• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جادو وہ ،جو سر چڑھ کر بولے‘‘ اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی بات، جس کااقرار مخالف بھی کریں، تو ضیاء محی الدّین ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ہے، جن کے ناقدین بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ پاکستان میںپرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں اس قد و قامت کا کوئی دوسرا فن کار موجود نہیں۔اداکاری، صدا کاری، ہدایت کاری،قلم کاری … متذکرہ شعبوں میں سے کون سا ضیاء محی الدین کے لیے اختصاصی حیثیت کا حامل ہے،یہ اندازہ لگانا دشوار ہے۔خوش لباسی پہچان،خوش بیانی شخصیت کی جان۔یہ بتانا بھی بے حد مشکل ہے کہ اس کرشمہ ساز شخصیت کی طلاقتِ لسانی کے جوہر اُردو میںزیادہ کُھلتے ہیں کہ انگریزی میں۔ضیاء محی الدّین کو یہ کمال بھی حاصل ہے کہ جب وہ گفتگو کر رہے ہوں، تو سامع بیرونی دنیا سے اپنا رشتہ منقطع کر کے فقط اور فقط اُنہیں سننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔صوتی اثرات کے ذریعے سامعین کے دلوں کو چھو لینے کا فن کوئی ضیاء محی الدّین سے سیکھے۔سادہ الفاظ اُن کے ہونٹوں سے نکل کر پُر پیچ اور سحر کار بن جاتے ہیں، جب وہ شہرۂ آفاق تخلیق کار،شیکسپیئرکے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں ، تو سننے والا سحر زدہ سا بیٹھا اُنہیں سنتا ہی رہتا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ شیکسپیئر کے لافانی کرداروں کو اپنے وقت کا ایک اور لافانی انسان یوں بیان کر رہا ہے کہ ہر کردار اپنے پورے پس منظر کے ساتھ واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔مہارت ایسی کہ خود برطانوی تنقید نگار اپنے اداکاروں کو تلقین کریں کہ اگر شیکسپیئر کی نثر کو صحیح تلفّظ کے ساتھ ادا کرنا ہو ،تو ضیاء محی الدّین سے تربیت حاصل کرو۔ اُردو ادب کے شہرۂ آفاق ادیبوں اور شاعروں کے کلام کو اپنے حُسنِ کلام سے دوام عطا کرنے والے اپنے انداز کے اس یکتا فن کار کی زندگی ایک مسلسل ارتقا کا نام ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ ضیاء محی الدّین اور پرفارمنگ آرٹ’’ لازم و ملزوم‘‘ ہیں۔

