• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاندانی اور ملکی معاشی بہتری میں ترسیلاتِ زر کا کردار

اقوامِ متحدہ کی جانب سے 16جون کو انٹرنیشنل ڈے آف فیملی ریمیٹنسز (IDFR) منایا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد روزگار کی غرض سے بیرونِ ملک جانے والے افراد کے قابلِ ذکر مالیاتی کردار کو تسلیم کرنا ہے، جو وہ اپنے خاندان کی بہتری اور ملک کی پائیدار ترقی میں ادا کرتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا ایک اور مقصد سرکاری اور نجی شعبے کے علاوہ سول سوسائٹی کو ترسیلاتِ زر کی مد میں آنے والی رقوم کو بہتر انداز سے خرچ کرنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر راغب کرنا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آئی ڈی ایف آر کی قرارداد12جون 2018ء کو منظور کی۔ تاہم اس سے قبل جنوری 2015ء میں اقوامِ متحدہ کے انٹرنیشنل فنڈ فار ایگری کلچرل ڈیویلپمنٹ (IFAD)کے تمام 176رکن ممالک اس دن کی اتفاق رائے سے منظوری دے چکے تھے۔ انٹرنیشنل ڈے آف فیملی ریمیٹنسزمنانے کا مقصد نہ صرف تارکینِ وطن کی کوششوں کو تسلیم کرنا ہے بلکہ موجودہ شراکت داریوں کو مزید مضبوط بنانا اور مختلف شعبہ جات کے درمیان مطابقت پیدا کرکے عالمی سطح پر ترسیلاتِ زر کے ترقیاتی اثرات کو فروغ دینا بھی ہے۔

2015ء سے عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ نے تارکینِ وطن کے رجحانات پر خصوصی توجہ دینا شروع کی ہے، جس میں انسانی حقوق سے لے کر سیکیورٹی اور مزدوروں (Labor) کی نقل و حرکت شامل ہے۔

تارکینِ وطن کون ہیں؟

ایک ایسا شخص جو اپنے آباؤ اجداد کے ملک یا اپنی جائے پیدائش کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں رہائش پذیر ہوجائے اسے تارکِ وطن کہا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں مہاجرین اور پناہ گزین بین الاقوامی سرحدیں پار کرکے دوسرے ملکوں میں داخل ہورہے ہیں، جس کی وجوہات میں خانہ جنگی، نسل کشی، غربت اور دیگر جان لیوا صورتِ حال شامل ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ کسی زیادہ خوشحال ملک میں افرادی قوت یا ہنرمند افراد کی کمی کی صورتِ حال سے مالی فوائد حاصل کرنا بھی ہے۔اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق ایسے تارکینِ وطن کی تعداد دنیا بھر میں 25کروڑ 80لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، ان میں اکثریت یعنی 20کروڑ افراد معاشی تارکینِ وطن ہیں۔

پائیدار ترقی کا ایجنڈا 2030ء

25ستمبر 2015ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے پائیدار ترقی کے ایجنڈا 2030ء کی منظوری دی، جو آئندہ 15برسوں کے لیے زمین اور اس پر بسنے والے افراد کی خوشحالی کا احاطہ کرتا ہے۔ ایجنڈے میں پائیدار ترقی کے 17اہداف اور 169 معاون اہداف دیے گئے ہیں۔ ہدف نمبر 10.cکے مطابق، تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پر ترسیلاتی لاگت 3فیصد سے نیچے لانا اور 5فی صد سے زائد لاگت والے ترسیلاتی ذرائع کو ختم کرناہے۔ صرف یہی نہیں، ترسیلاتِ زر کئی اور طریقوں سے پائیدار ترقی کے دیگر اہداف کے حصول میں بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ دراصل، ترسیلاتِ زر کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کے لیے اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ اندازہ ہے کہ تقریباً ایک ارب افراد (تارکینِ وطن اور ان کے خاندان)2015ء سے 2030ء کے درمیان بین الاوقوامی ترسیلاتِ زر کی مد میں 6.5ٹریلین ڈالر ترقی پذیر ملکوں کو بھیجیں گے۔ صرف 2017ء میں تارکینِ وطن نے481 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر اپنے خاندانوں کو بھیجیں۔ ان میں سے 466ارب ڈالر ترقی یافتہ ملکوں سے ترقی پذیر ملکوں کو بھیجے گئے، جس سے 80کروڑ خاندان مستفید ہوئے۔ یہ خاندان ترسیلاتِ زر کے حصول کے ذریعے راشن خریدنے اور چھت تلے زندگی گزارنے کے لائق بن پاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اگر اس میں ایئر ٹائم، بین الاقوامی ادائیگیوں، کیری -آن ٹرانسفرز اور حوالہ و ہنڈی کے ذریعے بھیجی گئی رقوم کو شامل کرلیا جائے تو ترسیلاتِ زر کی مجموعی مالیت ایک ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔

تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس میں سے 75فی صد رقوم متعلقہ خاندان اپنی فوری بنیادی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرتے ہیں اور 25فی صد رقوم، جوکہ 100ارب ڈالر سالانہ سے زائد بنتی ہیں، دیگر مقاصد کے لیے مختص کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترسیلاتِ زر کے ذریعے ترقی پذیر ملکوں میں آنے والی رقوم، ترقی یافتہ ملکوں سے ترقی پذیر ملکوں کو حاصل ہونے والی امداد اور سرمایہ کاری کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔

ہرچند کہ بین الاقوامی ترسیلاتِ زر کا سالانہ مجموعی حجم کئی ارب ڈالر ہے، تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ انفرادی سطح پر تارکینِ وطن ہر ماہ اپنے خاندان کو200سے 300ڈالر بھیجتے ہیں۔ اگر اس رقم کا مؤثر استعمال کیا جائے تو یہ ان خاندانوں کا معیارِ زندگی بلند کرسکتا ہے۔ان چند سو ڈالر کی ماہانہ رقوم کے ذریعے ہر خاندان انفرادی طور پر اپنے پائیدار ترقی کے اہداف (غربت میں کمی، بہتر صحت اور غذا، تعلیم کے مواقع، بہتر رہائش و نکاسی آب، انٹرپرینیور شپ، مالیاتی شمولیت، عدم مساوات میں کمی، بچتوں میں اضافہ اور اثاثہ جات بناکر اپنے لیے مستحکم مستقبل کی تشکیل) طے کرتے اور حاصل کرتے ہیں۔

تازہ ترین