• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ دانوں نے آج تک مذہبی طبقے کو اس بات پر معاف نہیں کیا کہ جب تاتاری فوجیں مسلم ریاست کے دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی تھیں تو بغداد میں مفتیان کرام کو ّے کی حلت و حرمت اور آمین بالجہر اور رفع یدین کی بحثوں میں الجھے تھے مگر ان دنوں ہمارے ہاں صورتحال کیا ہے؟ بغداد سے ملتی جلتی یا بدتر؟
ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کی اطلاع کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں حکام نے مقامی شہریوں کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بم پروف گھر،ٹائلٹس بنانے کے ساتھ دو ہفتوں کا پانی، کھانے پینے کی اشیاء، موم بتیاں، آپرٹیڈ لائٹس اور ریڈیو وغیرہ رکھ لیں، چھوٹا گھر ہے تو باہر یہ انتظام کریں اور گھروں میں تعفن پھیلنے کے باوجود باہر ہرگز نہ نکلیں۔
کنٹرول لائن پر حالیہ پاک بھارت فوجی جھڑپیں، ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سلمان خورشید کے بیانات، وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کی طرف سے بی جے پی اور راشٹر یہ سوک سنگھ کی دہشت گردی اور تربیتی کیمپوں کا انکشاف اور کراچی و بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو اگر ایک دوسرے سے ملا کر دیکھا جائے تو کئی برس قبل 2000ء میں واشنگٹن پوسٹ، آؤٹ لک اور امریکی پالیسی دستاویز 2025ء میں شائع ہونے والی بعض رپورٹوں بلکہ پیش گوئیوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
بھارتی جریدے ”آؤٹ لک“ کی طویل سٹوری کا ایک اقتباس یہ تھا ”حکومت پاکستان کو اسلام پسندجہادیوں پر کوئی کنٹرول نہیں رہے گا جو ملک پر اختیار حاصل کرکے کشمیر میں داخل ہونے کی کوششیں کریں گے“…… ”بھارتی فوجیں موجودہ لائن آف کنٹرول کو پار کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں داخل ہوجائیں گی”، ”یہ خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہ پاکستان پہلے حملے (First Strike)کا آپشن استعمال کرسکتا ہے۔ بھارت اس کے ایٹمی اثاثوں اور حساس تنصیبات کو روائتی ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کی کوشش کرے گا مگر کامیاب نہ ہوگا۔ بدے میں جیو یا مرو کی صورتحال کا شکار پاکستان اپنے سے زیادہ بڑی حملہ آور بھارتی افواج پر ”پہلے حملہ“ کرنے پر مجبور ہوگا“ اس سٹوری میں امریکہ کے دوہرے کردار اور پاکستان کی بلقانائزیشن کی نقشہ کشی کی گئی ہے اور آزاد بلوچستان، پختونستان، متحدہ کشمیر اور متحدہ پنجاب کے قیام کا تذکرہ ہے۔
اس مرحلہ پر جبکہ پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات جاری تھے، دونوں ممالک ایک دوسرے کو تجارت کے لئے موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینے اور دوستی کے نئے سفر کا آغاز کرنے میں مصروف تھے پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی بلیو بک تبدیل کرکے مشرقی سرحد کو کم و بیش دوستانہ، ڈیکلیئر کر دیا، معمولی سرحدی جھڑپ پر تعلقات میں سنگین گڑ بڑ، اپنی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کے بجائے حافظ سعید کے خلاف پروپیگنڈے، لائن آف کنٹرول سے عالمی فوجی مبصر مشن ہٹانے کا مطالبہ اور مقبوضہ کشمیر میں ممکنہ ایٹمی جنگ کے بارے میں ایڈوائزری کا اجراء معمولی واقعات نہیں اور بعض سنجیدہ سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ ایڈوائزری حکام اپنے طور پر جاری نہیں کرسکتے۔
کیا بھارتی وزیر داخلہ شندے اپنی قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ ایک دہشت گرد تنظیم بی جے پی انتخابات جیت کر اقتدار میں آنے والی ہے جو اعتماد سازی کے موجودہ اقدامات کو ختم کرکے پاکستان سے براہ راست محاذ آرائی کا آغاز کرے گی؟ کیا بھارت نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر 1970ء کی طرح کسی ایسی جنگی کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے جو بالآخر ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتی ہے؟ کیا میدان جنگ مقبوضہ اور آزاد کشمیر ہوگا اور پاکستان First Strikeکی آپشن مقبوضہ کشمیر میں استعمال کرے گا؟ بھارت کی ”کولڈ سٹارٹ“ ڈاکٹرائن کو آزمانے کے لئے یہ بہترین وقت ہے کیونکہ پاک فوج مشرقی سرحد کو محفوظ سمجھ کر ساری توجہ بلوچستان، کراچی اور خیبر پختونخوا کے علاوہ فاٹا پر دے رہی ہے؟ اور کیا امریکہ نے بھارت کو این او سی جاری کر دیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔
برصغیر میں جنگی جنون پیدا کرنا کسی کے مفاد میں نہیں مگر ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ایک ایسی ریاست کے باشندوں بالخصوص حکمرانوں، سیاستدانوں اور دفاعی ماہرین کی مجبوری ہے جو ایک بار دو لخت ہوچکی اور یہ اندرون و بیرون ملک اس کے یوگو سلاویہ کے حشر سے دوچار ہونے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں، پنجاب کی تقسیم، ہزارہ، مہاجر و پشتون صوبے کے شوشے چھوڑے جار ہے ہیں اور حد سے زیادہ بدعنوان، بری گورننس ریاستی اداروں کی تباہی عوامی مسائل و مشکلات سے حکمران اشرافیہ کی قطعی بے نیازی، سیاسی، سماجی، معاشی اور انتخابی اصلاحات سے گریز اور کرپٹ حکومتی اشرافیہ کو ہر صورت میں ریاستی اقتدار اور وسائل پر مسلط رکھنے کی ضد کی وجہ سے 95فیصد عوام میں پائی جانے والی مایوسی و بے یقینی انارکی میں تبدیل ہو رہی ہے مگر کسی کو اس کا احساس نہیں۔
بغداد میں تاتاری داخل ہوئے تو کو ّے کی حلت و حرمت پر بحث زور شور سے جاری تھی۔ آج کل پاکستان سنگین داخلی بحران اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے تو ہر جگہ موضوع بحث ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا ہے یا پھر نگران حکومت میں شامل لوگوں کا نام و نسب، انتخابی نتائج اور اشرافیہ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے سیاسی قوتوں کا کامیاب گٹھ جوڑ، دہشت گردی سے نمٹنا، سرحدوں کا دفاع اور جمہوریت کی حفاظت یہ صرف فوج کا سردرد ہے وہی دیکھے کہ بھارت کے عزائم کیا ہیں اور امریکہ کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ جو آئے ہی حلوہ کھانے کے لئے ہیں ان کی بلا سے بوم بسے یا شما رہے مگر قوم کے سنجیدہ فکر لوگوں کو کشمیری حکام کی ایڈوائزری پر تشویش ہے یہ بلاوجہ نہیں پاکستان میں جاری ہوتی تو اب تک یو این سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا جاتا مگر ہم؟
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!
تازہ ترین