ضیاء محی الدّین 20 جون1933 کولائل پور،(موجودہ فیصل آباد)پنجاب میں پیدا ہوئے۔ تقسیم سے قبل کا لائل پور ہندو آبادی کی اکثریت رکھتا تھا۔آبا ؤ اجداد روہتک(موجودہ ہریانہ)،مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ والد، خادم محی الدّین غیر منقسم ہندوستان میں تھیٹر کیا کرتے۔ اُس زمانے میں تھیٹر ہی اظہار کا سب سے موثّر ذریعہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ وہ اپنے ادبی ذوق کی وجہ سے کبھی کبھار شاعری بھی کر لیا کرتے،جو فلمی شاعری ہی تک محدود رہتی۔اس کے ساتھ کلاسیکی موسیقی کا ذوق بھی بلندیوں کو پہنچا ہواتھااورانگریزی ادب سے دل چسپی ایک الگ میدان تھا۔ یوں باپ سے تھیٹر ،موسیقی،ادب اور اداکاری کا شوق ضیاء محی الدّین نے وَرثے میں پایا۔ضیاء صاحب کی ابتدائی عُمر قصور اور لاہور میں بسر ہوئی۔اسکول اور کالج کے زمانے میں تقریری مقابلوں میں بھی خوب حصّہ لیاکرتے۔ گورنمنٹ کالج، لاہور سے تعلیم حاصل کی۔آواز اچھی تھی،لہٰذا سوچا کہ ریڈیو پر قسمت آزمائی جائے، کام یابی نصیب ہوئی ،یوں ریڈیو پر کام شروع کر دیا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ریڈیو، آسٹریلیا سے پیش کش ہوئی ، یوں اُس سے وابستگی اختیار کر لی۔ اداکاری سے شغف جب بڑھتا ہی چلا گیا ،تو پچاس کی دَہائی کے اوّلین وسط (1953 ء)میںاداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے لیےبرطانیہ کی ’’رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس‘‘ میں داخلہ لے لیا، جہاں انہوں نے1953ء - 1956ء تک تربیت حاصل کی اور اس معتبر و بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے سے وابستہ رہے۔ 1957 ء میںانہوں نے دو اسٹیج ڈرامے ’’Long Day's Journey Into Night‘‘اور ’’Julius Caesar ‘‘ کیے ،جن کے ذریعے ضیاء محی الدّین نے آرٹ اور فلم کی بین الاقوامی دنیا میں قدم رکھاکہ جہاں فقط اور فقط غیر معمولی صلاحیت رکھنے والا فن کار ہی اپنی جگہ برقرار رکھ سکتا تھا۔یہ پچاس کا نصف عشرہ تھا کہ جب امیر احمد خان،المعروف ’’راجا صاحب محمود آباد‘‘ لندن جا بسے ، وہیں ایک اورقلم کار،عطیہ حسین کا بھی قیام تھا۔عطیہ کے شوہر علی بہادرحبیب اللہ تقسیم ِہند سے قبل برطانیہ میں ’’انڈین ہائی کمیشن‘‘ سے وابستہ رہے اور تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئےتھے۔عطیہ کی قیام گاہ پر ضیاء محی الدّین کی راجا صاحب محمود آباد سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اُن دنوںعطیہ اور ضیاء محی الدّین، بی بی سی اُردو سروس سے نشر کیے جانے والے ڈراموں کے مستقل کردار تھے۔ ضیاء محی الدّین کو راجا صاحب کی شستہ و شائستہ گفتگو، آواز اور لب و لہجے نے بے انتہا متاثرکیا اور اُن کی صحبتوں نے اُن کے اندر بھی اُردو زبان سے عشق کا ایسا بیج بو یا، جو آگے چل کر ایک ثمر بار شجر میں تبدیل ہو گیا۔یوں اُردوسے ضیاء محی الدّین کی اُلفت کا ایک سبب راجا صاحب محمود آباد کی ہستی بھی ثابت ہوئی ۔ برطانیہ ضیاء محی الدّین کو خوب راس آیا۔ تھیٹر،فلم ،ٹی وی، ساز و آواز کی دنیا کے لوگ،غرض سیکھنے کو بہت کچھ تھا،مگر شرط صرف یہ تھی کہ کوئی سیکھنے والا جنونی ہونا چاہیے،سو ضیاء محی الدّین ایسے ہی جنونی ثابت ہوئے۔اُن کی ابتدائی زندگی ہی سے اُن پراثر انداز ہونے والے، داؤد رہبر اُن کے کزن تھے۔ غیر معمولی صلاحیت کے حامل داؤد رہبر عربی، فارسی، انگریزی اوراُردوزبانوں پر دسترس رکھنے کے ساتھ کلاسیکی ادب، ادیان کے تقابلی مطالعے جیسے موضوعات پر بھی سند سمجھے جاتے تھے۔عقل و دانش سے آراستہ و پیراستہ داؤد رہبر کے والد بھی کمال درجہ عالم تھے، علّامہ محمّد اقبالؔ کے نام سے متاثر داؤد رہبر کے والد کا نام بھی محمّد اقبال تھا ،بلکہ سچ بات تو یہ تھی کہ یہ اقبالؔ کی تاسی ہی میں رکھا گیا نام تھا اور اس حد تک اُن کے لیے ’’اقبال مندی‘‘ کا باعث ہوا کہ وہ نہ صرف اپنے شعبے میں اختصاصی حیثیت کے حامل ٹہرے ،بلکہ ایم اے، عربی کے علاوہ کیمبرج یونی ورسٹی سے اسکالر شپ کے حق دار بھی قرار پائے۔یہی علم و دانش کی میراث اُن کے بیٹے داؤد رہبر میں منتقل ہوئی۔ آگے چل کر انہوں نے ضیاء صاحب کی رہبری کی ،غالبؔ کی نثر کو آواز کا پیرہن عطا کرنے میں ضیاء محی الدّین کی رہنمائی کا فریضہ ڈاکٹر داؤد رہبر جیسے دانش وَر اور صاحبِ علم آدمی ہی نے انجام دیا۔

