• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں کئی دہائیوں سے مسلسل کمزور ہی رہا ہے لیکن آج کل یہ خبریں ایک بار پھر عام ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت شدید دباؤ میں ہے۔ نہ صرف امپورٹڈ اشیا بلکہ پاکستان میں پیدا ہونے والی اجناس اور مقامی تیارکردہ اشیا بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ کم آمدنی والے افراد ہی نہیں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اپنے لازمی گھریلو اخراجات پورے کرنے میں بہت دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ رہا امیر طبقہ تو اس پر مہنگائی کا کوئی اثرنہیں پڑتا البتہ بازار کی مندی انہیں کاروباری تشویش میں مبتلا ضرور کردیتی ہے۔ اس تشویش کا ایک اثر بعض لوگوں پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی دولت کو پیداوری یونٹوں سے نکال کر ڈالر یا سونا خریدنے یا رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کردیتے ہیں۔ اس عمل کا ایک نتیجہ جائیداد کی قیمتوں میں بہت تیزی سے اضافے کی شکل میں نکلتا ہے۔ کچھ امیر لوگ پاکستانی روپے سے ڈالر یا کوئی اور غیرملکی کرنسی خرید کر اپنی دولت پاکستان سے باہر بھجوادیتے ہیں۔ اس طرح مارکیٹ میں روپے (یا زر) کی گردش کم ہونے سے پہلے ریٹیل مارکیٹ میں اور پھر ہول سیل مارکیٹ میں لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی کئی اشیا کی خریداری کم ہوجاتی ہے ۔ کاروبار کے لازمی اخراجات کم نہیں ہوتے بلکہ اکثر اوقات ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ آمدنی اور اخراجات میںاس عدم توازن کا منفی طور پر سب سے پہلا اثر کئی اداروں میں تنخواہوں اور مراعات میں کمی کردینے اور چند یا زیادہ ملازمین کو برخاست کردینے کی شکل میں نکلتا ہے آج کل ہم اپنے وطن میں کئی افراد کو بوجوہ بے روزگار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک روزگار کے لئے مقیم پاکستانیوں خصوصاً مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی ملازمتوںکے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ زیادہ تر معاملات میں ایک ہی وجہ سامنے آرہی ہے اور وہ ہے اداروں کی آمدنی میں کمی۔ ان سب باتوں کے لئے مارکیٹ کی گہری سمجھ بوجھ، معاشیات میں پی ایچ ڈی یا بڑے مالیاتی اداروں میں برسوں کام کا تجربہ ضروری نہیں ہے۔ یہ بہت عام سی باتیں ہیں اور معیشت کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جاننے والوں کو بھی معلوم ہیں۔ ماہرین خصوصاً سرکار سے وابستہ ماہرین معیشت ان معاملات کو البتہ کچھ اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ عام لوگوں کی التجا یہ ہے کہ خزانہ، تجارت، پانی و بجلی کی وزارت، پلاننگ کمیشن آف پاکستان، قومی اقتصادی کونسل، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اکابرین سمیت پاکستان کی معیشت کے دیگر ذمہ داران ان معاملات کو کبھی عام آدمی کی نظر سے بھی دیکھ لیا کریں۔واضح رہے کہ مالیاتی دباؤ کچھ عرصے سے صرف پاکستان کو ہی درپیش نہیں ہے۔ پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں بھی حال کچھ اچھا نہیں ہے لیکن زیادہ تشویش ناک مسائل کا سامنا تیل کی دولت سے مالا مال کئی عرب ریاستوں کو ہے۔ بڑھتے ہوئے اخراجات کے مقابلے میں آمدنی کا میزان درست رکھنے کے لئے تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک میں پٹرول کی قیمت میں اندرون ملک اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی صارفین سے اب کئی اشیا پر سیلز ٹیکس بھی وصول کیا جارہا ہے۔ پاکستان اور کئی عرب ریاستوں کی جی ڈی پی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہ عرب ریاستیں امیر کہلاتی ہیں جبکہ پاکستان کا شمار کمزور معیشت والے ممالک میں ہوتا ہے اس کے باوجود عرب ریاستوں اور پاکستان کے حالیہ معاشی مسائل کی ایک وجہ مشترکہ بھی ہے۔ وہ ہے قومی ریونیو کے حصول میں اپنے برسرروزگار افراد کو شامل نہ کرنا اور لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اشیا کی قیمتیں مصنوعی طور پر کم رکھنا۔پاکستان میں حکومتوں نے ابتدا ہی سے عوام کو خوش کرنے اور ترقی کے دعوؤں کا بھرم رکھنے کے لئے ٹیکسز کا حقیقت پسندانہ نظام رائج کرنے کے بجائے غیر ملکی قرضوں اور امداد پر مسلسل انحصار کیا۔

پاکستان کو معاشی استحکام دینے کے لئے جس قومی بصیرت اور معاشی مہارت کی ضرورت ہے گزشتہ دہائیوں میں ہم ان سے کام نہ لے سکے۔ حالانکہ ہماری قوم میں ذہانت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں، بعض مذہبی عالموں، ذرائع ابلاغ خصوصاً اخبارات اور ٹی وی چینلز نے عوام میں مالیاتی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر نہیں کیا۔ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، مختلف اقسام کی ڈیوٹیز بہت کم ادا کرنا کئی لوگوں کے لئے ایک مہارت ہے جبکہ بعض لوگ ٹیکس بچانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر کئی اخبارات، ٹی وی چینلز عوام کو حقائق بتانے کے بجائے قیمت میں اس اضافے کو حکومت کی خراب کارکردگی کے طور پر نمایاں کرتے ہیں۔ یہی ذرائع ابلاغ اندرونِ ملک جائیداد کی تیز رفتاری سے بڑھتی قیمتوں، یا کئی امپورٹڈ اشیاکی زیادہ قیمتوں پر قارئین اور ناظرین کو بتاتے ہیں کہ فری مارکیٹ اکانومی میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے مقامی اثرات کو ہمارے ذرائع ابلاغ فری مارکیٹ اکانومی کے اثرات سے علیحدہ ہوکر دیکھتے ہیں۔

ملک کے سنجیدہ فکر اصحاب چاہتے ہیں کہ اہل سیاست ہوں ہا اہل صحافت پاکستان کے معاشی استحکام کیلئے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا ریٹنگ کو پیش نظر رکھنے کے بجائے ملک کے برسر روزگار افراد کو ان کے فرائض ادا کرنے پر راغب کریں۔ دنیا کے ترقی یافتہ کئی ملکوں میں بھی جہاں ٹیکسوں کی شرح اور وصول یابی بہت زیادہ ہے اب حکومتیں عوامی فلاح کے منصوبے کم کرتی جارہی ہیں۔

افواجِ پاکستان نے رضاکارانہ طور پر اپنے بجٹ میں کمی کا اعلان کر کے قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ میرے خیال میں پاکستان میں سب سے پہلے اراکین اسمبلی کو اپنی تنخواہوں اور مراعات میں رضاکارانہ کمی کرنی چاہئے۔ اس کے بعد صنعت، تجارت اور زراعت دوست مالی پالیسیوں کے ذریعے قومی اخراجات مقامی ذرائع سے پورے کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔ پاکستان کے حکمراں، سیاست دان بتائیں کہ بیش قیمت قدرتی وسائل اور بہترین افرادی قوت کے باوجود پاکستان آخر کب تک غیر ملکی قرضوں اور امداد پر انحصار کرتا رہے گا…؟

تازہ ترین