ یہ وہ اصل سٹینڈ آف ہے جس جانب یہ ٹوری پارٹی ملک کو لے جانے کی طرف گامزن ہے اور اب جبکہ تھریسا مے نے یہ کنفرم کر دیا ہے کہ ان کی رخصتگی میں تھوڑا عرصہ ہی رہ گیا ہے اگر یہ فرض کیا جائے کہ 3 جون کو ان کی ڈیل پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہو پاتی ، ٹوری لیڈر شپ کے امیدوار اپنا اپنا پراسپییکٹس آفرکر رہے ہیں تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف وہی امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہوگا جو بریگزٹ کا بہتر حل پیش کر پائے گا۔ اور یہیں سے اصل ٹربل کی شروعات ہوں گی کیسے ؟ جیسا کہ ہفتہ کے روز دی ٹائمز کے لیے ایک پول میں بورس جانسن کےلیے 39 فیصد حمایت پائی گئی جو بھاری اکثریت تھی صرف ایک اور امیدوار جس کی حمایت ڈبل فیگرز تھی وہ تھے سابق بریگزٹ سیکرٹری ڈسمینک راب۔ اب جبکہ جانسن کی حمایت واضح ہے ان کے وزیراعظم بننے کے جہاں امکانات زیادہ ہیں وہاں دی ٹائمز کی ایک کالم نگار کے مشاہدات سے اس بابت یہ روشنی پڑتی ہے کہ تھریسا مے کے جانے کے بعد اگر بورس جانسن وزیراعظم بنے تو اس سے برطانیہ کے حصے بخرے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ان سے سکاٹش ناراض ہیں۔ اسی طرف سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ کہ بورس کے وزیراعظم بننےپر تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ یہ فیصلہ سکاٹ لینڈ میں بہت سے لوگوں کو ناخوش کردے گا ان کی خیالات سکاٹش ٹوری لیڈر شئیر کرتی ہیں ۔ انہوں نے ای یو ریفرنڈم کمپئین کے دوران بورس اور دیگر ای یو چھوڑنے کے حمایتی لیڈروں پر غلط بیانی کے الزامات لگائے تھے جبکہ سکاٹش ووٹروں میں مسٹر جانسن کی اپروول ریٹنگ مائنس چالیس ہے دوسری طرف تھریسا مے کی ریٹنگ مقابلتا” پلس چالیس ہے اور کنزرویٹو کی رتھ ڈیوڈ سن کی پلس اسی ہے۔جو سکاٹش کنزرویٹیو کی سابق ڈائریکٹر آف کمیونی کیشنز ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں بورس کی پرکشش شخصیت اپنے چارم نہیں دکھا سکی اور ای یو ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ میں ای یو کے ساتھ رہنے کے حق میں باسٹھ فیصد ووٹ پڑے تھے۔
ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تھریسا مے اپنی کابینہ سے مزید رعایت دینے کے لیے کہیں گی تاکہ اپنی ڈیل کو زندہ رکھنے کے لیے وہ لیبر پارٹی سے ایک آخری کوشش کر سکیں اس رعایت میں ملازمتوں کے حقوق ، گرین قوانین اور اگلے الیکشن تک ممکنہ طور پر ایک آپشن برطانیہ کا ای یو کے ساتھ کسٹم یونین میں رہنا شامل ہیں لیکن یہ خدشات ہیں کہ اس طرح کے کسی اقدام پر کیبنٹ کے اندر بریگزٹ کے حمایتی خفا نہ ہو جائیں ۔ منگل 21 مئی یعنی گزشتہ روز کے دی ٹائمز نے لکھا ہے کہ ایک سورس نے انکشاف کیا ہے کہ گورنمنٹ مستعفی ہونے کے لیے تیار تھی سنئیر کنزرویٹیو ذرائع کو یقین ہے کہ سیکنڈ ریڈنگ پر مسٹر کوربن کو انخلاء کے معاہدے کی حمایت یا غیر جانبدار رہنے کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے بالخصوص اگر لیبر جمعرات کے ای یو الیکشن میں ناقص پرفارمنس دکھاتی ہے جبکہ جیرمی کوربن کے ایک فرنٹ بینچر نے کہا ہے کہ بریگزٹ مسئلہ کا زیادہ امکانی حل دوسرے ریفرنڈم ہے ۔ شیڈو ہیلتھ سیکرٹری جوناتھن ایش وارتھ کے حوالے رپورٹ کیا گیا ہے کہ ایک فریش ووٹ کا بہت امکان ہے ۔ بی بی سی پروگرام پالیٹیکس لائیو میں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پارلیمنٹ ڈیڈ لاک کا شکار ہے اس لیے دوسرے ریفرنڈم کے امکانات ہیں ۔ ٹوریز کے ایم پیز کو یہ سمجھنا ہوگا کہ حتی کہ بورس جانسن بھی کیوں نہ وزیراعظم بن جائیں پارلیمنٹ نے نو ڈیل کو رول آوٹ ، خارج از امکان قرار دیا ہوا ہے اور پارلیمنٹ کے تعطل کو توڑنے کے لیے کسی چیز کا وقوع ہونا ضروری ہے اگر ٹوریز ملک کو ایک عام الیکشن دینے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی سیٹوں کے متعلق نروس ہیں اس لیے شاید وہ نئے الیکشن نہ کرائیں سو اس صورت حال میں ایک ریفرنڈم کا بہت امکان ہے سو اوپر بالا صورت حال واضح کرتی ہے کہ مِلک پر جو پارٹی حکمران ہے اس سے سیاسی معاملات میں امکانات در امکانات کے کھیل کو فروغ مل رہا ہے اور ملک ابہامی کیفیت سے دوچار ہے۔
تازہ ترین