ساٹھ کا عشرہ شروع ہوا، تو ضیاء محی الدّین کے لیے تین سوغاتیںمنتظر تھیں،’’ شناخت،کام یابی اورپیسا۔‘‘ ایک اجنبی سرزمین پر اتنا کچھ حاصل کر لینا سرشاری کی کیفیت میں مبتلا کرنے کے مترادف تھا،سو یہ بھی ہوا،مگر ضیاء محی الدّین نے سرشاری کے ساتھ سمجھ داری کو بھی ہم رکاب رکھا۔ ہالی وُڈ کی مشہور تاریخی فلم ’’Lawrence of Arabia ‘‘1962 ء میں سامنے آئی، جس میں ضیاء محی الدّین نے فلم کے مرکزی کردار Peter O’Toole’s Lawrence کے گائیڈ ’’Tafa‘‘کا کردار ادا کیا۔ مصری اداکار عمر شریف بھی فلم کا حصّہ تھے۔اس فلم کے ڈائریکٹر ،ڈیوڈ لین کی ہدایت کارانہ مہارت نے اُنہیں اس حد تک متاثرکیا کہ وہ لین کو اُن ہدایت کاروں میں سب سے بلند مقام دینے لگے کہ جن کے ساتھ انہوں نے کام کیا۔1965 ء میں بی بی سی کے لیے ’’ A Passage to India (play)‘‘کے عنوان سے ایک ڈراما بنایا گیا،جس میںضیاء محی الدّین نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کیا،جسے بہت سراہا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب بھارتی اور پاکستانی اداکاروں کو ہالی وُڈ میں کسی توجّہ کا مستحق نہ گردانا جاتا تھا۔ تاہم، یہ ضیاء صاحب کی مضبوط شخصیت ہی تھی کہ ہالی وُڈ کے ہدایت کار اُنہیں کرداروں کے لیے منتخب کرنے لگے۔ساٹھ ہی کے عشرے میں انہوں نے اور بھی بہت سے ڈراموں اورہالی وُڈ فلموں میں کام کیا، مگر اس عشرے کے اختتام پر وہ اپنے وطن واپس چلے آئے۔

