• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
توقع کے مطابق گزشتہ ہفتے ڈاکٹر طاہر القادری کا اسلام آباد لانگ مارچ کسی انقلابی نعرے کی بجائے ایک کمزور سے اعلامیے پر اختتام پذیر ہوا۔ یہ لانگ مارچ تشہیر کردہ انقلاب لانے میں تو بری طرح ناکام رہا لیکن اس سے کچھ سیاسی نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اگر اس کے مثبت پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کینیڈا میں کئی سال گزارنے کے بعد یکلخت پاکستان آئے، ایک خطیر رقم سے مربوط اشتہاری مہم چلائی اور پچاس ہزار سے زائد افراد کو لاہور سے اسلام آباد تک لے کر گئے اور سخت سردی میں انتہائی منظم طریقے سے پُرامن دھرنا دیا۔ ڈاکٹر قادری کی یہ بھی اہم کامیابی ہے کہ وہ اپنی سیاست کے ابتدائی دور میں تو بری طرح ناکام ہوئے لیکن اس دھرنے کے بعد ہر گھر میں اُن کا ذکر ہو رہا ہے۔ قادری صاحب اس بات پر بھی تحسین کے لائق ہیں کہ پاکستان کے ناقص انتخابی نظام ، جو نااہل، جاہل اور بدعنوان افراد کو منتخب ہونے سے نہیں روک سکتا، میں اصلاحات لانے کے لئے قوم کو جگا دیا۔اس لانگ مارچ کا منفی پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر قادری نے دفاعی اداروں اور عدلیہ کو بھی مستقبل میں بننے والے سیاسی ڈھانچے میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس سے ایک مرتبہ پھر ”اسٹیبلشمنٹ“ کی بازگشت سنائی دی اور خدشہ محسوس ہوا کہ ایک مرتبہ پھر عوام کے ووٹ سے انتقال ِ اقتدار کی راہ روکنے کے لئے سازش ہو رہی ہے۔ ان کے اصرار کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 62/اور63 کے تحت روایتی سیاست دانوں کو سیاسی عمل سے نکال باہر کرے، چاہے اس کے لئے انتخابات کو ایک دوسال کے لئے ملتوی کیوں نہ کرنا پڑے، نے ہمارے بدترین خدشات کی تصدیق کر دی۔ مزید یہ کہ ”پُرامن“ لانگ مارچ… جمہوریت عوام کو احتجاج کا حق دیتی ہے…پُرتشدد ہو سکتا تھا جب اُنہوں نے دھمکی دی کہ اگر اُن کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ پارلیمینٹ پر قبضہ کر لیں گے…جو کہ ایک غیر جمہوری اقدام ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں دوسری طرف سے بھی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا جبکہ غیر ریاستی عناصر اور دیگر ”ہم خیال“ سیاسی جماعتیں بھی اس میں کود سکتی تھیں۔ اس سے اسلام آباد میں ہونے والا خون خرابہ ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا تھا۔ اس صورتحال میں پی پی پی حکومت نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ نگران وزیر اعظم کی تقرری ، الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار کرنے اور آئین کے آرٹیکل 62/اور63 کو لاگو کرنے کے لئے اُن سے مشورہ کرے گی، قادری صاحب کو واپسی کا باعزت راستہ فراہم کر دیا تاہم جیسا کہ اپوزیشن رہنماؤں، غیر جانبدار وکلا اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے،یہ اعلامیہ کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ جب فیصلہ کرنے کا وقت آئے گا یہ حکومت اور اپوزیشن ہی ہیں جنہوں نے مل بیٹھ کر نگران حکومت کے پیمانے طے کرنے ہیں۔ یہ وہ وقت ہو گا جب قادری صاحب اکیلے یا عمران خان کے ساتھ مل کر ایک اور لانگ مارچ کا نعرہ مار سکتے ہیں۔ اس وقت دو اہم اور سنجیدہ نوعیت کے معاملات زیر غور ہیں پہلا آئین کے آرٹیکل62-63 کے تحت پانچ ہزار سے زائد انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔ یہ ایک کٹھن کام ہے کیونکہ اس عمل کے دوران اعتراضات، اپیلیں اور ان کے جوابات کے لئے خاطر خواہ وقت درکار ہے۔ ان مذکورہ آرٹیکلز کی زد میں وہ افراد آتے ہیں جن کا ”کردار“ خراب ہے اور وہ گناہ ِ کبیرہ کا ارتکاب کر چکے ہیں چنانچہ وہ ”صادق اور امین“ نہیں رہے۔ یہ آرٹیکلز ان افراد کو بھی انتخابی عمل سے روکتے ہیں جو بنک یا کسی اور مالیاتی ادارے کے بیس لاکھ یا اس سے زائد رقم کے ڈیفالٹر ہیں یا وہ نظریہ ِ پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں یا جن کے ذمہ کاغذات ِ نامزدگی فائل کرتے وقت گیس، پانی، بجلی یا ٹیلی فون کے دس ہزار سے زائد کے بل چھے ماہ سے واجب الادا ہیں یا اُنہوں نے خود یا اپنے اہل خانہ کے نام سے قرضہ لے کر معاف کرا لیا۔ میڈیا اس فہرست میں ٹیکس نادہندگان کے نام بھی شامل کرانا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ الیکشن کمیشن کو ایف بی آر، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، نجی مالیاتی اداروں، سرکاری محکموں، ماتحت عدالتوں وغیرہ کی معاونت حاصل کرنا پڑے گی تاکہ درکار معلومات حاصل کرتے ہوئے ”صادق اور امین“ افراد کی تصدیق کی جا سکے۔ یہ سب کچھ کہنا آسان لیکن کرنا مشکل ہے۔ ایمانداری سے پوچھیں تو پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی مل سکے جو ان شرائط پر پورا اترتا ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ جلد بازی میں کئے گئے کچھ فیصلے، کچھ تعصبات اور کچھ پسندیدگی سارے عمل کو بے اثر بنا کر رکھ دے گی۔ دوسرا دشوار معاملہ اس عقربی کام کے لئے الیکشن کمیشن کو دیا گیا وقت ہے، جو موجودہ اسمبلیوں کی تحلیل سے لے کر انتخابات تک کا ہے… تقریباً ساٹھ دن۔ اس مختصر سے وقت میں الیکشن کمیشن اس سارے گورکھ دھندے کو نہیں نمٹا سکتا جبکہ اس کے دروازے پر فائلوں، اپیلوں، اعتراضات وغیرہ کے پلندے کے پلندے پڑے ہوں۔ چیف الیکشن کمیشن نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ان کا محکمہ اگلے عام انتخابات سے پہلے کراچی کے چند انتخابی حلقوں کی نئی حلقہ بندیاں بھی نہیں کر سکتا۔ ذرا تصور کریں کہ مذکورہ بالا آرٹیکلز کے تحت امیدواروں کی چھان بین کتنا مشکل کام ہو گا اور ایسا کرنے یا صرف اس کی کوشش کرنے کے بھی کیسے مضمرات سامنے آئیں گے۔ ان مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ آئین میں درج طریقے کے تحت نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے اور الیکشن کمیشن کو مزید تقویت دے دی جائے تاکہ وہ انتظامیہ کو کنٹرول کر سکے۔ ایک مرتبہ جب انتخابی مرحلہ طے پاجائے اور نئی حکومت اقتدار میں آجائے تو احتساب کا عمل پھر عدالت اور میڈیا پر چھوڑ دیا جائے۔
تازہ ترین