1969ء میں انہوں نےپاکستان ٹیلی وژن پر ’’ضیاء محی الدّین شو‘‘ کے نام سے ایک ’’بلاک بسٹر‘‘ٹاک شو کیا، جس نےستّر کے عشرے میں دھوم مچا دی۔ ان کے منفرد انداز اور لب و لہجے کے باعث شو، راتوں رات مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ ضیاء محی الدین اپنے شو میں فنونِ لطیفہ سے وابستہ شخصیات کو مدعو کرتے اور ہلکے پھلکے پیرائے میں اُن سے دل چسپ گفتگو کرتے، بسا اوقات یوں بھی ہوتا کہ گفتگو میں کچھ بے باکی کا عُنصر بھی شامل ہو جاتا،یوں حاضرین اور ناظرین دونوں ہی خُوب محظوظ ہوتے۔ تاہم ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لاہور سے شایع ہونے والے ایک روزنامے نے ضیاء محی الدّین اور پروگرام کے خلاف مہم چلائی۔یہی نہیں،ایک دینی جماعت نے بھی اس سلسلے میں خاصا شور شرابا کیا۔ تاہم،ضیاء صاحب کی شخصیت پر ان ناموافق اُمور کا مُطلق اثر نہ ہوا۔بات وہاں سے خراب ہونا شروع ہوئی، جب اُن سے کہا جانے لگا کہ آپ اپنے شو میں بلائے جانے والے مہمانوں کے سلسلے میں اجازت طلب کیا کریں۔جب اوپر سے مداخلت کا سلسلہ بڑھنے لگا اور ضیاء محی الدّین کو یہ احساس ہو چلا کہ اب پروگرام پر بھرپور انداز میں قینچی چلائی جائے گی، تو اُنہوں نے شو کی میزبانی سے معذرت کر لی۔ یہ وہی دَور تھا،جب وہ وہ ٹی وی پر کام کر رہے تھے۔اُس زمانے میں بہت سے قدامت پسند گھرانے اور افراد ایسے بھی تھے، جو ٹی وی پر کام کرنے کو معیوب سمجھا کرتےتھے۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ ضیاء محی الدّین لاہور میں ایک بس میں سوار ہوئے، اتفاقاً اُن کے والد کے دوست بھی اُسی بس میں موجود تھے۔ انہوں نے ضیاء صاحب سے دریافت کیا کہ’’ تم آج کل کیا کام کر رہے ہو؟‘‘ضیاء محی الدّین کا جواب تھا،’’اداکاری‘‘۔ یہ سُن کر انہوں نے کہا کہ’’مَیں تمہارے والد کو بتاؤں گاکہ تم کیا کر رہے ہو۔ وہ تو ایک شریف آدمی ہیں۔‘‘ستّر ہی کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو کےدَورِ حکومت میںضیاء صاحب کو ’’پی آئی اے آرٹس اکیڈمی‘‘ کاڈائریکٹر بنایا گیا۔رقص میں کمال رکھنے والی ، ناہید صدّیقی سے اُن کی ملاقات یہیں ہوئی تھی۔ وہ اکیڈمی میں مستقل طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں اورکچھ وقت بعد یہی ناہید اُن کی اہلیہ بن گئیں۔ناہیدصدّیقی نے اس فن کواگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے رقص کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

انیس سو اسّی کا وسط تھا،ضیاء صاحب لندن کے ’’اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز‘‘ میں اُردو کے کلاسیکی نثر نگاروں سے متعلق کچھ بیان کر رہے تھے۔ سامعین میں ای ایم آئی ،پاکستان کے سربراہ ، منصور بخاری بھی شامل تھے۔ وہ ضیاء محی الدّین کے نثری لب و لہجے اور غیر معمولی گرفت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ضیاء صاحب سے درخواست کی کہ وہ فیضؔ کا کلام اُن کی آواز میں ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں، جسے البم کی صُورت ریلیز کیا جائے گا۔ ضیاء محی الدین نے بلا توقّف ہامی بھر لی۔ تاہم، اس اضافے کے ساتھ کہ اُنہیں غالبؔ کے خطوط بھی ریکارڈنگ کا حصّہ بنانا ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو جانا منصور بخاری کے لیے اور بھی زیادہ خوشی کی بات تھی۔یوں ضیاء محی الدّین کی آواز میں ادب نے دوام پانے کی ایک نئی راہ تلاش کی۔فیضؔ کی جس نظم سے ریکارڈنگ کا آغاز ہوا، وہ تھی ؎ رات یوں دل میں تِری کھوئی ہوئی یاد آئی…جیسے ویرانے میں چُپکے سے بہار آجائے …جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم…جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے ۔ البم کو ’’فیضؔ صاحب کی محبت میں ‘‘کا عنوان دیا گیا، جس نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔’’The Death of Princess ‘‘ایک برطانوی ٹیلی ویژن فلم تھی جو اسّی کی دَہائی میں اسکرین کی زینت بنی۔ا س کی کہانی کچھ یوں تھی کہ ’’ایک عرب شہزادی اپنے ماں باپ کی پسندکے بہ جائےاپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ماں باپ کی حکم عدولی پر دونوں کو عبرت کا نشان بنادیا گیا۔‘‘ خوف ناک نتائج پر مبنی اس فلم میں ضیاء محی الدّین نے بھی کام کیا تھا۔ فلم یوں متنازع ثابت ہوئی کہ اس سے سعودی عرب اور برطانیہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ خود ضیاء صاحب پربھی پاکستان میں اس حوالےسے سخت تنقید کی گئی ، یہاں تک کہ کچھ اخبارات نے اُنہیں اسلام دشمن اور پاکستان دشمن ہونے کی سند بھی عطا کر دی ۔

پرفارمنگ آرٹ اور ضیاء محی الدّین
ضیاء صاحب، بہ طور ڈاکٹر عزیز

ضیاء محی الدّین نے برطانیہ میں قیام کے دوران وہاں کے ایک بڑے ٹیلی ویژن کے لیے ’’Here and Now ‘‘کے عنوان سے کئی برس ایک ہفتہ وار پروگرام بھی پیش کیا۔ یہ پروگرام کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں تھا،مندرجات بہت وسیع اور متنوّع تھے۔مثال کے طور پر ایک پروگرام میں پنجاب کی مشہور لوک داستان ’’ہیر رانجھا‘‘ بھی پیش کی گئی۔برطانوی ناظرین کو اس حوالے سےپوری آگہی دینے کے لیے انگریزی ترجمے کا سہارا لیا گیا اور اسی کے ساتھ لوک داستان کے تصویری پہلو اُجاگر کرنے کے لیے ایک ایسے مغربی مصوّر کی خدمات حاصل کی گئیں،جو ایشیائی رومانی داستانوں سے اچھی طرح واقف تھا۔اسی طرح ایک پروگرام میں برطانیہ میں مقیم ویتنامی پناہ گزینوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی گئی۔ مذکورہ پروگرام کے علاوہ بھی وہ مختلف برطانوی چینلز سے وابستہ رہے۔ تاہم، انفرادیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اسی قسم کا ایک پروگرام ہالی وُڈ فلموں میں کام کرنے والے ’’بلیک آرٹسٹس ‘‘یا کالوں کے بارے میں تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک وہ بھی دَور تھا کہ جب کالے محض غلاموں یا مسخروں کے کردار میں پیش کیے جاتے، مگر آگے چل کر یہ تفریق ختم ہوئی اور وہ مرکزی کردار وں کی شکل اختیار کر گئے۔ خود ضیاء محی الدّین نے اداکاری میں ہر قسم کے کردار ادا کرنے کے بہ جائے محض اُن کرداروں کو ادا کرنے کی ہامی بھری،جن میں اُنہیں پرفارمینس کی گنجایش نظر آئی۔مثال کے طور پر انہوں نے بی بی سی سے پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے میں ایسے بنگالی درزی کا کردار ادا کیا، جو برطانیہ آ کر آباد ہو گیا تھا۔یہ خاموش پسند اور ڈرپوک درزی اپنی اولاد کو ہر وقت یہ نصیحت کرتا کہ کسی قضیے میں اُلجھنے سے ہمیشہ گُریز کرنا،

ورنہ مغرب میں گزاری جانے والی اچھی زندگی سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، حالات یوں پلٹا کھاتے ہیں کہ وہی درزی نسلی امتیاز کا نشانہ بن جاتا ہے اور پے درپے رونما ہونے والے واقعات ڈرپوک درزی کو ایک باغی کا رُوپ عطا کر دیتے ہیں،ایک ایسا باغی، جو ایک نسل پرست ٹھگ کی جان لینے سے بھی گُریز نہیں کرتا۔ ضیاء محی الدّین نے ہمیشہ ایسے کردار ادا کیے ، جن میں اُن کی انفرادیت برقرار رہی۔

پرفارمنگ آرٹ اور ضیاء محی الدّین
رچرڈ بریڈ فورڈ کے ساتھ

گزرتے وقت کے ساتھ اُنہیں شدّت سے اس بات کا احساس ہو رہاتھا کہ پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ کی باقاعدہ تربیت کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ یہی سوچ کر انہوں نے 2005ء میں کراچی میں ’’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ‘‘ یا’’ NAPA ‘‘کی بنیاد رکھی۔جس میں نوجوانوں کو ٖڈرامے،تھیٹر اور فنونِ لطیفہ کی دیگر شاخوں میں تربیت دینے کے لیے پختہ کار اور منجھے ہوئے ماہرین کی نگرانی میں کام کا آغاز کیا گیا۔ یہ پرفارمنگ آرٹ کی سرپرستی کے لیے ایک بڑے کام کی ابتدا تھی۔ قبل ازیں، وہ پاکستان ہی میں ’’Reader's Theatre ‘‘کی بھی بنیاد رکھ چکے تھے۔ متنوّ ع موضوعات پر کام کرنے والے ضیاء محی الدّین نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے محرّم الحرام کی مناسبت سے مرثیے بھی پڑھے۔ یہی نہیں،’’سفرِ کربلا ‘‘اور ’’سفرِ شام‘‘کے سلسلے میں بنائی گئی ڈاکیومینٹریزمیں اُن کی پسِ پردہ آواز کو بھی بے حد پسند کیا گیا اور آج بھی ایّامِ عزا میںاس پروگرام کی معرفت اُن کی آواز سنائی دے جاتی ہے۔عُمر کے پچّاسی برس گزار لینے والے ضیاء محی الدّین وطن سے دُور رہنے کے باوجودبھی وطن سے مکمل طور پیوستہ ہیں۔ بیرونِ ملک ثقافتی سطح پر انہیںغالباً پاکستان کا سب سے طاقت ور غیر سرکاری سفیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُن کی رگوں میں پاکستان دوڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان آنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔ تاہم، یہ ضرور ہے کہ وہ پاکستان میں ڈرامے ، رقص اور فنونِ لطیفہ کی دوسری شاخوں کے پھلنے پھولنے کے سلسلے میں بہت زیادہ اُمّیدافزا خیالات نہیں رکھتے۔ ضیاء محی الدّین کے مطابق ’’دراصل یہ سوچ کہ پرفارمنگ آرٹ کے شعبے سے منسلک ہونا نامناسب بات ہے،ہمارے یہاں اس شعبے کو بھرپور طور پرپنپنے نہیں دیتی ۔‘‘اپنی زندگی کا بیش ترحصّہ مغرب میں بسر کرنے والے ایک شخص کا اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی یک ساں طورپر جُڑے رہنا اور اُس کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کام کرنا، لائقِ صد تحسین ہے۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل اخبار ،خلیج ٹائمز کی ڈپٹی ایڈیٹر ،انامیکا چَیٹر جی کا کہنا ہے کہ ’’وہ لوگ بھی ضیاء محی الدّین کی خوش بیانی کے اسیر ہو جاتے ہیں،جو اُردو سے پوری طرح واقف نہیں اور دراصل یہی ضیاء محی الدّین کی آواز کا جادو اور شخصیت کااصل کمال ہے۔ ‘‘

پرفارمنگ آرٹ اور ضیاء محی الدّین
فلم ’’لارنس آف عریبیہ ‘‘کا ایک منظر

اُن کی کتابوں میں “A Carrot is a Carrot: Memories and Reflection” ،’’The God of My Idolatory ‘‘شامل ہیں۔ اداکاری یا صدا کاری میں تلفّظ پر سب سے زیادہ زور دینے والے ضیاء محی الدّین دراصل اپنے لب و لہجے اور الفاظ کی ممکنہ حد تک دُرست ادائیگی ہی سے سامنے والے پر اپنی شخصیت کا گہرا اثر قائم کرتے ہیں۔زندگی کو کام یابی سے گزارنے کا گُر جاننے کے لیے اُن کی کہانی ہر پڑھنے والے کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے۔اُن کی زندگی پر’’ Some Lover To Some Beloved ‘‘کے نام سے ایک ڈاکیومینٹری فلم بھی بنائی گئی ہے۔اُردو اور انگریزی،تحریری و زبانی ،نظم و نثر کا امتزاج اگرکسی ایک شخصیت میں پورے کمال کے ساتھ دیکھنا ہو ،تو ضیاء محی الدّین کی دنیا کا باشندہ بننا لازم ہے۔ یہ وہ دنیا ہو گی کہ جس کی خوب صُورتی اور رعنائی آپ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ مطالعے کو زندگی کا لازمی جزو اور مشاہدے کو ناگزیر عُنصر قرار دینے والے ضیاء محی الدّین نے تین شادیاں(سرور زمان،ناہید صدیقی اور عذراسے ) کیں،جن سے اُن کے چار بچّے ہیں۔

تازہ ترین